منی پور تشدد: میتئی ماؤں نے ’تقسیم کی سیاست‘ کے لیے پی ایم مودی کی شدید مذمت کی

’خویرمبم ایما کیتھل جوائنٹ کوآرڈنیٹنگ کمیٹی فار پیس‘ کے اراکین نے بتایا کہ منی پور کی 80 خواتین وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کے لیے دہلی میں تھیں جنھیں مایوسی ہاتھ لگی۔

<div class="paragraphs"><p>جنتر منتر پر مظاہرہ کرتی ہوئیں منی پور کی خواتین، تصویر ویپن/قومی آواز</p></div>

جنتر منتر پر مظاہرہ کرتی ہوئیں منی پور کی خواتین، تصویر ویپن/قومی آواز

user

ایشلن میتھیو

منی پور میں تقریباً 50 دنوں سے جاری تشدد کو لے کر لگاتار مرکز کی مودی حکومت تنقید کا سامنا کر رہی ہے۔ اس درمیان میتئی طبقہ سے تعلق رکھنے والے کئی خواتین نے پیر کے روز قومی راجدھانی دہلی کے جنتر منتر پر احتجاجی مظاہرہ کیا۔ امپھال میں ’خواتین کا بازار‘ سے جڑی کئی خواتین نے جنتر منتر پر مرکزی حکومت کے خلاف اپنی ناراضگی ظاہر کی اور پی ایم مودی کی شدید مذمت بھی کی۔ قابل ذکر ہے کہ یہ ’خواتین کا بازار‘ میتئی طبقہ کے ذریعہ ہی چلایا جاتا ہے۔

نئی دہلی میں میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے ’خویرمبم ایما کیتھل جوائنٹ کوآرڈنیٹنگ کمیٹی فار پیس‘ نے نشاندہی کی کہ 45 دنوں سے زیادہ عرصے سے منی پور ’انتہائی خوفناک فرقہ وارانہ تشدد‘ کا شکار ہے، لیکن وزیر اعظم کے پاس منی پور کا دورہ کرنے کا وقت نہیں ہے، اور نہ ہی اس بارے میں انھوں نے ایک لفظ بھی کہا۔


کئی مائیں منی پور میں تشدد سے نہ صرف پریشان ہیں، بلکہ مستقبل کو لے کر فکرمند بھی ہیں۔ ان ماؤں میں سے ایک ایچ بنودنی نے ریاست میں تشدد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ’’بہت سے لوگ جدید ترین اسلحوں کا استعمال کر رہے ہیں جو باعث تشویش ہے۔ املاک اور زیورات کے نقصان کا ازالہ تو ہو سکتا ہے، لیکن انسانی جانیں واپس نہیں مل سکتیں۔ پہاڑیاں اور جنگل جل رہے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ تمام ماؤں اور نوجوانوں کی راتیں بے خوابی کا شکار ہیں۔ یہ خاص طور پر گلوبل وارمنگ کے لیے بھی باعث تشویش ہے۔‘‘

’خویرمبم ایما کیتھل جوائنٹ کوآرڈنیٹنگ کمیٹی فار پیس‘ کے اراکین نے بتایا کہ 80 خواتین نمائندے وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کے لیے دہلی میں تھیں جنھیں مایوسی ہاتھ لگی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ جاری نسلی تشدد کو قبائلی بمقابلہ غیر قبائلی یا ہندو بمقابلہ عیسائی مسئلہ نہیں کہا جانا چاہئے۔ اس تشدد میں تقریباً 120 جانیں جا چکی ہیں اور 500 سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔ اتنا ہی نہیں دونوں طرف سے 70,000 سے زیادہ لوگ داخلی طور پر بے گھر ہو چکے ہیں۔ جنتر منتر پر احتجاجی مظاہرہ کرنے والی خواتین میں بیشتر ’منی پور کی مائیں‘ کے نام سے جانی جاتی ہیں، انھوں نے کہا کہ ’’ہم منی پور میں نسلی کشیدگی پر وزیر اعظم کی خاموشی سے بے انتہا مایوس ہیں۔‘‘ ساتھ ہی ان خواتین نے کہا کہ ’’ہم، منی پور کی مائیں، مرکزی وزیر داخلہ کی ناگا اراکین اسمبلی اور کوکی اراکین اسمبلی کے ساتھ خصوصی بات چیت کی سخت مذمت کرتی ہیں۔‘‘


واضح رہے کہ منی پور میں میتئی اور کوکی نسلی گروپوں کے درمیان تصادم 3 مئی کو شروع ہوا تھا اور 48 دن گزرنے کے بعد بھی اس میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ تمام کوکیوں کو امپھال سے نکال دیا گیا ہے اور کوئی بھی میتئی چراچند پور یا کوکی اکثریتی پہاڑی اضلاع جیسے چاندیل، کانگپوکپی، ٹینگنوپل، اور منی پور کے سیناپتی اضلاع میں نہیں دیکھا جا سکتا۔ دراصل میتئی بنیادی طور پر امپھال وادی میں رہتے ہیں اور کوکی قبائل ریاست کے پہاڑی علاقوں میں رہتے ہیں۔

بہرحال، منی پور کی ماؤں نے اس بات کی شدید الفاظ میں مذمت کی کہ 3 مئی کو تشدد کے آغاز کے بعد سے منی پور کی ریاستی افواج تشدد کو روکنے اور کوکی و میتئی دونوں طبقات کی جان و مال کی حفاظت کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ وفد کے ساتھ جنتر منتر آنے والی خواتین میں سے ایک جانو بیگم نے کہا کہ ’’تشدد اس وقت بھی ہوا جب مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ منی پور میں تھے۔‘‘ جانو بیگم نے مزید کہا کہ ’’مزید نوجوانوں کی موت نہ ہو، اس لیے ہم مائیں جنتر منتر پر احتجاج کرنے آئی ہیں۔ ہم اپنے بچوں کے لیے اپنی جانیں قربان کرنے کو تیار ہیں۔ ہمیں اب انتظامیہ پر اعتماد نہیں رہا۔‘‘


دھنیشوری نے اس معاملے پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’’وزیر داخلہ تشدد کے 20 دن بعد منی پور آئے تھے۔ ان کی آمد کے بعد بھی امن کے قیام سے متعلق ہم کوئی واضح اقدام نہیں دیکھتے۔ انتخابات کے دوران وزیر اعظم اور کئی دیگر وزراء منی پور آئے تھے۔ لیکن اب جبکہ اتنی جانیں چلی گئیں، کوئی توجہ دینے والا نہیں۔‘‘

منی پور کی خواتین نے بی جے پی کی زیر قیادت ریاستی حکومت کی جانب سے بحران کا حل تلاش کیے جانے کی امید چھوڑ دی ہے۔ اب وہ مطالبہ کر رہی ہیں کہ مرکزی حکومت تخریبی سیاست اور لوگوں کو کمیونٹی میں تقسیم کرنا بند کرے۔ اس کی جگہ منی پور کی انتظامی سالمیت کی حفاظت کی جائے اور کوکیوں کے ساتھ ’آپریشن آف سسپنسن‘ (ایس او ایس) کو منسوخ کرنے کے بعد ہی میتئی نوجوانوں کو غیر مسلح کیا جائے۔


واضح رہے کہ بی جے پی کے وزیر اعلیٰ این بیرن سنگھ نے مئی میں اپنی ایک میٹنگ میں غیر ذمہ دارانہ طور پر کوکیوں کو ’دہشت گرد‘ قرار دیا تھا۔ انھوں نے کہا تھا کہ ’’لڑائی ریاستی اور مرکزی فورسز کی دہشت گردوں کے خلاف ہے، جو منی پور کو توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ برادریوں کے درمیان لڑائی نہیں ہے۔‘‘ اس طرح وزیر اعلیٰ نے اس بات سے انکار کر دیا کہ یہ نسلی تصادم ہے۔

بہرحال، منی پور میں جاری تشدد کی مذمت کے لیے گزشتہ ہفتے ملک بھر کے 550 سے زیادہ سول سوسائٹی کے باوقار لوگوں نے اجتماعی طور پر ایک بیان جاری کیا تھا۔ بیان میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ ’’مرکز اور ریاست میں بی جے پی اور اس کی حکومتوں کی طرف سے کھیلی گئی تقسیم کی سیاست کے سبب آج منی پور بری طرح جل رہا ہے۔ ان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس جاری خانہ جنگی کو روکیں، اس سے پہلے کہ مزید جانیں ضائع ہوں۔‘‘ بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ریاست نے اپنے سیاسی فائدے کے لیے دونوں برادریوں کے اتحادی ہونے کا ڈرامہ کیا، لیکن موجودہ بحران کے حل کے لیے اور بات چیت کی سہولت فراہم کرنے کے لیے کوئی کوشش نہیں کی گئی، بلکہ ان کے درمیان تاریخی کشیدگی کو مزید بڑھا دیا گیا۔


گزشتہ اتوار کو وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے ’من کی بات‘ ریڈیو نشریات میں منی پور کے بحران پر کوئی بات نہیں کی، اس پر کانگریس نے انھیں تنقید کا نشانہ بنایا اور پوچھا کہ وہ شمال مشرقی ریاست میں ’نہ ختم ہونے والے تشدد‘ کے بارے میں کب کچھ کہیں گے، یا کچھ کریں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔