انتخابی بحث میں غریبی کا ذکر مثبت نظریہ کا مظہر

راہل گاندھی کا واعدہ یونیورسل بیسک انکم یعنی کم از کم آمدنی کی گارنٹی کی طرح ہے، جس پر پوری دنیا میں بحث چل رہی ہے۔ یہ بحث اس لئے ہے کیونکہ بے روزگاری بڑھنے سے عالمی بازار میں مانگ کم ہو گئی ہے۔

کانگریس صدر راہل گاندھی
کانگریس صدر راہل گاندھی
user

ڈاکٹر ایم ایچ غزالی

اکیسویں صدی میں بھی بھارت غریبی سے نجات حاصل نہیں کر سکا ہے۔ ترقی کے سارے دعووں کے باوجود امیری غریبی کی کھائی چوڑی ہوئی ہے۔ اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ ملک میں "ڈالر بلینرس" یعنی ارب پتیوں کی تعداد 150 سے زیادہ ہو گئی ہے۔ اتنے ارب پتی تو جاپان میں بھی نہیں ہیں، جبکہ وہ ہم سے کہیں زیادہ دولت مند ملک ہے۔ ہمارے یہاں ترقی بھلے ہی ٹریکل ڈاؤن اصول کے خیال پر مبنی ہے، لیکن یہاں اعلیٰ طبقہ کی ترقی تو ہوئی مگر اس کا فائدہ سماج کے نچلے طبقات کو بہ مشکل ہی مل سکا ہے۔ اس کی وجہ سے ریلوے اسٹیشن، بس اڈے، مذہبی مقامات کے باہر، سرکاری اسپتال، فٹ پاتھ، شہروں کی جھگیوں میں بھارت کی غریبی چیخ چیخ کر اپنا درد بیاں کر رہی ہے۔ لیکن اس چیخ کو ہمیشہ ان سنا کر دیا جاتا ہے۔ سیاسی جماعتیں عموماً اس پر بات کرنے سے بچتی ہیں۔

غور سے دیکھیں تو ہر سیاسی جماعت اپنے ایجنڈے میں غریبوں کی بات کرتی ہے، لیکن جو پالیسی بنتی ہے اس کا فائدہ امیروں کو ہی ہوتا ہے۔ غریبوں کے حصہ میں صرف بھاری بھرکم الفاظ کی سوغات آتی ہے۔ جبکہ ذات، مذہب کے فرق سے کہیں زیادہ مارک اقتصادی فرق ہوتا ہے۔ اس صورت حال کا مقابلہ امیر غریب کی کھائی کو کم کرکے کیا جا سکتا ہے۔ اسے پوری طرح پاٹنے کی بات تو آسمان سے تارے توڑنے جیسی ہے۔ مگر ملک کی صحیح معنوں میں ترقی تبھی ممکن ہے جب امیری غریبی کے بیچ کا فرق کم ہوگا۔ راہل گاندھی کی نیائے اسکیم کے اعلان سے اقتصادی ناہمواری کے کم ہونے کی آس بندھی ہے۔ سیاسی مبصرین اسے الیکشن کے پہلے بڑا داؤں بتا رہے ہیں۔ جبکہ راہل گاندھی نے اسے غریبی پر سرجیکل سٹرائیک قرار دیا اور کہا کہ 21 ویں صدی میں ہمیں غربت منظور نہیں۔

الیکشن سے پہلے کانگریس صدر راہل گاندھی نے اعلان کیا کہ اگر ان کی پارٹی حکومت بناتی ہے، تو ملک کے پانچ کروڑ غریب خاندانوں کی غریبی مٹانے کے لئے اوسطاً 72000 روپے سالانہ دیئے جائیں گے۔ اسکیم کا مقصد ملک کے ہر غریب خاندان کی کم از کم آمدنی 12 ہزار روپے کرنا ہے۔ ملک کے 20 فیصد سب سے غریب خاندانوں کے لئے یہ اسکیم فائدہ مند ہوگی۔ کم از کم آمدنی کی گارنٹی اسکیم یعنی نیائے کے اعلان سے بھاجپا کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔ اس نے شک و شبہات اور سوالات کرنے شروع کر دیئے۔ بی جے پی نے کچھ اسی طرح کی مین میخ اس وقت بھی کی تھی جب یو پی اے نے آر ٹی آئی قانون لاگو کر جمہوریت کو، منریگا سے معاشی نظام کو مضبوط کیا تھا اور ملک میں کوئی بھوکا نہ سوئے اس کو یقینی بنانے کے لئے فوڈ سیکورٹی بل پاس کرایا تھا۔ منریگا کے نفاذ کے وقت بھی اس پر عمل درآمد کو لے کر شک کیا گیا تھا، لیکن گاؤں قصبات کے غریب جانتے ہیں کہ اس اسکیم نے انہیں بہتر زندگی کے ساتھ عزت سے جینے کا موقع دیا۔

راہل گاندھی کا واعدہ کچھ کچھ یونیورسل بیسک انکم یعنی کم از کم آمدنی کی گارنٹی کی طرح ہے، جس پر ان دنوں پوری دنیا میں بحث چل رہی ہے۔ یہ بحث اس لئے ہے، کیونکہ بے روزگاری بڑھنے سے عالمی بازار میں مانگ کم ہو گئی ہے اور دنیا کی معیشت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ نیائے آسکیم کا ملک کی معیشت پر اچھا اثر پڑے گا۔ غریب کی جیب میں پیسہ آنے سے اس کی قوت خرید بڑھے گی۔ جس سے معیشت میں مانگ پیدا ہوگی۔ صنعتوں کی پیداوار میں اضافہ ہوگا اور روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ اس لئے ماہرین معاشیات اس اسکیم کو سراہ رہے ہیں لیکن بی جے پی حواس باختہ ہو کر اس میں کیڑے نکال رہی ہے۔ ارون جیٹلی نے پریس کانفرنس کر اسے کانگریس کا دھوکہ بتایا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ کانگریس الیکشن جیتنے کے لئے غریبوں کی بات کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مودی سرکار تو پہلے ہی ڈائریکٹ بینیفٹ ٹرانسفر (ڈی بی ٹی) اسکیم سے ہر غریب کنبہ کو ہر سال 106000 دے رہی ہے۔

سیاسی جماعتوں کو حق ہے کہ وہ ایک دوسرے پر تنقید کریں ۔ لیکن یہ تنقید حقیقت اور اعداد وشمار پر مبنی ہونی چاہیے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بی جے پی نے غریب کنبوں کو اگر سالانہ ایک لاکھ چھ ہزار روپے دیئے تو بھارت سے غریبی مٹی کیوں نہیں؟ رہی بات الیکشن جیتنے کے لئے نیائے اسکیم کے اعلان کی تو انہیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ مودی نے تو 15 لاکھ روپے بھارت کے ہر شہری کے کھاتہ میں سیدھے ڈالنے کا وعدہ کیا تھا جو بعد میں جملہ ثابت ہوا۔ اعداد یہ بھی بتاتے ہیں کہ پانچ سالوں میں مودی سرکار نے اپنی تشہیر اور ایڈورٹائزنگ پر پانچ ہزار کروڑ روپے سے زیادہ خرچ کیے ہیں۔

بہر حال اس بار حالات بدلے ہوئے ہیں، رائے دہندگان جاننا چاہتے ہیں کہ وہ کسی بھی پارٹی کو کیوں منتخب کریں۔ جیت کے لئے عوام کو یہ تو بتانا ہی پڑے گا کہ وہ آپ کا انتخاب کیوں کرے، آپ اس کے لئے ایسا کیا کریں گے کہ وہ آپ کے ہاتھوں میں ملک کی کمان سونپے۔ مودی سرکار کے رپورٹ کارڈ میں بتانے کے لئے ایسا کچھ نہیں ہے جو اسے ووٹ دلا سکے۔ اس لئے بی جے پی بوکھلائی ہوئی ہے۔ اپنی بوکھلاہٹ کو چھپانے کے لئے اس نے "میں بھی چوکیدار" مہم کا سہارا لیا ۔ اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد کو مہا ملاوٹ بتا رہی ہے جبکہ وہ خود 31 پارٹیوں کے ساتھ مل کر الیکشن لڑ رہی ہے۔ حد تو تب ہو گئی جب یوپی میں تین پارٹیوں کے اتحاد کو "سراب" کہہ دیا۔ بی جے پی شکتی مشن کی کامیابی کا کریڈٹ سائنس دانوں کے بجائے خود لینے کی کوشش میں ہے۔ دراصل وہ ایشوز کو نظر انداز کر غیر ایشوز میں عوام کو بھٹکا کر الیکشن جیتنا چاہتی ہے۔

راہل گاندھی کے کم از کم آمدنی کی گارنٹی اسکیم کی کاٹ کے طور پر مودی سرکار نے مخصوص کیٹگری کے کسانوں کو چھ ہزار روپے سالانہ دینے کا اعلان کیا۔ حکومت کے اس فیصلہ سے بی جے پی کی جگ ہنسائی ہوئی تو راہل گاندھی کی اسکیم کو سبوتاژ کرنے کے لئے میڈیا کو لگا دیا گیا۔ میڈیا نے نیائے اسکیم کے خلاف منفی پروپیگنڈہ اور تبصرہ کے ذریعہ عوام کو گمراہ کرنے کی دانستہ کوشش کی، لیکن ورلڈ انکولٹی لیب کی رپورٹ نے بی جے پی کی غریبوں کی حمایت کی قلعی کھول دی۔ اس نے کانگریس اور بی جے پی کی پالیسیوں کا تجزیہ کرکے کہا کہ کانگریس کی نیائے اسکیم گیم چینجر ثابت ہو سکتی ہے۔ ورلڈ انکولٹی لیب کی رپورٹ کے اثر کو کم کرنے کے لئے ارون جیٹلی کی جگہ نیتی آیوگ کے صدر کو آگے کر دیا گیا۔ حالانکہ وہ ماہر اقتصادیات نہیں ہیں لیکن انہیں نیائے اسکیم میں کمیاں نظر آ رہی ہیں۔

ماہرین معاشیات کا ماننا ہے کہ نیائے اسکیم کو لاگو کرنے کے لئے 3.6 کروڑ روپے درکار ہوں گے۔ اس کا ملک کے خزانہ پر بھاری دباؤ پڑے گا۔ واقعی یہ معمولی رقم نہیں ہے۔ لیکن اگر حکومت کی قوت ارادی مضبوط ہو تو یہ رقم جٹائی جا سکتی ہے۔ اس وقت ملک 35 طرح کی سبسڈی میں تین لاکھ 34 ہزار کروڑ روپے خرچ کرتا ہے۔ تقریباً اتنی ہی رقم امیروں کی قرض معافی اور انہیں دیگر سہولیات فراہم کرنے پر خرچ ہو رہی ہے۔ 75 ہزار کروڑ روپے پہلے ہی حکومت نے 12 ہزار غریب کسانوں کے لئے مختص کر رکھے ہیں۔ کچھ پیسہ سبسڈی سے بچایا جائے، باقی رقم کارپوریٹ ٹیکس میں چھوٹ کو کم کرکے اکٹھا کیا جا سکتا ہے۔ بنکوں کا این پی اے یعنی قرض میں ڈوب چکی رقم دسمبر 2017 میں 8.86 ٹرلین روپے تھی، جو مارچ 2018 میں بڑھ کر 10.25 ٹرلین یعنی 10 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ ہو چکی تھی۔ بنکوں کا پیسہ لے کر بھاگنے والے بڑے کارپوریٹ، صنعت کار اور کاروباری ہیں کوئی غریب تو ہر گز نہیں ہے۔ اگر لاکھوں کروڑ روپے کے قرض میں ڈوبنے کا بوجھ سرکاری خزانے پر ڈالا جا سکتا ہے۔ تو 25 کروڑ لوگوں کی زندگی کے معیار کو بہتر بنانے اور انہیں غریبی کے دلدل سے نکالنے کے لئے کیوں نہیں؟ بہر حال راہل گاندھی کی نیائے اسکیم کے اعلان سے ہی سہی غریبوں کا ذکر الیکشن کی بحث کے مرکز میں آ یا تو، یہ ملک کی سیاست کے لئے اچھا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔