مہاراشٹر کابینہ توسیع: کئی لوگوں کی امیدوں پر پھر گیا پانی... سجاتا آنندن
مہاراشٹر کابینہ توسیع سے جن کی امیدیں ٹوٹی ہیں ان میں دو اراکین اسمبلی والی ’پرہار پارٹی‘ لیڈر بچو کادو، شندے کی حمایت میں آئیں تین خاتون اراکین اسمبلی اور بی جے پی لیڈر کریٹ سومیا شامل ہیں۔
مہاراشٹر میں حکومت بنانے کے ایک ماہ سے زیادہ وقت تک تذبذب کی حالت کے بعد آئینی جھنجھٹ سے بچنے کے لیے بالآخر مہاراشٹر کابینہ کی توسیع ہو ہی گئی، لیکن اس توسیع سے کئی لوگوں کا منھ کسیلا ہو گیا ہے۔ جن لوگوں کی اس توسیع سے امیدیں ٹوٹی ہیں ان میں دو اراکین اسمبلی والی ’پرہار پارٹی‘ لیڈر بچو کادو، شندے کی حمایت میں آئیں تین خاتون اراکین اسمبلی اور بی جے پی لیڈر کریٹ سومیا شامل ہیں۔ کابینہ میں جگہ نہ ملنے سے ان سب کو جھٹکا لگا ہے۔
گزشتہ تقریباً دو ماہ سے کادو کا نام نائب وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس بار بار لے رہے تھے اور کادو کو امید بھی تھی کہ انھیں کابینہ وزیر کا درجہ ملے گا۔ خاص طور سے انھیں لگتا تھا کہ اگر شندے گروپ کے اراکین اسمبلی کو اپنی سیٹیں بچانے کے لیے کسی پارٹی میں ضم ہونا پڑا تو ان کی ہی پارٹی ہوگی۔ لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ ویسے سپریم کورٹ میں اراکین اسمبلی کو نااہل قرار دینے کے آخری فیصلے میں تاخیر اور صرف وزراء کے سہارے چل رہی حکومت کو لے کر بامبے ہائی کورٹ کے جج کی ناراضگی کے بعد ایکناتھ شندے-فڈنویس کے پاس کابینہ توسیع کے علاوہ کوئی متبادل بچا بھی نہیں تھا۔ اس میں دونوں پارٹیوں سے 9-9 اراکین اسمبلی کو وزیر بنایا گیا ہے تاکہ فی الحال کم از کم توازن برقرار رہ سکے۔
کادو ’پرہار پارٹی‘ کے لیڈر ہیں جو مہاراشٹر میں وِدربھ تک ہی محدود ہے۔ اور اگر سپریم کورٹ ادھو ٹھاکرے گروپ کی عرضی کو منظوری دیتے ہوئے شندے خیمہ کے 16 اراکین اسمبلی کی رکنیت ختم کر دیتا ہے تو انھیں یا تو استعفیٰ دینا پڑے گا یا پھر کسی پارٹی میں انضمام کرنا پڑے گا۔ ویسے انضمام والی سوچ بی جے پی کی نہیں ہے، البتہ کادو کی ہی ہے جو ان کے مطابق راج ٹھاکرے کی ایم این ایس کے حمایت میں نہ آنے پر مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ پرہار پارٹی کے لیڈر کادو یوں تو انتخابی سیاست میں نئے نئے ہیں، لیکن ان کا ہاؤ بھاؤ بالکل بال ٹھاکرے کی شیوسینا جیسا ہے۔ مثلاً سرکاری دفاتر پر حملہ کرنا، افسران کے چہروں پر سیاہی پوتنا، مخالفین کو دیکھ لینے کی دھمکی دینا وغیرہ وغیرہ۔ انھوں نے راجیہ سبھا انتخاب میں گزشتہ مرتبہ مہا وکاس اگھاڑی حکومت کے رخ کے برعکس ووٹ دیا تھا، جب کہ وہ ایم وی اے حکومت کی حمایت کا اعلان کر چکے تھے۔ گزشتہ مہینے انھوں نے شندے گروپ کو اپنی پارٹی میں ضم کرانے کی بھرپور کوششیں کیں، لیکن شیوسینا کے باغی اس سے متفق نہیں تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ اس سے ان کی شناخت ختم ہو جائے گی، اور نہ ہی شندے-فڈنویس نے انھیں زیادہ اہمیت دی، کیونکہ انھیں پتہ ہے کہ ایک بار کرسی ملنے کے بعد کادو بے قابو ہو سکتے ہیں۔
کابینہ توسیع کے بعد شندے-فڈنویس کی اس بات کے لیے تلخ تنقید ہو رہی ہے کہ انھوں نے ایک بھی خاتون کو وزیر نہیں بنایا، جب کہ ایک مسلم عبدالستار کو وزیر کا عہدہ ملا ہے۔ عبدالستار کو شندے کا سب سے مضبوط حامی مانا جاتا ہے کیونکہ وہ شروع سے ہی ایسے بیان دیتے رہے ہیں کہ شیوسینا کو بال ٹھاکرے کے ہندوتوا کی دھارا پر واپس لوٹنے کی ضرورت ہے۔ لیکن اب سامنے آ رہا ہے کہ وہ اور ان کے کنبہ کے لوگ مبینہ طور پر ٹیچرس انٹرینس ٹیسٹ گھوٹالے میں شامل رہے ہیں۔ ان پر پیسے لے کر اس امتحان کے ریزلٹ سے چھیڑ چھاڑ کرنے کا الزام ہے۔ مانا جاتا ہے کہ خود کو اور کنبہ کو بچانے کے لیے ہی عبدالستار بی جے پی کی حمایت میں آئے ہیں۔ عبدالستار پر بدعنوانی کے الزامات سامنے آنے کے بعد سابق وزیر اعلیٰ پرتھوی راج چوہان کی وہ بات درست لگنے لگی ہے کہ عبدالستار کو وزیر تعلیم بنا دیا جانا چاہیے کیونکہ ریاست کے اساتذہ کی تو وہی تقرری کرتے رہے ہیں۔
لیکن اس سب سے الگ حکومت سے باہر کا ایک ایسا شخص ہے جسے سب سے زیادہ مایوسی ہوئی ہے۔ ان کا نام ہے کریٹ سومیا۔ سومیا نے ہی ایم وی اے حکومت میں وزیر رہے سنجے راٹھوڑ پر ایک قتل میں شامل ہونے کا انکشاف کیا تھا۔ لیکن وہی سنجے راٹھوڑ اب شندے-فڈنویس حکومت میں وزیر بن گئے ہیں۔ سومیا کے الزامات کے بعد ادھو ٹھاکرے نے سنجے راٹھوڑ سے استعفیٰ لے لیا تھا۔ ان پر ٹک ٹاک اسٹار پوجا چوہان کے قتل کا الزام لگا تھا۔ ایک طرف جہاں کریٹ سومیا کابینہ میں سنجے راٹھوڑ کو حلف لیتے خاموشی سے دیکھتے رہ گئے، وہیں نہ صرف اپوزیشن بلکہ بی جے پی خاتون وِنگ کی لیڈر چترا واگھ نے بھی راٹھوڑ کو کابینہ میں شامل کیے جانے کی تنقید کی ہے۔ واگھ نے کہا کہ بھلے ہی راٹھوڑ کو وزیر بنا دیا گیا ہے، لیکن وہ ’اپنی بہن پوجا‘ کو انصاف دلانے کے لیے جدوجہد کرتی رہیں گی۔ دوسری طرف عبدالستار نے اپنے اور اپنے کنبہ پر لگائے گئے الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انھیں بدنام کرنے کی یہ کوشش اپوزیشن کی سازش ہے۔
ویسے تو کابینہ توسیع میں توازن برقرار رکھنے کے دعوے کیے جا رہے ہیں، لیکن اس میں بی جے پی کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے۔ بی جے پی کی طرف سے کابینہ میں منگل پربھات لوڈھا، سابق وزیر مالیات سدھیر منگنتیوار جیسے سرکردہ لیڈران کو شامل کیا گیا ہے، جب کہ شیوسینا کے باغیوں میں کوئی بھی نام قابل تذکرہ نہیں ہے۔ ادھو ٹھاکرے نے شندے گروپ کو ’علی بابا اور چالیس چور‘ کا نام دیا تھا۔ وہیں آج سابق نائب وزیر اعلیٰ اجیت پوار نے کہا کہ 40 کو حکومت میں شامل ہونے میں 40 دن لگ گئے۔ ان کا اشارہ شیوسینا کے 40 باغیوں اور کابینہ توسیع میں 40 دن کی تاخیر کی طرف تھا۔ ویسے خبریں ہیں کہ فڈنویس داخلہ اور مالیات دونوں ہی محکمے اپنے پاس رکھنے والے ہیں۔ ایسے میں شندے گروپ کو دوئم درجہ ہی حکومت میں حاصل ہوا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔