مہاراشٹر اسمبلی انتخاب: ریاست کو بچانے اور بی جے پی کو ہرانے کے لیے وجود کی لڑائی... نوین کمار

ہریانہ کے انتخابی نتائج کا فائدہ اٹھانے کی کوشش میں مصروف بی جے پی کو مہاوکاس اگھاڑی کی بڑھتی مقبولیت سے زوردار جھٹکا لگ سکتا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>ایم وی اے کی پریس کانفرنس سے لیڈران بات کرتے ہوئے /&nbsp; تصویر: آئی اے این ایس</p></div>

ایم وی اے کی پریس کانفرنس سے لیڈران بات کرتے ہوئے / تصویر: آئی اے این ایس

user

نوین کمار

بی جے پی ہریانہ میں ملی انتخابی جیت کا پورا فائدہ اٹھانے کی تیاری میں ہے۔ حالانکہ الیکشن کمیشن کے جانبداراہن رویہ پر پھر سے سوال اٹھ گئے ہیں۔ سوال صرف کانگریس نے نہیں اٹھائے ہیں، جس کے بارے میں ہر کسی کو امید تھی کہ وہ ہریانہ میں حکومت بنائے گی۔ کئی سیاسی تجزیہ نگاروں نے بھی اس انتخابی نتیجہ پر حیرانی ظاہر کی ہے۔

مہاراشٹر میں الیکشن کمیشن نے انتخاب کی تاریخوں کا فی الحال اعلان نہیں کیا ہے۔ امید کی جا رہی ہے کہ بی جے پی کو انتخابی وعدے پورے کرنے کے لیے موافق وقت دینے کے لیے ایسا کیا گیا ہے۔ وہاں نومبر میں انتخاب ہونا ہے۔ اس ریاست میں بہت کچھ داؤ پر ہے کیونکہ مہایوتی حکومت اقتدار میں بنے رہنے کے لیے پوری کوشش کر رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ بی جے پی ہریانہ میں ملی مشتبہ جیت کو یہاں بھی دہرانے کی امید کرے گی۔ اسی کے تحت ریاستی حکومت کے ذریعہ اشتہارات کا نیا دور شروع ہو گیا ہے جس میں ’ماجھی لاڈکی بہن یوجنا‘ کے لیے رقم ٹرانسفر اور اس طرح کے دیگر فلاحی منصوبوں اور ممبئی و پونے میں نئی میٹرو لائنوں جیسے منصوبوں کے افتتاح وغیرہ کی تشہیر کی جا رہی ہے۔


دوسری طرف یہ پہلی مرتبہ ہوگا جب شرد پوار اور ادھو ٹھاکرے مل کر انتخابی تشہیر کریں گے۔ شیوسینا اور این سی پی میں شگاف ڈال کر ایم وی اے حکومت کو ہٹانے کی بی جے پی کی کامیاب کوششوں کے بعد ان کے تئیں لوگوں میں ہمدردی ہے۔ ریاست کے تقریباً نصف ووٹرس والے مراٹھا-دلت-اقلیت ووٹ ’مراٹھی مانُس‘ کی حمایت میں کھڑے معلوم پڑتے ہیں۔ ممبئی میں اڈانی اور ان کے سیاسی استفادہ کنندگان کے تئیں نفرت کچھ دیگر اسباب ہیں جو بی جے پی کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ اس طرح مہاراشٹر کو دیکھا جائے تو ہریانہ سے بہت مختلف معلوم پڑ رہا ہے۔

مہاوکاس اگھاڑی اتحاد (ایم وی اے) میں جتیندر اوہاڈ، وجئے وڈیٹیوار اور امول کولہے جیسے مضبوط او بی سی لیڈران ہیں، اور شیوسینا (یو بی ٹی) کے ساتھ ساتھ این سی پی (شرد پوار) بھی مضبوط کیڈر پر مبنی پارٹیاں ہیں۔ ایم وی اے کی حمایت میں کام کرنے والی مزید ایک بات ہے مراٹھا-مسلم-دلت-کُرمی اتحاد۔ بگڑتے زرعی بحران کو لے کر دیہی مہاراشٹر میں لوگوں کا غصہ ظاہر ہے۔ یہ جذبہ بھی کام کر رہا ہے کہ نام نہاد ڈبل انجن حکومت کے ذریعہ ریاست کے مفادات سے سمجھوتہ کیا جا رہا ہے۔


کچھ تبصرہ نگاروں کا ماننا ہے کہ ہریانہ کا نتیجہ ایم وی اے میں کانگریس کے حوصلہ اور اس کی حالت کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ ایسا اس لیے کیونکہ پارٹی زیادہ سیٹوں پر لڑنے کی امید لگائے ہوئے تھی۔ لوک سبھا کی 13 سیٹیں جیتنے کے بعد پارٹی کا حوصلہ بڑھا ہوا تھا۔ ویسے ادھو ٹھاکرے کے ذریعہ یہ کہنے کے بعد کہ انھیں کانگریس اور شرد پوار کے ذریعہ تجویز کردہ وزیر اعلیٰ عہدہ کا امیدوار منظور ہوگا، ایم وی اے میں حوصلہ بڑھانے والا ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اس بار کا انتخاب ان کے وزیر اعلیٰ کی شکل میں واپسی کے لیے نہیں، بلکہ ریاست کو بچانے اور بی جے پی اتحاد کو ہرانے کے لیے وجود کی لڑائی پر مشتمل ہے۔

برسراقتدار اتحاد کے کئی لیڈران پہلے سے ہی ایم وی اے میں شامل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ پارٹی بدلنے والے لیڈران میں صرف این سی پی (اجیت پوار) کے اراکین اسمبلی ہی ہیں۔ دیویندر فڑنویس کے قریبی ہرش وردھن پاٹل، ابھجیت پاٹل اور رمیش کدم جیسے بی جے پی لیڈران حال ہی میں شرد پوار کی این سی پی میں شامل ہوئے ہیں۔ اجیت پوار گروپ کے رامراجے نائک نمبالکر اور دیپک چوہان بھی شرد پوار کی این سی پی کے پاس لوٹ رہے ہیں۔ اتنا ہی نہیں، ایکناتھ شندے کے قریبی لیڈر دیپیش مہاترے ادھو ٹھاکرے کی شیوسینا میں شامل ہو گئے ہیں۔ اس طرح انتخابی پالیسیوں کو انجام دیا جا رہا ہے۔ انتظار صرف انتخاب سے متعلق نوٹیفکیشن کا ہے۔


پروجیکٹس کے لیے بڑے پیمانہ پر خرچ

ریاستی حکومت مشتبہ مانے جانے والے پروجیکٹس کی تشہیر کے لیے کثیر مقدار میں پیسے خرچ کرنے کا وعدہ کر رہی ہے۔ بجٹ میں پہلے نئے فلاحی منصوبوں کے لیے 96 ہزار کروڑ روپے الاٹ کیے گئے تھے۔ اس میں ’ماجھی لاڈکی بہن‘ منی ٹرانسفر منصوبہ کے لیے 46 ہزار کروڑ روپے شامل تھے۔ اس میں سے 270 کروڑ روپے تین مہینوں میں پروجیکٹس کے اشتہار پر خرچ کیے جانے تھے۔

انتخاب کے لیے نوٹیفکیشن جاری کیے جانے سے قبل 7 اکتوبر کو 90 کروڑ روپے کی پانچ روزہ ڈیجیٹل ایڈورٹائزنگ مہم کے لیے قلیل مدتی ٹنڈر جاری کیا گیا۔ اس کے اگلے ہی دن ریاستی ٹھیکیدار یونین نے سبھی ضلعوں میں علامتی احتجاجی مظاہرہ کیا اور بقایہ ادائیگی کا مطالبہ کر دیا۔ یونین نے وزیر اعلیٰ کو تحریر کردہ خط میں دعویٰ کیا کہ گزشتہ دو سالوں سے 40 ہزار کروڑ روپے نہیں دیے گئے ہیں۔ محکمہ مالیات کی تنبیہ ہے کہ ریاستی حکومت کا خسارہ 25-2024 میں دو لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ ہونے کا خطرہ ہے۔ اس نے لوگوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ ریاست اتنا بڑا قرض کس طرح ادا کرے گی۔


مہایوتی حکومت نے 30 ستمبر اور 8 اکتوبر کے درمیان 1087 سرکاری عزائم (جی آر) جاری کیے۔ یہ تقریباً سبھی محکموں سے متعلق تھے اور ان میں پالیسی پر مبنی فیصلے (دھاراوی ری ڈیولپمنٹ پروجیکٹ، اسمال ہائیڈروپاور پروجیکٹ کے لیے مرکزی حکومت سے سالٹ پین لینڈ کی خرید کو منظوری دینا)، فنڈ تقسیم اور انسانی وسائل سے جڑے معاملوں میں بہتری کے ساتھ نئی پیش قدمی کا اعلان شامل تھا۔ ان مشتبہ فیصلوں نے لاگت بھی بڑھا دی ہے۔ پونے رِنگ روڈ پروجیکٹ کی لاگت 20375 کروڑ روپے تک بڑھ گئی ہے۔ اب یہ 42711 کروڑ روپے ہو گئی ہے۔ یہ بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ بی جے پی رکن اسمبلی کیپٹن تمل سیلون کو ویر ساورکر چیریٹیبل ٹرسٹ کے لیے وڈالا سالٹ پین علاقہ میں 6320 اسکوائر میٹر کا پلاٹ کافی کم قیمت پر الاٹ کیا گیا تھا۔

راہل گاندھی کا کولہاپور دورہ

راہل گاندھی کے کولہاپور دورہ نے ایک الگ ہی طرح کی ہلچل پیدا کر دی ہے۔ وہاں دلت کنبہ کے باورچی خانہ میں ان کا جانا لوگوں کی توجہ مرکوز کرنے والا رہا۔ میزبان انجنا تکارام سناڈے اور اجئے تکارام سناڈے کے ساتھ ان کی بات چیت والی چھوٹی سی ویڈیو میں قائد حزب اختلاف دلتوں کے ساتھ ہونے والی تفریق کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ دلتوں کے گھروں میں کھائے جانے والے پکوان بنانا سیکھتے ہیں اور ان کے ساتھ کھانا کھاتے ہیں۔ راہل گاندھی سے اجئے صاف لفظوں میں کہتے ہیں کہ نہ تو انھوں نے اور نہ ہی ان کے کنبہ نے کبھی کسی انتخاب میں کانگریس کو ووٹ دیا، نہ ہی بی جے پی کو ووٹ دیا ہے۔ ویڈیو اور اس دورہ نے وزیر اعظم نریندر مودی کی توجہ کھینچی جو اسی وقت مہاراشٹر میں 56 ہزار کروڑ روپے کے منصوبوں کی شروعات کرنے پہنچے تھے۔


سیاسی تجزیہ نگار دیپک کیتکے کہتے ہیں کہ راہل گاندھی کا کولہاپور دورہ اس لیے اہم تھا کیونکہ یہیں چھترپتی شیواجی کی نسل سے چھترپتی ساہوجی مہاراج نے پہلی بار دلتوں کے لیے ریزرویشن نافذ کیا تھا۔ ان کا ماننا ہے کہ مہاراشٹر اسمبلی انتخاب دو اہم ایشوز ’آئین‘ اور ’ریزرویشن‘ پر لڑا جائے گا۔ ریزرویشن کے بارے میں تو سبھی کو معلوم ہے کہ راہل گاندھی سپریم کورٹ کے ذریعہ مقرر 50 فیصد کی حد کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔

راہل گاندھی نے شروانی مانگوے سے ملنے کے لیے بھی وقت نکالا، جن سے ان کی ملاقات ’بھارت جوڑو یاترا‘ کے دوران ہوئی تھی۔ یہ جانکاری ملنے پر کہ وہ تاجر ہیں اور خود آئسکریم بناتی ہیں، انھوں نے ان سے ملاقات کا وعدہ کیا تھا۔ وہ گئے بھی اور رولنگ اسٹون آئسکریم پارلر میں جا کر آئسکریم کا مزہ بھی چکھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔