مہاراشٹر: بی جے پی کے خلاف عوام کا ’جن آکروش‘... اعظم شہاب

مہاراشٹر میں بی جے پی کے خلاف عوامی غصہ کھل کر ظاہر ہوگیا جسے وہ مسلمانوں کے خلاف ’جن آکروش‘ ریلی کے پردے میں چھپانے کی کوشش کر رہی ہے۔

بی جے پی کا پرچم، تصویر آئی اے این ایس
بی جے پی کا پرچم، تصویر آئی اے این ایس
user

اعظم شہاب

مہاراشٹر میں بی جے پی کے ذریعے پوری ریاست میں ’جن آکروش‘ ریلیاں نکالی جا رہی ہیں۔ ’سکل ہندوسماج‘ کے بینرتلے ہونے والی یہ ریلیاں وی ایچ پی وبجرنگ دل کے لوگوں کے ذریعے آرگنائز کی جا رہی ہیں جس میں بی جے پی کے لوگ بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ ممبئی میں ان ریلیوں کے پوسٹر و بینرس پر تو ممبئی بی جے پی کے صدر کا نام درج ہے جو لوگوں سے ’لوجہاد‘ و ’لینڈجہاد‘ کے خلاف متحد ہوکر آواز اٹھانے کے لئے ہندوؤں کو للکار رہے ہیں۔ یہ ریلیاں ایسے وقت میں ہو رہی ہیں جبکہ مہاراشٹر میں نہ تو ’لوجہاد‘ کا کوئی معاملہ سامنے آیا ہے اور نہ ہی ’لینڈ جہاد‘ کا، اس کے باوجود ان کا انعقاد زوروں پر ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ ان ریلیوں میں کھلے عام مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی کی جا رہی ہے، نفرت پھیلائی جا رہی ہے، ان کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی بات کہی جا رہی ہے لیکن حکومت مکمل طور پر خاموش ہے۔

ممبئی کے دادر میں گزشتہ ماہ 29جنوری کو بھی اسی طرح کی ریلی منعقد ہوئی تھی، جس میں مسلمانوں کے خلاف جم کر نفرت بازی ہوئی تھی۔ اس کے بعد 9 فروری کو پھر اسی طرح کی ریلی ہونے والی تھی، لیکن کچھ لوگوں نے سپریم کورٹ میں عرضداشت داخل کرکے اس پر روک لگانے کی درخواست کی۔ سپریم کورٹ نے ریلی پر تو روک نہیں لگائی لیکن ریاستی حکومت ومحکمہ پولیس کو یہ حکم ضرور دے دیا کہ کوئی بھی نفرت انگیز تقریر نہیں ہونی چاہئے اور پورے پروگرام کی ویڈیو گرافی کی جائے۔ ظاہر ہے ایسی صورت میں ریلی کا مقصد ہی فوت ہو جاتا، اس لیے ریلی ہی منسوخ کردی گئی۔ لیکن سپریم کورٹ کے حکم کا اطلاق دیگر ریلیوں پر نہیں ہوتا، اس لیے دیگرمقامات پر یہ ریلیاں ہنوز ہو رہی ہیں۔


لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک جانب جہاں مسلمانوں کے خلاف ریاست بھر میں بی جے پی و سنگھ کی دیگر تنظیموں کی جانب سے جن آکروش ریلیوں کا انعقاد ہو رہا ہے تو وہیں دوسری جانب سنگھ و وزیراعظم کے ذریعے مسلمانوں کو قریب لانے کی کوششیں بھی ہو رہی ہیں۔ سنگھ کے لوگ دہلی میں اگر کسی مسجد کے امام یا کچھ مسلم تنظیموں کے نمائندوں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں تو وزیراعظم حیدرآباد میں پسماندہ مسلمانوں کو پارٹی سے قریب لانے اور ممبئی میں بوہرہ طبقے کے مسلمانوں سے اپنے دیرینہ تعلقات کا اظہار کر رہے ہیں۔ ویسے کہا تو یہ جاتا ہے کہ مسلمانوں کو خود سے قریب کرنے یا مسلمانوں کے قریب جانے کی یہ حکمت عملی سنگھ نے راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا کے اثرات کے پیشِ نظر ترتیب دی تھی۔ لیکن اس کے باوجود سنگھ و بی جے پی کی اس حکمت عملی کا بہت سے لوگوں نے استقبال کیا، جن میں کچھ مسلمان بھی شامل ہیں، پھر چاہے وہ ان کا ذاتی موقف ہی کیوں نہ ہو۔

اسی ضمن میں ہمارے پردھان سیوک صاحب گزشتہ 10؍فروری کو ممبئی تشریف لائے تھے۔ اس سے قبل وہ 19؍جنوری کو ایک میٹرو روٹ کے افتتاح کے موقع پر تشریف لاچکے تھے۔ یوں بھی ان کے بار بار ممبئی آنے سے یہ کہا جانے لگا ہے کہ ممبئی میونسپل کارپوریشن کے انتخاب کا وقت اب قریب آگیا ہے۔ مہینے بھر میں دو بار وزیراعظم کی ممبئی آمد اور بی جے پی لیڈران کی شیوسینا و دیگر پارٹیوں کی للکار یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ اب روٹی بھی بیلی جاچکی ہے اور توا بھی گرم ہوچکا ہے۔ ویسے بھی ملک میں انتخابات کی اطلاع اب وزیراعظم کے دوروں سے ہی ملا کرتی ہے۔ جس ریاست یا جس شہر میں وزیراعظم کے دورے ہونے لگیں تو سمجھ لیا جاتا ہے کہ اب وہاں انتخابات کا وقت قریب آگیا ہے۔ اس کی مثال کرناٹک کے 6 فروری اور اجستھان کے 12؍فروری کے ان کے حالیہ دورے ہیں جہاں اسی سال کے وسط و اواخر میں انتخابات ہونے والے ہیں۔


بہرحال 10؍فروری کو اپنے ممبئی دورے کے دوران وزیراعظم نے اندھیری میں بوہرہ طبقے کے ایک پروگرام میں شرکت کی اور جامعۃ السیفیہ کا افتتاح کیا۔ اس موقع پر ریاست کے وزیراعلیٰ ونائب وزیراعلیٰ دونوں موجود تھے۔ اس پروگرام میں انہوں نے بوہرہ طبقے کے لوگوں سے اپنے دیرینہ تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے پیار و محبت کی خوب باتیں کیں۔ اسی پروگرام میں وزیراعظم کو ایک ویڈیو دکھائی گئی جس میں انہیں ’وزیراعظم و وزیراعلیٰ‘ کہا گیا تھا۔ اس پر وزیراعظم نے ناراض ہوتے ہوئے کہا کہ آپ مجھے وزیراعظم یا وزیراعلیٰ کیوں کہتے ہیں جبکہ میں آپ کا ساتھی ہوں؟ ظاہر ہے اس والہانہ باتوں کا بوہرہ طبقے کے لوگوں پر خوب اثر ہوا ہوگا۔ وگرنہ یہی بوہرہ طبقہ ہے جس کے کچھ لوگوں کو گجرات فسادات کے دوران بقول وزیر داخلہ سبق تک سکھایا گیا تھا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک جانب سنگھ و بی جے پی مسلمانوں کو قریب لانے کی اس قدر کوششیں کر رہی ہے تو دوسری جانب وہی بی جے پی وسنگھ کی دیگر تنظیمیں ریاست بھر میں جن آکروش ریلیوں کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف منافرت کیوں پھیلا رہی ہیں؟ آخر یہ تضاد کیوں؟ تو اس کا جواب گزشتہ ماہ کے اختتام پر ہونے والے 5 گریجویٹ و ٹیچرحلقہ اسمبلی کے انتخابی نتائج سے مل جاتا ہے جن میں بی جے پی صرف ایک سیٹ پر کامیاب ہوسکی ہے، بقیہ 4 سیٹوں پر مہاوکاس اگھاڑی کے امیدوار زبردست اکثریت سے جیتے ہیں۔ اس پر بھی دلچسپ بات یہ ہے کہ بی جے پی جس سیٹ سے کامیاب ہوئی ہے اس پر بھی اسے دوسری پارٹی سے امیدوار درآمد کرنا پڑا تھا یعنی امیدوار شندے گروپ والی شیوسینا کا تھا جسے عین وقت پر بی جے پی نے ٹکٹ دے دیا۔


اس الیکشن میں ہوئی بی جے پی کی ہزیمت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ناگپور ٹیچر حلقہ اسمبلی سے بی جے پی کا امیدوار مہاوکاس اگھاڑی کے امیدوار سے 7ہزار سے زائد ووٹوں سے ہار گیا۔ ناگپور کے اس نتیجے سے قبل اگر اس حقیقت پر غور کرلیا جائے کہ ناگپور میں ہی سنگھ کا ہیڈکوارٹر ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ دہلی کی سرکار وہیں سے چلتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ مرکزی وزیر ٹرانسپورٹ نتن گڈکری، مہاراشٹر کے سُپر سی ایم دیوندرفڈنویس اور بی جے پی کے ریاستی صدر چندرشیکھرباون کا بھی وہی شہر ہے نیز بی جے پی کا یہ شکست خوردہ امیدوار دوبار سے ایم ایل سی منتخب ہوتا رہا ہے تو یہ شکست مزید عبرت ناک ہو جاتی ہے۔ اس شکست نے لوگوں کے اندر پائی جانے والی اس غلط فہمی کو بھی ختم کردیا کہ بی جے پی شہروں اور پڑھے لکھے لوگوں کی پارٹی ہے۔

یہ صورت حال یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ ریاست کے عوام بی جے پی سے متعلق کیا سوچتی ہے۔ اس سے لوگوں کے ’آکروش‘ (غصے) کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ عرض کیا گیا کہ ممبئی میونسپل کارپوریشن انتخابات کا بگل بج چکا ہے اور یہ کسی ریاستی انتخاب سے بالکل کم نہیں ہے کیونکہ اسی کے نتیجے پر آئندہ سال ہونے والے ریاستی انتخاب کے نتائج بھی منحصر ہیں۔ اس لیے ممبئی میونسپل کارپوریشن جیتنا بی جے پی کے لیے زندگی وموت کا معاملہ بن گیا ہے۔ ایسی صورت میں جب کہ ریاست کے عوام علانیہ طور پر بی جے پی کے خلاف اپنے ’آکروش‘ کا اظہار کرچکے ہیں، یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ اسے مسلمانوں کے خلاف موڑ دیا جائے اور ہندو ووٹروں میں ایک ایسا فرضی خوف پیدا کیا جائے جس کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ لیکن بی جے پی شاید یہ بھول جاتی ہے کہ اب عوام بہت ہوشیار ہوچکی ہے۔ بی جے پی کی اس جن آکروش ریلی سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ مسلمانوں سے اس کی اظہارِ قربت صرف انتخابی مفاد کے تحت ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔