منجو ورما کا استعفیٰ اور ہری ونش کا راجیہ سبھا ڈپٹی اسپیکر بننا نتیش کی شکست!
بی جے پی نے نتیش کمار کو ظاہر کر دیا ہے کہ اتحاد میں ’باس‘ کون ہے۔ بی جے پی نے پہلے منجو ورما کے استعفیٰ کا دباؤ بنایا اور پھر خود ہری ونش کا نام راجیہ سبھا کے ڈپٹی اسپیکر کے عہدہ کے لیے طے کر دیا۔
بہار کی سماجی فلاح کی وزیر منجو ورما کا استعفیٰ بہار میں برسراقتدار این ڈی اے کی دو اہم پارٹیوں بی جے پی اور جنتا دل یو کے درمیان ہوئے معاہدے کا نتیجہ تصور کیا جا سکتا ہے۔ ان قیاس آرائیوں کو اس سے بھی ہوا ملی کہ منجو ورما کا استعفیٰ عین راجیہ سبھا کے ڈپٹی اسپیکر کے انتخابات سے پہلے ہوا جس میں این ڈی اے نے جنتا دل یو کے ہری ونش کو امیدوار بنا کر میدان میں اتارا اور انھیں فتح سے ہمکنار کرایا۔
ہری ونش دوسری بار اور جنتا دل یو کی طرف سے راجیہ سبھا رکن پارلیمنٹ ہیں اور جھارکھنڈ اور بہار سے شائع ہونے والے روزنامہ ’پربھات خبر‘ کے سابق مدیر ہیں۔ ہری ونش راجپوت ہیں جب کہ منجو ورما کشواہا یا کوئری ذات سے تعلق رکھتی ہیں۔ بہار کی سیاست میں دلچسپی رکھنے والے مانتے ہیں کہ نتیش کمار بے حد دباؤ میں تھے کیونکہ مظفر پور واقعہ کے بعد نہ صرف اپوزیشن بلکہ بی جے پی کے بھی کئی سینئر لیڈر ان پر حملے کر رہے تھے۔ ساتھ ہی سپریم کورٹ نے بھی مظفر پور شیلٹر ہوم کے معاملے میں تلخ تبصرہ کیا تھا۔ اتنا ہی نہیں، مظفر پور واقعہ کے اہم ملزم برجیش ٹھاکر کے بیان سے بھی نتیش کمار مشکل میں نظر آ رہے تھے۔
سیاسی تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ منجو ورما کے حکومت سے باہر ہونے کی نتیش کمار کو زبردست قیمت ادا کرنی پڑ سکتی ہے کیونکہ منجو ورما نہ صرف کوئری سماج سے آتی تھیں بلکہ نتیش حکومت کی واحد خاتون وزیر تھیں اور نتیش کی کرمی ذات کے ساتھ ہی کوئری ذات کے لوگ بھی جنتا دل یو کا بہت بڑا ووٹ بینک ہیں۔
دراصل مرکزی وزیر برائے فروغ انسانی وسائل اور آر ایل ایس پی کے لیڈر اوپیندر کشواہا نے 2010 کے بعد سے ہی کرمی سماج میں نتیش کمار کی گرفت کو چیلنج دینا شروع کر دیا تھا۔ اور اب کشواہا نے کہنا شروع کر دیا ہے کہ کرمیوں سے کہیں زیادہ تعداد ہونے کے باوجود کوئری سماج کو حکومت کی طرف سے وہ سب نہیں مل رہا ہے جس کا کہ یہ سماج حقدار ہے۔
یہاں یہ بھی دھیان رکھنا ہوگا کہ گزشتہ ہفتہ منجو ورما نے نتیش کمار پر براہ راست حملہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ انھیں صرف اس لیے نشانہ بنایا جا رہا ہے کیونکہ وہ کشواہا ہیں۔ حالانکہ لوگ کہتے ہیں کہ وہ آر جے ڈی پر حملہ کر رہی تھیں کیونکہ آر جے ڈی ہی ان کے استعفیٰ کا مطالبہ کر رہا تھا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کا پیغام نتیش کمار کے لیے ہی تھا۔ ایسے میں منجو ورما کو ہٹانا نتیش کے لیے سنگین سیاسی نتائج کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔
دوسری طرف ہری ونش ہمیشہ نتیش کمار کی ’گڈ بکس‘ میں رہے۔ ہری ونش نے بھلے ہی میڈیا پر کنٹرول میں مہارت نہ حاصل کی ہو لیکن میڈیا کا استعمال کرنا انھیں خوب آتا ہے۔ ہری ونش تنہا نہیں ہیں جنھیں نتیش کمار نے انعام دیا ہے، لیکن ایسے بھی بہت سے ہیں جنھیں ان کے خلاف خبریں لکھنے اور سچائی سامنے لانے کی سزا بھی نتیش نے دی ہے۔
ہری ونش نے بھلے ہی خود سیاسی ترقی کے لیے کبھی اپنی ذات کا ڈھنڈورا نہ پیٹا ہو لیکن بی جے پی نے ان کے راجپوت بیک گراؤنڈ کا سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش ضرور کی ہے۔ اس سے بی جے پی نتیش کمار کو بھی قانو میں کر سکتی ہے جو گزشتہ کچھ دنوں سے آنکھ دکھانے لگے تھے۔
یہ بات عیاں ہے کہ بی جے پی میں راجپوتوں کی کثرت ہے۔ نہ صرف بی جے پی کے زیادہ تر رکن پارلیمنٹ راجپوت ہیں بلکہ کئی ریاستوں میں اس کے وزرائے اعلیٰ بھی راجپوت ہی ہیں۔ یہاں تک کہ ملک کے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ بھی راجپوت ہی ہیں۔
راجیو پرتاپ روڑی کی کابینہ سے چھٹی کے بعد بھی مودی حکومت میں بہار سے دو راجپوت وزیر ہیں۔ ان میں سے ایک وزیر زراعت رادھا موہن سنگھ ہیں تو دوسرے وزیر توانائی آر کے سنگھ، جو ملک کے داخلہ سکریٹری رہ چکے ہیں اور پہلی بار آرہ سے رکن پارلیمنٹ بنے ہیں۔ مرکز میں بہار سے کل 8 وزیر ہیں۔ باقی کے 6 وزراء میں ایک-ایک یادو، کشواہا، بھومیہار، برہمن، دلت اور کایستھ ہیں۔ اس طرح بڑی تعداد میں ہونے کے بعد بھی بنیا اور انتہائی پسماندہ کو مودی حکومت میں کوئی جگہ نہیں ملی ہے جب کہ انھوں نے جی بھر کے بی جے پی کو ووٹ دیا تھا۔
بظاہر تو دکھایا جا رہا ہے کہ بی جے پی نتیش کمار کو خوش کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی نے ہری ونش کو سوچ سمجھ کر راجیہ سبھا کا ڈپٹی چیئرمین بنایا ہے کیونکہ اس سے جنتا دل یو سربراہ کے ذات پر مبنی فارمولے ڈگمگاتے ہیں۔ گزشتہ سال جب مہاگٹھ بندھن چھوڑ کر نتیش نے این ڈی اے میں واپسی کی تھی تو انھیں امید تھی کہ کم از کم دو وزارتی عہدہ تو جنتا دل یو کو ملیں گے۔ جن ناموں کا پٹنہ میں تذکرہ تھا ان میں نتیش کے بے حد نزدیکی سابق آئی اے ایس اور کرمی ذات کے آر سی پی سنگھ اور پورنیہ سے رکن پارلیمنٹ سنتوش کشواہا کے نام ہوا میں تھے۔ سنتوش کشواہا کوئری ذات کے ہیں اور 2014 میں جنتا دل یو میں شامل ہونے سے پہلے وہ بی جے پی میں تھے۔ لیکن پارٹی بدلنے پر بھی وزیر اعظم نریندر مودی نے نتیش کمار کو کچھ نہیں دیا۔ بی جے پی قیادت نے ایک سال سے زیادہ کا وقت لیا اور راجیہ سبھا ڈپٹی چیئرمین عہدہ کے لیے ہری ونش کا نام خود ہی طے کیا۔ حالانکہ نتیش کمار ہری ونش کے نام پر خوش نہیں تھے لیکن وہ ان کے نام کی مخالفت بھی نہیں کر سکتے تھے۔ ہری ونش کو انھوں نے ہی آگے بڑھایا ہے اور حال کے دنوں میں ان کی بی جے پی سے نزدیکیاں بھی بڑھ گئی تھیں۔
یہ سب ہونے پر بھی نتیش کمار کو منجو ورما کا استعفیٰ لینا پڑا کیونکہ نہ صرف گورنر ستیہ پال ملک نے مظفر پورمعاملے پر مرکز کو خط لکھا تھا بلکہ سی پی ٹھاکر اور گوپال نارائن سنگھ جیسے سینئر بی جے پی لیڈروں نے بھی اس ایشو کو اچھالا تھا۔ مظفر پور واقعہ نے بی جے پی کو موقع دے دیا ہے کہ وہ نتیش کمار کو ان کی اوقات بتا سکے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔