آئین کی دہائی بھی‘ آئین کی توہین بھی!— م. افضل
حالات ابتر اور ناگفتہ بہ ضرور ہیں لیکن ہم مایوس نہیں ہیں!
یہ کتنی عجیب اور افسوسناک بات ہے کہ کچھ لوگ ایک طرف تو آئین کی قسمیں کھاتے اور دہائیاں دیتے ہیں مگر دوسری طرف آئین اور اس کے رہنما اصولوں کی کھلی توہین بھی کرتے ہیں۔ ملک کا آئین ایک سیکولر آئین ہے جس میں مساوات پر زور دیتے ہوئے واضح لفظوں میں کہاگیا ہے کہ ملک کے ہر شہری کو یکساں حقوق حاصل ہیں اور مذہب، ذات، جنس یا برادری کے نام پر ان کے ساتھ کسی طرح کا امتیاز نہ ہوگا۔ ہمیں یہ کہنے میں کوئی تامل یا جھجھک نہیں ہے کہ آر ایس ایس کے لوگ روز اول سے اس آئین کو مسترد کرتے آئے ہیں۔ ان کا نظریہ اور ایجنڈہ بالکل آئینہ کی طرح صاف ہے۔ ہندتوا ان کا بنیادی نظریہ اور ایجنڈہ ملک کو ’ہندوراشٹر‘ بناناہے۔
اپنے اس نظریہ کے فروغ اور ایجنڈہ کو آگے بڑھانے میں آر ایس ایس آزادی کے بعد ہی سے مصروف ہے۔ اس کوعملی شکل دینے کے لئے اسے اقتدار کی ضرورت تھی، جو مودی سرکار کی شکل میں اسے حاصل ہوچکا ہے۔ حالانکہ عرصہ پہلے این ڈی اے کی شکل میں باجپائی سرکار قائم ضرور ہوئی تھی لیکن تب آر ایس ایس اپنا ایجنڈہ نافذ کرنے میں ناکام رہی تھی۔ اس کی بنیادی وجہ تو یہی تھی کہ تب بی جے پی اکثریت میں نہیں تھی اور دوسری کئی پارٹیوں کی حمایت سے اس کی سرکار قائم ہوئی تھی لیکن اب جبکہ بی جے پی اکثریت کے ساتھ اقتدار میں ہے، آر ایس ایس بڑی خوبصورتی کے ساتھ، غیر محسوس طریقہ سے، اپنے ایجنڈہ کو نافذ کرتی جارہی ہے، حالانکہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ آر ایس ایس ایک ثقافتی تنظیم ہے اور یہ کہ اقتدارسے اس کا کچھ لینا دینا نہیں ہے لیکن یہ پروپیگنڈہ محض ایک فریب اور ’چھلاوہ‘ ہے۔ مرکزمیں نریندرمودی کی قیادت میں بہ ظاہر ’این ڈی اے‘کی سرکار ہے۔ لیکن عملاً اقتدار کی باگ ڈور آر ایس ایس کے ہاتھ میں ہے۔ اس کا مشاہدہ ہم روز کرتے ہیں۔ تمام اہم سرکاری اداروں کی سربراہی ان کے حوالہ کی جارہی ہے جو آر ایس ایس سے وابستہ رہے ہیں، یہاں تک کہ ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ کے انتخاب میں بھی اب ان لوگوں کو اولیت دی جارہی ہے جن کا بہ ظاہر کوئی سیاسی پس منظر نہیں ہے مگر کسی نہ کسی طور وہ آر ایس ایس سے وابستہ رہے ہیں۔ ہریانہ اور اتراکھنڈ کے وزرائے اعلیٰ کی مثال سامنے ہے۔
ان سب کے درمیان قابل ذکر پہلو یہ ہے کہ ہر موقع پر آئین کا حوالہ تمام تر احترام کے ساتھ پیش کیاجاتا ہے۔ زیادہ دور نہ جائیں، نریندرمودی نے جب وزیراعظم کے عہدہ کا حلف لیا تھا تو انہوں نے بھی آئین سے وفاداری کا حلف لیا تھا اور ملک کے ہر شہری کے ساتھ انصاف کرنے کا وعدہ بھی کیا تھا۔ ’سب کا ساتھ، سب کا وکاس‘ کا دلفریب نعرہ بھی انہوں نے دیا تھا مگر ان تین برسوں کے دوران اگر ایماندارانہ تجزیہ کیاجائے تو یہ افسوسناک حقیقت سامنے آجاتی ہے کہ آئین سے وفاداری کا حلف ایک دکھاوا اور سب کا ساتھ سب کا وکاس کا نعرہ ایک فریب ہے۔ ملک کی اقلیتوں اور دلتوںکو جہاں بے دست وپا کردینے کی خطرناک مہم بھی جاری ہے۔ وہیں انصاف اور حقوق کے لئے جمہوری طریقہ سے اٹھنے والی آوازوں کو ’خاموش‘ کردینے کی دانستہ اور خطرناک کوششیں بھی۔ موجودہ سرکار کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔
اب اس کا اعتراف عالمی طورپر ہورہا ہے کہ مودی سرکار کے آنے کے بعد سے ہندوستان میں مذہبی شدت پسندی میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ میڈیا اور خاص طورپر الیکٹرانک میڈیا کا ایک بڑا حلقہ سرکار کی پروپیگنڈہ مہم کا حصہ بن چکا ہے۔ چنانچہ حالات یہ ہیں کہ ایک ’ایشو‘ ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا ’ایشو‘ اچھال دیاجاتا ہے اور میڈیا اس کی غلط تشہیر میں مصروف ہوجاتا ہے۔ اس وقت پورے ملک میں جو ڈر اور خوف کا ماحول قائم ہے، اسے دانستہ قائم کیاگیا ہے تاکہ لوگ سوال کرنے کا حوصلہ نہ کرسکیں۔ مودی سرکار جو کچھ کررہی ہے، اس پر کوئی انگلی اٹھانے کی جرأت نہ کرسکے۔ اس کا نظارہ گزشتہ دنوں لوک سبھا میں اس وقت دیکھنے کو ملا کہ جب کانگریس کے کچھ ممبروں نے لوک سبھا میں گائے تحفظ کی آڑ میں ملک بھر میں بھیڑ کے ذریعہ دی جانے والی بربریت کے خلاف سوال اٹھایا اور اس اہم مسئلہ پر بحث کرانے کا مطالبہ کیا تو اوّل تو انہیں اس کی اجازت نہیں دی گئی، دوئم جب وہ بضد ہوئے تو انہیں6دن کے لئے پارلیمنٹ سے معطل کردیاگیا۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ گائے تحفظ کی آڑ میں لوگ بے گناہ لوگوں پر جس طرح بربریت کا مظاہرہ کرتے اور انہیں موت کے گھاٹ اتاررہے ہیں، سرکار کی نظر میں اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے، اس کے الٹ راجیہ سبھا میں اس پر بحث ہوئی کیونکہ وہاں بی جے پی ابھی اقلیت ہے۔
اس اہم ’اشو‘ پر ابتدا ہی سے مودی سرکار غلط بیانی اور مصلحت پسندی سے کام لے رہی ہے۔ راجیہ سبھا میں، سرکار میں نمبردو کی پوزیشن رکھنے والے وزیرمالیات ارون جیٹلی نے اس ’اشو‘ پر جو تقریر کی وہ سرکار کے دوہرے رویہ کو اجاگر کردیتی ہے۔ اوّل تو انہوں نے کہاکہ سرکار اس طرح کے کسی بھی تشدد کی اجازت نہیں دے سکتی مگر آگے چل کر انہوں نے آئین کے حوالہ سے یہ اجاگر کیاکہ آئین میں بھی گائے کے تحفظ کی بات کہی گئی ہے۔ وہ یہ وضاحت کرنا بھی نہیں بھولے کہ جس کمیٹی نے آئین تیار کیا تھا اس کے سربراہ ڈاکٹر امبیڈکر تھے۔ گویا آئین کی دہائی دے کر ایک طرف انہوں نے جہاں گئو رکشکوں کی بربریت کو آئینی طورپر درست ٹھیرانے کی کوشش کی وہیں انہوں نے دلتوں کو بھی یہ پیغام دینے کی کوشش کی کہ باباصاحب امبیڈکر بھی گائے کے تحفظ کے حق میں تھے۔
جس روز صدارتی الیکشن کے نتائج آئے تو اپنی کامیابی سے خوش نئے صدرجمہوریہ نے فرمایا کہ وہ اگر اس منصب اعلیٰ تک پہنچے ہیں تو اس کی بنیاد ملک کا آئین ہے۔ یعنی وہ یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ چونکہ ملک کا آئین مساوات اور ہر شہری کے لئے یکساں مواقع کے ساتھ کسی بھی شہری کے ساتھ امتیاز نہیں کرنے کی ہدایت دیتا ہے۔ اس لئے ایک دلت اور غریب گھرانے میں جنم لینے کے باوجود وہ ملک کے صدرجمہوریہ بن سکے۔ عہدہ کی حلف برداری کے بعد انہوں نے جو پہلا خطاب کیا اس میں بھی انہوں نے آئین کے رہنما اصولوں کی روشنی میں کہاکہ تنوع ہی ملک کی کامیابی کی اصل طاقت ہے۔ انہوں نے کہاکہ ملک میں ریاستوں، مذہبی عقائد، زبانوں، ثقافتوں اور معاشرت جیسی کئی چیزوں کا امتزاج دیکھنے کو ملتا ہے۔ ہم بہت مختلف ہیں لیکن پھر بھی ایک اور متحد ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہاکہ ہر چیلنج کے باوجود ہمارے ملک میں آئین کے دیباچہ میں مذکور انصاف، آزادی اور مساوات اور بھائی چارے کے بنیادی اصولوں پر عمل کیاجاتا ہے اور میں ان اصولوں پر ہمیشہ عمل کرتا رہوں گا۔
لیکن اسی تقریب میں آئین کے ان ہی اصولوں کی پامالی کا نظارہ بھی دیکھنے کو ملا جب صدرجمہوریہ بابائے قوم مہاتماگاندھی کے مقابلہ پنڈت دین دیال اپادھیائے کو کھڑاکرنے کی کوشش کی اور ملک کے عوام سے فرمایا کہ وہ مہاتماگاندھی اور دین دیال اپادھیائے کے تصور والا سماج بنائیں ۔ گاندھی کے تصور والے معاشرہ کی تعمیر کرنے کی بات تو سمجھ میں آتی ہے لیکن دین دیال اپادھیائے کے تصور والے سماج کی تعمیر کی بات سمجھ میں نہیں آئی کیونکہ ان دونوں نے سماج کا جو تصور پیش کیا ہے اس میں کوئی مماثلت اور امتزاج ہی نہیں ہے۔ دونوں میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ بات بالکل صاف ہے کہ’آئین‘ اور گاندھی کا ذکر محض ’’زیب داستاں‘‘ کے طورپر اور عالمی برادری کو فریب دینے کے لئے کیاگیا ہے ورنہ ان کی آئیڈیل شخصیت تو دین دیال اپادھیائے ہی ہیں جنہیں اب گاندھی کے مساوی کھڑا کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔ نئے صدرجمہوریہ نے آئین میں درج انصاف اور مساوات کی دہائی ضرور دی مگر آزادی کے بعد، نئے ہندوستان کے معمار پنڈت جواہر لال نہرو عالمی سطح پر ہندوستان کی عظمت کا پرچم لہرانے والی خاتون آہن اندراگاندھی اور اکیسویں صدی کے نئے ہندوستان کی بنیاد رکھنے والے اور کمپیوٹر انقلاب کے بانی راجیوگاندھی کا نام تک نہیںلیا۔ ظاہر ہے یہ بلاسبب نہیں ہے بلکہ اس ایجنڈے کے مطابق ہے جسے اب کامیابی کے ساتھ رفتہ رفتہ نافذ کیاجارہا ہے۔ اس سے واضح طورپر یہ خطرناک اشارہ ملتا ہے کہ نئے ایجنڈہ کے تحت ملک کے آئین سے چھیڑ چھاڑ نہیں کی جائے گی۔ البتہ آئین کی دہائی دے کرہی ملک کو ہندوراشٹر کی منزل کی طرف لے جانے کی کوشش ہوگی۔ راشٹرپتی بھون میں اس کا نظارہ بھی دیکھنے کو ملا جب پارلیمنٹ میں نئے صدرجمہوریہ کی حلف برداری کے بعد ’جے شری رام‘ کے نعرے لگے، وندے ماترم اور بھارت ماتا کی جے جے کار بھی ہوئی، گویا آئین کی دہائی بھی دی گئی اور آئین کی توہین بھی کی گئی اور یہ افسوسناک سلسلہ، مودی سرکار کے آنے کے بعد سے جاری ہے۔ لیکن امید افزائ بات یہ ہے کہ یہ جو کچھ ہور ہاہے ملک کا سیکولر اور انصاف پسند طبقہ اس کے خلاف ہے اور عوام کی اکثریت اب بھی سیکولرازم کے اصولوں پر یقین کرتی ہے اس لئے ہم مایوس نہیں ہیں۔
میرے جنوں کا نتیجہ ضرور نکلے گا
اسی سیاہ سمندر سے نور نکلے گا
- مضمون نگار اردو کے ممتاز صحافی اور کانگریس کے قومی ترجمان ہیں
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 16 Aug 2017, 1:33 PM