شرد پوار کی مارک شیٹ اور مہاراشٹر میں مراٹھا-او بی سی تنازعہ کا جال!

شرد پوار کو او بی سی ظاہر کرنے کی شرارت کے پیچھے وہ سیاسی بحث بھی ہو سکتی ہے جس میں ملک کی آبادی میں حصہ داری کے مطابق حق دینے کی دلیل دی جا رہی ہے۔

شرد پوار، فائل تصویر آئی اے این ایس
شرد پوار، فائل تصویر آئی اے این ایس
user

سجاتا آنندن

نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) سپریمو شرد پوار نے کہا ہے کہ کسی بھی شخص کی ذات اس کی پیدائش سے ہی ہوتی ہے اور اسے بدلا نہیں جا سکتا۔ انھوں نے کہا ہے کہ ’’میری ذات پوری دنیا جانتی ہے... میں نے (وائرل ہو رہے) سرٹیفکیٹس کو دیکھا ہے، ایک میرا اسکول چھوڑنے والا سرٹیفکیٹ ہے اور یہ مہاراشٹر ایجوکیشن سوسائٹی کے ہائی اسکول سے جڑا ہے۔ یہ سرٹیفکیٹ اصلی ہے۔ اس پر لکھی ہوئی باتیں درست ہیں۔ اس کے علاوہ ایک انگریزی میں لکھا ہوا ڈاکیومنٹ جاری ہوا ہے جس میں میری ذات کو او بی سی بتایا گیا ہے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’میں او بی سی کا پورا احترام کرتا ہوں لیکن میں اپنی ذات چھپا نہیں سکتا جو مجھے پیدائش سے ملی ہے۔‘‘

شرد پوار نے یہ باتیں سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے ان دو دستاویزات کے سلسلے میں کہی ہیں جن میں شرد پوار کو او بی سی بتایا گیا ہے۔ شرد پوار نے کہا کہ وہ ذات کا استعمال سیاست کے لیے نہیں کرتے ہیں اور ایسا کبھی نہیں کریں گے، لیکن وہ مراٹھا طبقہ کے ایشوز کو حل کرنے کی پوری کوشش کرتے رہیں گے۔ اس سوال پر کہ کیا ریزرویشن کو لے کر او بی سی اور مراٹھا طبقہ کے درمیان دشمنی بڑھ رہی ہے، شرد پوار نے کہا کہ ’’دونوں طبقات کے درمیان ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔‘‘ انھوں نے کہا کہ ’’مجھے ذاتی طور پر لگتا ہے کہ او بی سی اور مراٹھوں کے درمیان کوئی تنازعہ نہیں ہے۔ حالانکہ کچھ لوگ ایسا ماحول ضرور بنانا چاہتے ہیں۔‘‘


وائرل ہو رہے دستاویزات کو لے کر شرد پوار کی بیٹیا سپریا سولے نے بھی کہا ہے کہ یہ سیاسی سازش ہے۔ بارامتی سے این سی پی رکن پارلیمنٹ سپریا سولے نے کہا کہ ذات سرٹیفکیٹ کے دعوے غلط ہیں اور سرٹیفکیٹس فرضی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’’یہ شرد پوار کو بدنام کرنے کی سازش ہے، یہ کسی کی بچکانی حرکت ہے۔ یہ سوچنا چاہیے کہ جب شرد پوار دسویں درجہ میں پڑھتے تھے تب کیا انگلش میڈیم اسکول تھے؟‘‘

غور طلب ہے کہ شرد پوار کی پیدائش 1942 میں ہوئی تھی اور انھوں نے بارامتی میں مراٹھی زبان والے اسکول سے تعلیم حاصل کی تھی۔ بعد میں پونے کے انگریزی میڈیم کالج میں گئے تھے۔ وہ 57-1955 کے درمیان اسکول سے پاس آؤٹ ہوئے ہوں گے۔ یہاں دلچسپ ہے کہ اس وقت او بی سی (دیگر پسماندہ طبقہ) وجود میں ہی نہیں تھا۔ آئین میں صرف ایس سی اور ایس ٹی کو منظوری دی گئی تھی۔ او بی سی کا ذکر تو وشوناتھ پرتاپ سنگھ کی حکومت میں 80 کی دہائی میں پہلی بار منڈل کمیشن کی رپورٹ سے سامنے آیا تھا۔


مدلل طور پر دیکھیں تو اس طرح شرد پوار کی ذات کو او بی سی بتانا مضحکہ خیز لگتا ہے۔ اس کے علاوہ شرد پوار تو خود کو فخر کے ساتھ ’می مرد مراٹھا‘ (میں ایک مراٹھا مرد ہوں) کہتے رہے ہیں۔ ایسے میں شرد پوار خود کو او بی سی کے طو رپر کیسے اسکول میں رجسٹر کرا سکتے ہیں۔

تو سوال ہے کہ آخر شرد پوار کا فرضی سرٹیفکیٹ کیوں وائرل ہو رہا ہے؟ موٹے طور پر دیکھیں تو اس کی جڑیں مہاراشٹر میں چل رہی مراٹھا ریزرویشن تحریک سے جڑی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ اس تحریک کو سنبھالنے میں موجودہ شندے حکومت نے آگ پر چلنے جیسا کام کیا ہے۔ شندے حکومت نے تحریک کرانے والے مراٹھوں کو کنبی ذات کا سرٹیفکیٹ دینے کا وعدہ کیا ہے۔


کنبی دراصل مراٹھوں کی ہی ایک ذیلی ذات ہے جو روایتی طور پر کھیتی کسانی سے جڑے لوگوں کا طبقہ ہے۔ لیکن موجودہ سیاسی منظرنامہ میں وہ مراٹھا نظر آتے ہوئے بھی او بی سی ریزرویشن کا فائدہ لینا چاہتے ہیں۔ غالباً اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مہاراشٹر کے نائب وزیر اعلیٰ اجیت پوار نے کہا تھا ’’وہ اپنی بیٹی کی شادی کے وقت تو مراٹھا ہو جاتے ہیں، لیکن ملازمتوں میں فائدے کے لیے او بی سی بننے سے پرہیز نہیں کرتے۔‘‘

شرد پوار کو او بی سی بنانے کے پیچھے ایک دیرگ سیاسی وجہ بھی مانی جا سکتی ہے۔ 80 کی دہائی کی منڈل تحریک کے دوران مراٹھوں نے پہلی بار او بی سی کیٹگری میں ریزرویشن کا مطالبہ کیا تھا، تو اس وقت شرد پوار مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ تھے۔ انھوں نے اس مطالبہ کو خارج کر دیا تھا۔ البتہ انھوں نے 52 چھوٹی اور بے اہم ذاتوں کو او بی سی میں شامل کر لیا تھا۔ اسی لیے جہاں او بی سی اس کے لیے انھیں سب سے عظیم او بی سی لیڈر کی شکل میں تعریفیں کر رہے ہیں، وہیں کچھ لوگ اسی بات کو سیاسی شرارت کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔


مہاراشٹر کے ووٹرس میں مراٹھوں کی آبادی تقریباً 33 فیصد ہے۔ لیکن سارے مراٹھے ایک جیسے نہیں ہیں۔ مراٹھوں کے تقریباً 96 ’کل‘ (زمرے) ہیں۔ ان میں سے 6 کو راج شاہی کل مانا جاتا ہے، جیسے بڑودہ کے گائیکواڈ، گوالیر کے سندھیا، اندور کے ہولکر، بھوسلے، دیشمکھ اور جادھو۔ لیکن ایسے بھی کل ہیں جن کا شجرہ راجستھان کے چوہان اور سسودیا سے ملتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ موجودہ وقت کے مہاراشٹر میں سب سے مضبوط لیڈر مانے جانے والے شرد پوار ان میں سے کسی بھی نسل سے نہیں ہیں۔ وہ ایک معمولی مراٹھا کسان کنبہ سے آتے ہیں اور شاید اسی لیے وہ خود کو کسان ہی کہتے رہے ہیں۔

غالباً یہی وجہ ہو سکتی ہے کہ ایس وی چوہان، پرتھوی راج چوہان اور ولاس راؤ دیشمکھ جیسے دیگر مراٹھا لیڈران سے ان کی زیادہ بنتی نہیں ہے۔ شرد پوار کی سیاست ہمیشہ اشرافیہ مراٹھا کو سیاست میں یا سرکاری سطح پر اعلیٰ عہدہ پر فائز ہونے سے روکنے والی رہی ہے۔ لیکن وہ اس میں ہمیشہ کامیاب بھی نہیں ہوئے ہیں۔


شرد پوار کو او بی سی ثابت کرنے کی شرارت کے پیچھے وہ سیاسی بحث بھی ہو سکتی ہے جس میں ملک کی آبادی میں حصہ داری کے مطابق حق دینے کی دلیل دی جا رہی ہے اور ذات پر مبنی مردم شماری کو بڑے سیاسی ایشوز کے طور پر سامنے رکھا جا رہا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔