مہاراشٹر: بدعنوانی کے تیر سے این سی پی کا شکار!
ریاست میں عوامی ناراضگی سے بچنے کے لیے بی جے پی کے پاس دو ہی راستے تھے۔ یا وہ اپنی عوامی مقبولیت بڑھاتی یا پھر کسی مقبول عوامی پارٹی کو توڑ کر اپنے ساتھ ملا لیتی۔ بدقسمتی سے اس نے دوسرا اپنایا۔
کیا اسے محض اتفاق کہا جا سکتا ہے کہ 27 جون کو بھوپال میں پردھان سیوک این سی پی پر 70ہزار کروڑ روپئے کی بدعنوانی کا الزام لگاتے ہیں اور اس کے محض 4 دن بعد اس کے 40 سے زائد ایم ایل ایز نہ صرف بی جے پی کی حمایت کا اعلان کر دیتے ہیں بلکہ مہاراشٹر کی حکومت میں بھی شامل ہو جاتے ہیں؟ آپ کہیں گے کہ اس میں ایسی کون سی بات ہے، پردھان سیوک نے صرف الزام ہی تو لگایا تھا، بی جے پی میں شامل ہونے کی دعوت تو نہیں دی تھی؟ بالکل صحیح، لیکن اگر اس الزام کی نوعیت پر غور کرلیں تو نہ صرف این سی پی بلکہ شیوسینا کو توڑ کر بی جے پی کے ساتھ ملانے کی سیاست بالکل دو اور دوچار کی طرح سمجھ میں آجائے گی۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح کوئی شکاری جنگل میں ہانکا لگاتا ہے اور شکار خوف زدہ ہوکر اس کے ہی جال میں پھنس جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں : نرملا کا نرالا سر!
بدعنوانی کا ایسا ہی الزام شیوسینا پر بھی تھا جب تک کہ ادھوٹھاکرے کے دستِ راست سمجھے جانے والے ایکناتھ شندے اپنے ساتھ 40؍ایم ایل ایز کو لے کر بی جے پی کی گود میں نہیں آبیٹھے تھے۔ ادھوٹھا کرے سے بغاوت کے بعد جب شندے ممبئی سے سورت ہوتے ہوئے گوہاٹی پہنچے تھے تو بی جے پی کی جانب سے بار بار یہ اعلان ہو رہا تھا کہ شندے کی اس بغاوت کے پیچھے اس کا کوئی ہاتھ نہیں ہے، جبکہ شندے نہایت ایمانداری سے اپنے پشت پر ایک ’مہاشکتی‘ کے ہونے کا اعتراف کرتے رہے۔ یہ الگ بات ہے کہ شندے کے وزیراعلیٰ بننے کے بعد دیوندرفڈنویس نے خود اعتراف کرلیا تھا، شیوسینا کے کئی ایم ایل ایز کو انہوں نے ہی فون کرکے شندے کا ساتھ دینے کے لیے کہا تھا، اس طرح بغاوت کی دھول جمنے سے پہلے ہی وہ ’مہاشکتی‘ پرکٹ ہوگئی تھی۔
اجیت پوار کی بغاوت اور بی جے پی میں شامل ہونے کے بعد این سی پی کے سربراہ شردپوار نے اس کا پورا کریڈیٹ پردھان سیوک کو دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’اسی این سی پی اوراس کے لیڈروں کوچار روز پہلے تک مودی بدعنوان کہہ رہے تھے، آج اسی این سی پی کے لوگوں کو اپنے ساتھ شامل کرکے انہوں نے یہ ثابت کر دیا کہ این سی پی اور اس کے لیڈر بدعنوان نہیں ہیں، اس کے لیے ہم مودی کے شکرگزار ہیں‘۔ لیکن جس پریس کانفرنس میں شرد پوار یہ باتیں کہہ رہے تھے، اسی میں سے کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو شیوسینا پر بھی بی جے پی کے ذریعے بدعنوانی کے الزام کی یاد دہانی کرا رہے تھے۔ یعنی شیوسینا پر بدعنوانی کے الزام کے نتیجے میں شیوسینا ٹوٹ گئی اور پھر این سی پی کے ساتھ بھی وہی ہوا۔ اس کا مطلب اس کے علاوہ کیا ہوسکتا ہے کہ بدعنوانی کا الزام بی جے پی کے خیمے میں آنے کے لیے ہوتا ہے۔
ابھی ہفتہ بھر ہی گزرا ہے کہ پردھان سیوک صاحب امریکہ سے اپنے قومی دورے سے واپس آئے ہیں۔ وہاں پر سبرینا صدیقی کے جس سوال پر پوری بی جے پی ابھی تک پچھاڑیں کھا رہی ہے، اسی سوال کے جواب میں پردھان سیوک نے جمہوریت پر ایسا بہترین پروچن دیا تھا گویا سبرینا نے جمہوریت وآئین کے بارے میں ہی سوال کیا تھا۔ اپنے جواب میں پردھان سیوک نے کہا تھا کہ بھارت جمہوریت کی جننی یعنی کہ ماں ہے۔ اپنے اس جواب کے محض دس دنوں کے اندر ہی انہوں نے این سی پی کو توڑ کر بتا دیا کہ بھلے ہی بھارت جمہوریت کی جننی ہے لیکن بی جے پی جمہوریت کی ہتیارن ہے۔ اگرایسا نہیں ہوتا تو وہ مرکزی تفتیشی ایجنسیوں کا استعمال اپنی پارٹی کو مضبوط اور اپوزیشن کو کمزور کرنے کے لیے ہرگز نہیں کرتے۔
اجیت پوار کے ساتھ جتنے لوگ بی جے پی کے ساتھ گئے ہیں ان میں سے بیشترلوگوں کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ وہ ای ڈی و سی بی آئی گزیدہ ہیں، یعنی کسی نہ کسی طور پر وہ تفتیشی ایجنسیوں کے رڈار پر تھے۔ ان میں حسن مشرف اور ان کے اہلِ خانہ کی کچھ ایسی حالت ہوگئی تھی کہ حسن مشرف کی اہلیہ نے زک ہوکر کہا تھا کہ روزروز پریشان کرنے سے تو بہتر ہے ہمیں گولی مار دی جائے۔ ایسی ہی کچھ حالت اجیت پورا کی بھی ہوچکی ہے۔ لیکن اجیت پورا کا معاملہ یہ ہے کہ وہ جب بی جے پی سے ہاتھ ملاتے ہیں توانہیں کلین چیٹ مل جاتی ہے اور جیسے ہی وہ اپوزیشن کا کردار ادا کرنا شروع کرتے تھے، ان کے خلاف چھاپے ماری شروع ہو جاتی تھی۔ ایسے میں اگر یہ لوگ بی جے پی کے ساتھ نہیں جاتے تو ای ڈی و سی بی آئی کی طاقت سے لوگوں کا یقین اٹھ جاتا۔ یوں بھی ہرکوئی نواب ملک یا انیل دیشمکھ تو ہو نہیں سکتا کہ جو جیل کی صعوبتیں برداشت کرلیں، لیکن جھکیں نہیں۔
سال بھر پہلے ایکناتھ شندے کے ساتھ شیوسینا جو 40؍ارکان آئے تھے، ان میں سے بیشتر سے کسی نہ کسی وزارت کا وعدہ کیا گیا تھا۔ یہ تمام لوگ وزرات ملنے کی امید پر صبروضبط کا دامن تھامے ابھی تک بیٹھے تھے کہ اجیت پوار کی معیت میں مزید 40 لوگوں کی نہ صرف آمد ہوگئی بلکہ ان میں سے 9 لوگ وزیر بھی بن گئے۔ اب جو لوگ سال بھر سے وزارت کی امید میں اپنے اپنے حلقوں میں طعنے اور جانبداری برداشت کر رہے تھے، ان کی حالت بالکل ایسی ہوگئی ہے گویا کسی نے انہیں سرِ بازار برہنہ کر دیا ہو۔ اب ان کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ وہ کریں تو کیا کریں۔ کیونکہ اگر وہ واپس جاتے ہیں تو ای ڈی ہے اور اگر نہیں جاتے ہیں تو بغیر پیندے کی لوٹیا بن کر رہنا پڑے گا۔ اس صورت حال نے شندے کے ساتھیوں میں زبردست ناراضگی پیدا کر دی ہے جو بہت ممکن ہے کہ چند ایک روز میں ابل پڑے۔ خود وزیراعلیٰ شندے کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ اجیت پوار کی حلف برداری سے ناراض ہیں جبکہ ایک شرساٹھ نامی شندے گروپ کے ایک وزیر نے علانیہ کہا تھا کہ اگر اجیت پوار بی جے پی کے ساتھ آتے ہیں تو ہم بی جے پی سے علاحدہ ہوجائیں گے۔
مہاراشٹر کی موجودہ سیاسی صورت حال میں بی جے پی کی عوامی مقبولیت دن بہ دن کم ہوتی جا رہی ہے۔ آپریشن لوٹس کی کامیابی کے بعد سے ریاست میں جتنے بھی انتخابات ہوئے چاہے وہ بلدیاتی ہوں یا پھر اسمبلی کے ضمنی ہوں، مہاوکاس اگھاڑی نے بی جے پی کو چاروں خانے چت کیا ہے۔ آر ایس ایس کے گڑھ ناگپور تک میں بی جے پی اپنی سیٹیں نہیں بچا سکی ہے جہاں گزشتہ دو تین ٹرمس سے بی جے پی کا امیدوار ہی کامیاب ہو رہا تھا۔ ابھی حال ہی میں مہاراشٹر میں ’سکال‘ و ’سام مراٹھی‘ چینل کا ایک بڑا سروے آیا ہے جس میں بتایا گیا کہ اگر ریاست میں انتخابات ہوتے ہیں تو مہاوکاس اگھاڑی کی حکومت بنے گی۔ اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ ریاست میں بی جے پی کی حالت نہایت دگرگوں ہے۔ اس صورت حال سے نکلنے کے لیے دو ہی راستے ہوسکتے تھے۔ پہلا یہ کہ بی جے پی اپنی عوامی مقبولیت کو بڑھائے اور دوسرا یہ جو پارٹیاں عوام میں مقبول ہیں انہیں ہی توڑ کر اپنے ساتھ ملا لے۔ بدقسمتی پہلا راستہ بی جے پی کے لیے ممکن نہیں تھا اس لیے دوسرا اپنایا گیا، لیکن یہ راستہ اپناکر بی جے پی نے خود اپنے پیروں پر کلہاڑی مار لی۔
مہاراشٹر کے ستارا ضلع میں کراڈ نامی ایک مقام ہے جہاں یشونت راؤ چوہان کی یادگار قائم ہے۔ شردپوار یشونت راؤ چوہان کو اپنا گرومانتے ہیں اور گرو پورنیما کے موقع پر وہاں جاکر انہوں نے بی جے پی کو جس طرح سبق سکھانے کا ارادہ ظاہر کیا ہے، وہ یقینی طور پر بی جے پی کی نیندیں اڑانے کے لیے کافی ہے۔ شردپوار نے کہا کہ بھلے ہی ہمارے لوگوں کو بی جے پی نے توڑ لیا، لیکن ہم نہ صرف ریاست میں ایک بار پھر پوری طاقت کے ساتھ پارٹی کو کھڑا کریں گے بلکہ بی جے پی کو بھی اس کی حیثیت بتا دیں گے۔ بالکل اسی طرح اتوار کی پریس کانفرنس میں شردپوار نے کہا تھا کہ پارٹی سے بغاوت کرکے جانے پر انہیں کوئی فکر نہیں ہے بلکہ فکر ان لوگوں کے سیاسی مستقبل کی ہے۔ شردپوار کے اس بیان اور بی جے پی کو دی جانے والے الٹی میٹم نے ریاست بھر میں این سی پی کے کارکنوں میں جو جوش بھر دیا ہے، اس کا نظارہ ابھی سے سڑکوں پر نظر آنے لگا ہے۔
(مضمون میں جو بھی لکھا ہے وہ مضمون نگار کی اپنی رائے ہے اس سے قومی آواز کا متفق ہونا لازمی نہیں ہے)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔