تبلیغی جماعت کی ناعاقبت اندیشی حکومت کے لئے نعمت ثابت ہوئی...عبید اللہ ناصر

تبلیغی جماعت کے واقعہ نے حکومت کو ایک ہتھیار فراہم کردیا اور اپنی نااہلی چھپانے کے لئے پورے ملک میں کورونا کے جتنے معاملات سامنے آئے اس کی ذمہ داری جماعتیوں پر ڈال دی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

عبیداللہ ناصر

کورونا وائرس دنیا بھر میں عتاب الہی کے طور پر نازل ہوا ہے امریکا جیسا ملک بھی اس کے سامنے بے یار و مددگار ثابت ہو رہا ہے، ایک طرح سے دیکھا جائے تو دنیا کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ والے اس ملک میں کورونا نے تمام ترقیوں اور سائنسی معلومات کو ناکارہ ثابت کر دیا ہے تو دیگر ملکوں کا کیا مقابلہ، دیر سے ہی سہی لیکن ہندوستان بھی اس کی چپیٹ میں آ گیا ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ ابھی ہمارے ملک میں اس نے وبائی شکل نہیں اختیار کی ہے اور ہمارے حالات امریکا، اٹلی، ایران اور چین جیسے نہیں ہوئے ہیں۔ لیکن پورا ملک اس بیماری اور اس سے بھی زیادہ اس بیماری کی دہشت میں مبتلا ہے۔

24 مارچ سے وزیراعظم نے پورے ملک میں لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا ہے تب سے تا دم تحریر پورے ملک کی زندگی جیسے رکی ہوئی ہے۔ ساری سماجی اور معاشی سرگرمیاں ٹھپ پڑ گئیں ہیں، لوگ گھروں میں خانہ قید ہیں اور اپنے وسائل یہاں تک کہ اشیاۓ خورد و نوش بھی بہت احتیاط سے خرچ کر رہے ہیں کیونکہ کسی کو نہیں معلوم کہ یہ لاک ڈاؤن کتنے دنوں تک چلے گا۔ ان حالات میں جس طرح سماجی خدمت کے لئے لوگ سامنے آئے ہیں اور بلا تفریق مذہب وملت انسانی خدمات انجام دے رہے ہیں، اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے، ہر شہر، ہر محلہ، ہر گلی، ہر گاؤں میں ضرورت مندوں کو ضروری اشیا فراہم کرنے کے لئے نوجوانوں کی ٹولیاں سرگرم ہیں اور اس آفت کا متحد ہو کر مقابلہ کرنے کا جو جذبہ سامنے آیا ہے وہ انسانیت پر اعتماد مستحکم کرنے والا ہے، ایسے ہی انسانیت نوازوں سے انسانیت زندہ ہے۔


اسی کے ساتھ طبی عملہ اور پولیس والوں کی خدمات کو خراج تحسین نہ پیش کرنا نا انصافی ہوگی جو ان مشکل حالات میں اپنی جان جوکھم میں ڈال کر انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں، حالانکہ بہت سی جگہوں سے پولیس کے مظالم کی خبریں بھی آ رہی ہیں، لیکن عوام کو ان کے گھروں میں ہی محصور رکھنے، بھیڑ نہ لگانے کے لئے سختی ضروری بھی ہے۔

ایک تلخ حقیقت بہر حال سامنے آئی ہے کہ اگر حکومت ہند نے ابتداء میں ہی احتیاطی اور تدارکی اقدام کیے ہوتے تو ہندوستان کافی حد تک اس وباء سے محفوظ رہتا، جبکہ جنوری ماہ میں ہی راہل گاندھی نے مودی حکومت کو آگاہ کر دیا تھا کہ کورونا وائرس خطرہ بن کے سامنے آ رہا ہے، چین، اٹلی اور ایران وغیرہ سے پریشان کن خبریں آ رہی تھیں۔ 13 مارچ کو مرکزی وزارت صحت کا بیان آتا ہے کہ کورونا ہندوستان کے لئے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ 19 مارچ تک ماسک اور وینٹی لیٹر وغیرہ کا ایکسپورٹ جاری رہا اور اب ملک میں ان کی قلت محسوس کی جا رہی ہے، اس کوتاہی کی ذمہ داری بھی متعین کی جانی چاہیے۔ حکومتی لاپرواہی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ ہوائی اڈوں پر غیر ممالک سے آنے والے مسافروں کی طبی جانچ تک نہں ہوئی اور اس طرح پورے ملک میں مشکوک متاثرین کو پھیل جانے دیا گیا۔


22 مارچ کو مودی جی ملک سے خطاب کر کے 23 مارچ کو ملک بھر میں تھالی بجانے کی تلقین کرتے ہیں، اس دن تک تمام سیاسی، سماجی، مذہبی سرگرمیاں اور بھیڑ کے اکٹھا ہونے کا سلسلہ جاری رہا۔ مدھیہ پردیش میں بی جے پی کی حکومت بننے کا جشن ہو یا ایودھیا میں رام للا کی مورتی کے سلسلہ میں ہونے والے جشن میں اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کی شرکت۔ اس سے قبل لکھنؤ میں سنگر کنیکا کپور کے جشن میں ریاستی وزراء، افسران، ممبران اسمبلی و پارلیمنٹ کی شرکت اور دیگر تقاریب میں لوگوں کی شرکت جاری رہی۔

24 مارچ کو اچانک رات آٹھ بجے مودی جی پھر ٹی وی پر نمودار ہوتے ہیں اور پورے ملک میں لاک ڈاؤن کا اعلان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آج رات 12 بجے کے بعد جو جہاں ہے وہیں رک جائے۔ نوٹ بندی کی طرح اچانک ہوئے اس اعلان سے عوام حیرت زدہ رہ جاتے ہیں۔ دہلی سمیت پورے ملک میں لاکھوں مزدوروں اور دیگر محنت کشوں کے سامنے ایک زبردست مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے، پریشان حال مزدور لاکھوں کی تعداد میں اپنی بیوی، بچوں سمیت پیدل ہی اپنے اپنے گاؤں کی طرف چل دیتے ہیں۔ لاک ڈاؤن کا سارا مقصد ہی عوام کے اس سیلاب کے سامنے فیل ہو جاتا ہے، کوئی یقین نہیں کر سکتا کہ کوئی حکومت اتنی غیر ذمہ داری اور عجلت میں ایسا احمقانہ فیصلہ کیسے کر سکتی ہے۔ لیکن ہندوستان میں مودی جی کے بھکت اور ان کا دلال میڈیا ان کے ہر فیصلہ کو بے چوں و چرا تسلیم کر لیتا ہے۔


اسی دوران شامت اعمال تبلیغی جماعت کا معاملہ سامنے آ جاتا ہے۔ اب حکومت کی ہر نا اہلی، ہر بیوقوفی اور ہر غیر ذمہ دارانہ حرکت پر پردہ ڈالنے کا ایک بہترین حربہ حکومت کو مل جاتا ہے۔ یہی نہیں اس سے سیاسی فائدہ اٹھانے کا بھی بہترین موقعہ اس کے ہاتھ لگ جاتا ہے، پورے ملک میں کورونا جتنے معاملات سامنے آئے اس کی ذمہ داری جماعتیوں پر ڈال دی جاتی ہے۔

ایسا نہیں کہ اس معاملہ میں جماعت دودھ کی دھلی ہو کیونکہ جب پوری دنیا میں یہ وباء پھیلی ہوئی تھی عام آدمی بھی جانتا تھا کہ آپسی میل ملاپ سے یہ وائرل پھیلتا ہے۔ دہلی حکومت نے کچھ احتیاطی تدابیر بھی کی تھیں، کچھ پابندیاں بھی لگائی تھیں، تو ان حالات میں جماعت کا بین اقوامی اجتماع منعقد کرنا کسی بھی طرح حق بجانب نہیں قرار دیا جا سکتا۔ سرکاری مداخلت نہ ہوتے ہوئے بھی جماعت کو خود اپنا مذکورہ پروگرام ملتوی کر دینا چاہیے تھا۔ دوسری جانب جماعت کے مرکزی دفتر سے ملحق نظام الدین تھانہ بھی اپنی جواب دہی سے بچ نہیں سکتا، کیونکہ اس نے یہ اجتماع کیوں ہونے دیا۔


وزیر اعظم کے لاک ڈاون کے اعلان سے قبل خاصی تعداد میں جماعتی اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے تھے، پھر بھی قریب ایک ہزار لوگ وہاں پھنس گئے جن کو واپس بھیجنے کے لئے سرکار سے ضروری پاس وغیرہ مانگا گیا لیکن بات کا بتنگڑ بن ہی گیا اور حکومت کی تمام تر کوتاہیاں پس پشت چلی گئیں اور پورے ملک میں کورونا پھیلنے کی زمہ داری تبلیغی جماعت کے سر ڈال دی گئی، اس طرح کچھ اپنی ضد اور ہٹ دھرمی، کچھ حکمران وقت کی سازش سے جماعت پورے ملک میں ولن بن کے سامنے آئی ہے، سنگھ کی پروپیگنڈہ مشینری پوری طاقت سے جماعت کے حوالے سے مسلمانوں کے خلاف مہم چلا رہی ہے، چونکہ حکومت سے سوال کرنے کی جمہوری روایت تو پہلے ہی ختم ہو چکی تھی اب اس وباء اور اس ماحول میں وہ دفن ہی کر دی گئی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔