’میلہ لگا رے، بابا کے دربار میں‘!

باگیشور دھام کے بابا کی بی جے پی و قومی میڈیا کے ذریعے ہنگامہ خیز حمایت اس لیے ہے کہ بابا کے اس پاکھنڈ سے پردہ نہ اٹھے جس کے سہارے اندھ بھکتوں کی فوج تیار ہوتی ہے۔

<div class="paragraphs"><p>دھیریندر کرشنا شاستری</p></div>

دھیریندر کرشنا شاستری

user

اعظم شہاب

باگیشور دھام کے پجاری بابا دھریندر شاستری کی بی جے پی وقومی میڈیا کے ذریعے ہو رہی ہنگامہ خیز حمایت سے یہ بات تو کم ازکم صاف ہوگئی ہے کہ اس کا مقصد صرف باباجی کے چمتکاروں کی مدافعت یا ان پراعتراض کرنے والوں کو جواب دینا ہی نہیں ہے۔ اگر ایسا ہی ہوتا تو ابھی تک باباجی اپنے کسی دیگر چمتکار سے چیلنج کرنے والوں کا جواب دے دیئے ہوتے۔ اس سے اعتراض کرنے والے بھی خاموش ہوگئے ہوتے اور بابا جی کا مارکیٹ ویلو بھی بڑھ جاتا۔ آخر چیلنج بھی تو یہی کیا گیا تھا نا کہ بابا اپنے دعوے کو ثابت کریں۔ لیکن چونکہ بابا جی کے پاس سوائے بندیل کھنڈی گالیوں کے کچھ  اور نہیں ہے۔ اس لیے اس کا رخ مسلمانوں اور عیسائیوں کی جانب موڑتے ہوئے ’چادر و فادر‘ کا فارمولہ لایا گیا ہے۔

سنسکرت کا ایک لفظ ہے ’ہٹ دھرمی‘ جو ہندی و اردو میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ اپنی غلطی کا جواز کسی اور کی غلطی سے حاصل کرتے ہوئے اپنی بات پر اَڑ جانا۔ بابا جی کے معاملے میں بھی یہی ہو رہا ہے۔ ان کی توہم پرستی کا جواز درگاہوں پر چادر چڑھانے یا چرچوں میں قندیل جلانے سے حاصل کیا جا رہا ہے۔ لیکن ایسا کرنے والے یہ بھول جاتے ہیں چادر یا قندیل توہم پرستی کی نہیں بلکہ عقیدے واحترام کی علامت کے طور پر ہیں۔ اگر چادر وقندیل کو ہی باباجی کی توہم پرستی کا جواز بنایا جائے تو پھر مندروں و چرچوں میں بجنے والے گھنٹے اور مسجدوں میں دی جانے والی اذانوں پر بھی اعتراض کیا جاسکتا ہے۔ اس سے تو مذہبی اعمال و عبادات پر بھی سوالیہ نشان لگ جائے گا؟ جبکہ یہاں تو صرف بابا کو اپنی دیویہ شکتی کو ثابت کرنے کے لیے چیلنج کیا گیا تھا۔


توہم پرستی کے خلاف ملک کی کئی ریاستوں میں قانون بھی بنے ہیں۔ بہار، چھتیس گڑھ، جھارکھنڈ، اڈیسہ، راجستھان، آسام، مہاراشٹر اور کرناٹک میں توہم پرستی کے خلاف مختلف قوانین نافذ ہیں جن میں 6 ماہ سے لے کرسات سال تک قید کی سزا دی جاسکتی ہے۔ تمام قوانین میں دیویہ شکتی کے دعویداروں پر نکیل کسی گئی ہے۔ کوئی چادر یا فادر والا کسی دیویہ شکتی کا دعویدار نہیں ہوتا۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ باباجی کے ذریعے جس دیویہ شکتی یا چمتکار کا دعویٰ کیا جا رہا ہے اس کا تعلق نہ تو مسلمانوں سے ہے اور نہ ہی عیسائیوں سے۔

عقیدت اور توہم پرستی کے درمیان کا واضح فرق علم اور جہالت کا سا ہے۔ عقیدت مند اپنے نظریے کا کوئی نہ کوئی منطقی جواز رکھتا ہے جبکہ توہم پرست آنکھ موند کر یقین کرتا ہے۔ موجودہ دور میں ایسے لوگوں کو اندھ بھکت بھی کہا جاتا ہے۔ اندھ بھکتی کے شکار لوگوں کی خاص بات یہ ہوتی ہے کہ وہ سورج کی سی واضح سچائی کو بھی تسلیم کرنے کے بجائے جو انہیں بتایا جاتا ہے اس پر آنکھ موندکر یقین کرتے ہیں۔ ایسی ہی توہم پرستی اور اندھ بھکتی کا مظاہرہ آج کل  بابا دھرمیندر شاستری کے معاملے میں بھی ہو رہا ہے۔ باباجی کہتے ہیں کہ ”ہم لوگوں کی عرضیاں بھگوان تک پہنچاتے ہیں اوربھگوان ان کا سمادھان کرتے ہیں“ اوران کے ماننے والے اس پر یقین بھی کرلیتے ہیں۔


دلچسپ بات یہ ہے کہ باباجی کے دربار میں حمایت کا میلہ لگانے والوں نے بڑی ہوشیاری سے بابا جی کے توہم پرستی کی مخالفت کو سناتن دھرم کی مخالفت میں تبدیل کر دیا۔ کوئی بھی اگر بابا دھریندرشاستری کے اس دعوے پر اعتراض کرتا ہے یا ان سے اس کی کوئی تصدیق چاہتا ہے تو گویا وہ بابا کا نہیں بلکہ سناتن دھرم کی مخالفت کرتا ہے۔ پھر چاہے وہ اندھ شردھا نرمولن سمیتی کے شیام مانو ہوں، ماہرنفسیات ڈاکر پریتی شکلا ہوں، ڈاکٹر ارچنا شرما ہوں، پروفیسر دلیپ منڈل ہوں یا پھر شنکراچاریہ سوامی اَوی مکتیشورانند سرسوتی ہوں۔ ہرکسی کو بی جے پی و قومی میڈیا کے ذریعے سناتن مخالف بنایا جا رہا ہے۔

بابا جی کی حمایت میں بی جے پی کے کیلاش وجیہ ورگیہ سے لے کر گری راج سنگھ وکپل مشرا تک اور پتانجلی کے لالا جی سے لے کر سادھوی پراچی تک خم ٹھونک کر میدان میں کو پڑے ہیں۔ اب تو ان کی حمایت میں دہلی سے لے کر مدھیہ پردیش تک مظاہرے بھی ہونے لگے ہیں اور بات منھ توڑ جواب دینے تک پہنچ گئی ہے۔ دوسری جانب قومی میڈیا کا یہ حال ہے شاید ہی کوئی ایسا چینل ہو جس پر باباجی کی حمایت میں کوئی پروگرام نہ ہو رہا ہو۔ کوئی باباجی کو وجیہ اور خوبصورت بتاکر ان کے کرتوتوں کو بلیک اینڈ وائٹ کر رہا ہے تو کوئی تال ٹھونک رہا ہے۔ تمام قومی چینلوں کو چھوڑیئے، صرف اے بی پی نیوز پر بابا کی حمایت کا یہ حال ہے کہ گزشتہ دو دنوں میں 12/سو سے زائد ویڈیوز ریلز کی چاچکی ہیں۔ گویا توہم پرستی پھیلانے میں قومی میڈیا بھی اپنی ذمہ داری نبھا رہا ہے۔


سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ سب محض ایک بابا کے مخالفین کو جواب دینے کی غرض سے ہے جس کے بارے میں حمایت کرنے والوں کو بھی معلوم ہے کہ بابا جی تکا مارتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ اس پوری ایکسرسائز کا مطلب کچھ اور ہے اور وہ یہ ہے کہ بابا کے اس پاکھنڈ پر پردہ پڑے رہنے دیا جائے جس کے سہارے ان اندھ بھکتوں کی فوج میں اضافہ ہوتا ہے جو عقل کو بالائے طاق رکھ کر ووٹ بینک کی صورت میں بی جے پی کی جھولی میں گرجاتے ہیں۔ گویا بابا جی کی حمایت ان کے دعوے کے برحق یا جھوٹا ہونے کی بناء پر نہیں ہے بلکہ یہ ووٹ بینک کی سیاست کے طور پر ہے۔ کیونکہ اس طرح کے بابا لوگ ہی اس منافرت کی سیاست کو کھاد پانی فراہم کرتے ہیں جو بی جے پی کی سیاست کے عین موافق ہوتی ہے۔

سچائی یہ ہے کہ گزشتہ آٹھ سالوں میں ہمارے وطن عزیز میں ایک ایسا ایکوسسٹم وجود میں آگیا ہے جس میں صرف اور صرف مسلم دشمنی کی ہی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ باباجی کے منافرت پر مبنی پروچن اس ایکوسسٹم کے لیے نہایت موزوں ہوتے ہیں۔ جب وہ کہتے ہیں کہ ’اپنے اپنے گھروں میں ہتھیار رکھو اور حکومت کا انتظار کرنے کے بجائے خود ہی بلڈوزر چلاؤ‘ تو اس ایکوسسٹم میں رہنے والے لوگ تالیاں بجانے لگتے ہیں۔ جب بابا یہ کہتے ہیں کہ ’ہم نے اتنے لوگوں کو ہندو مذہب میں واپس لایا اور اتنے لوگوں کو لانے والے ہیں‘ تو یہ بات ایسے لوگوں کو بہت اپیل کرتی ہے جنہیں گزشتہ آٹھ نو سالوں میں یہ بتایا گیا ہے کہ مسلمان ’دھرمانترن‘ کراتے ہیں اور ان کی گھر واپسی ہونی چاہئے۔


ظاہر ہے کہ اس ایکوسسٹم کے لیے آسارام سے لے کر نرمل بابا تک اور رام رحیم سے لے کر بابا دھریندرشاستری تک نہایت موزوں ہوتے ہیں۔ باباجی کے دربار میں بی جے پی لیڈروں اور قومی میڈیا کا جو میلہ سا لگا ہے وہ اسی ایکوسسٹم کے لوگوں کو اپیل کرنے کے لیے ہے۔ مودی جی کے دیگر نعروں میں سے ایک نعرہ ’آپدا میں اوسر‘ کا بھی ہے۔ بی جے پی کے لیڈروں و قومی میڈیا کے اینکروں نے باباجی کی مخالفت کی ’آپدا‘ میں منافرت کی سیاست کا ’اوسر‘ تلاش کرلیا۔ بی جے پی اور قومی میڈیا میں دھریندر شاستری کی حمایت اسی کا نتیجہ ہے۔

(مضمون میں جو بھی لکھا ہے وہ مضمون نگار کی اپنی رائے ہے اس سے قومی آواز کا متفق ہونا لازمی نہیں ہے)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔