مہاراشٹر: ڈھائی سال بعد بی جے پی نے تسلیم کرلی ہار... اعظم شہاب
بی جے پی کے تئیں ریاستی حکومت نے اپنا رویہ کیا تبدیل کیا کہ گزشتہ ڈھائی سال سے حکومت گرانے کی خوش فہمی میں غلطاں بی جے پی نے نہ اپنی شکست تسلیم کرلی بلکہ پولیس کی تفتیش پر واویلا مچا رہی ہے۔
بالآخر ڈھائی سال بعد اب جاکر مہاراشٹر میں بی جے پی نے اپنی شکست تسلیم کرلی ہے۔ سابق وزیراعلیٰ دیوندر فڈنویس کے اس اعلان میں کہ ’2024 میں بی جے پی ریاست میں اکثریت کے ساتھ حکومت بنائے گی‘ اس بات کا اعتراف بھی شامل ہے کہ ابھی تک حکومت گرانے کی اپنی تمام تر کوششوں میں وہ نہ صرف ناکام بلکہ مایوس بھی ہوچکے ہیں۔ انہوں نے یہ اعتراف ایسے وقت میں کیا ہے جب اترپردیش واتراکھنڈ سمیت چار ریاستوں میں بی جے پی کو اکثریت حاصل ہوئی ہے اور وہ حکومت سازی کی تیاری کر رہی ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اس بار گوا میں بھی بی جے پی کو زبردست اکثریت ملی ہے جہاں کے وہ خود نگراں تھے۔ چار ریاستوں میں کامیابی سے پوری ریاستی بی جے پی آپے سے باہر ہو رہی ہے۔ ایسی صورت میں قوی امکان تھا کہ نئے دم خم کے ساتھ وہ ایک بار پھرحکومت گرانے کی اپنی روایتی کوشش میں لگ جاتی، لیکن معلوم یہ ہوا کہ انہوں نے اپنی اس کوشش کو 2024 تک معلق فرما دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے اس کے ساتھ ہی یہ بھی اعلان کیا ہے کہ اگر حکومت خود سے گرتی ہے تو وہ متبادل حکومت دینے کے لئے تیار ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی صورت میں ممبرانِ اسمبلی کی مطلوبہ تعداد بھی تو ان کے پاس ہونی چاہئے۔
یہ بھی پڑھیں : راستے بند ہیں سب کوچۂ قاتل کے سوا... ظفر آغا
فڈنویس کی اس کوشش سے باز آنے کی مختلف وجوہات بیان کی جا رہی ہیں۔ پہلی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ انہیں قبل ازوقت اس بات کا اندازہ ہوگیا تھا کہ ریاستی حکومت اب مدافعاتی پوزیشن سے نکل کر اقدامی کارروائی کا ارادہ رکھتی ہے۔ جس کے تحت ان کے دور کی وہ تمام بدعنوانیاں طشت ازبام ہوسکتی ہیں جن میں وہ راست یا بالراست طور پر ملوث بتائے جاتے ہیں۔ ان میں رشمی شکلا فون ٹیپنگ اور پولیس بھرتی میں ہوئی بدعنوانی کی تفتیشی رپورٹ کے انکشاف جیسے معاملے خاص طو رسے قابلِ ذکر ہیں۔ دوسری اہم وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ جس پارٹی سے انہیں قوی امید تھی کہ حکومت گرنے کی صورت میں وہ اس کے ساتھ آجائے گی یا ساتھ نہیں آئی تو کم ازکم باہر سے ہی حمایت دے دیگی، وہ پارٹیاں کھل کر بی جے پی کے خلاف ہوگئیں ہیں۔ ہوا یہ کہ ان پارٹیوں اور لیڈروں پر دباؤ ڈالنے کے لئے مرکزی ایجنسیوں کے ذریعے بڑے پیمانے پرکارروائیاں شروع کی گئیں۔ ای ڈی، انکم ٹیکس اور این آئی اے کے ذریعے این سی پی وشیوسینا کے لیڈروں کے خلاف بڑے پیمانے پر چھاپے ماری کی گئی۔ ایسی ہی ایک کارروائی کے دوران این سی پی کے قومی ترجمان اور کابینی وزیر نواب ملک کو گرفتار کرلیا گیا۔ بی جے پی کی توقع کے عین برخلاف ان کارروائیوں کا زبردست بیک فائر ہوا اور مہاوکاس اگھاڑی میں شامل تینوں پارٹیوں نے کھل کر بی جے پی کے خلاف ہلہ بول دیا۔ اب نہ شیوسینا سے اسے کوئی امید بچی ہے اور نہ ہی این سی پی سے۔
یہ بھی پڑھیں : کیا ہندوستان کا سیکولر کردار ختم ہو گیا؟... سہیل انجم
لیکن اسی کے ساتھ ایک تیسری وجہ بھی بیان کی جاتی ہے اور جو مذکورہ بالا دونوں وجوہات سے اہم معلوم ہوتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ بی جے پی کو اس بات کا بھی اندازہ ہوگیا تھا کہ حکومت گرانے کی کوشش میں وہ عوامی حمایت سے بہت حد تک محروم ہوجائے گی، کیونکہ ادھوٹھاکرے حکومت کو ریاست میں زبردست مقبولیت حاصل ہے۔ کورونا کے معاملات سے انہوں نے جس طرح نمٹا ہے، اس نے انہیں ریاست ہی نہیں بلکہ بیرونِ ملک میں ایک ہیرو کی طرح بنا دیا ہے۔ اس کے علاوہ قدرتی آفات کی وجہ سے کسانوں کو ہونے والے نقصانات کے ازالے کے لئے حکومت کے ذریعے جو اقدامات کئے گئے، اس سے بھی لوگوں میں مہاوکاس اگھاڑی حکومت کے تئیں اطمینان پایا جا رہا ہے۔ جس کا ثبوت حالیہ نگر پریشد ونگرپنچایت کے انتخابات ہیں جس میں گزشتہ الیکشن میں بی جے پی نے 600 سے زائد نشستیں جیتی تھیں جو اس بار کم ہوکر 300 تک پر آگئی۔ ایسی صورت میں اگر حکومت گرانے کی کوشش کی جاتی ہے اور بی جے پی تنہا مطلوبہ تعداد پوری نہیں کرپاتی ہے توصدر راج کا نافذ ہونا یقینی ہوجاتا۔ پھر6 ماہ بعد جب الیکشن ہوتے تو بی جے پی کو اس میں زبردست نقصان اٹھانا پڑتا، کیونکہ عوام تک یہ بات پہنچتے دیر نہیں لگتی کہ بی جے پی نے محض اقتدار پر قبضہ کرنے کے لئے بہتر طور پر کام کر رہی ہے ایک حکومت کو گرا دیا۔
چارریاستوں کے نتائج کے بعد بی جے پی کے جوش وخروش میں جو ابال آیا تھا، اس نے لوگوں کو بھی بھونچکا کر دیا تھا۔ بی جے پی جیتی تھی اترپردیش واتراکھنڈ وغیرہ میں لیکن پٹاخے پھوٹ رہے تھے ممبئی میں۔ بی جے پی دفتر کے باہر زبردست جشن منایا گیا تھا اور مٹھائیاں تقسیم کی گئی تھیں۔ اس کے علاوہ بی جے پی کے تمام ایم ایل ایز نے اپنے اپنے علاقوں میں بھی جشن کا اہتمام کیا تھا۔ اس جوش وخروش کو دیکھ کر کانگریس کے سابق راجیہ سبھا ممبر کمار کیتکر نے تو یہ تک کہہ دیا تھا کہ بی جے پی کسی بھی وقت ریاستی حکومت گراسکتی ہے۔ خود بی جے پی کے صدر چندرکانت پاٹل نے بھی یہ اعلان کردیا تھا کہ 11مارچ کے بعد ریاست میں بڑا دھماکہ ہوگا۔ شاید اسی لئے ریاستی اسمبلی کے رواں اجلاس میں بی جے پی کے حزبِ مخالف لیڈر دیوندر فڈنویس نے ایک پین ڈرائیو پیش کی تھی جس میں سو گھنٹے سے زائد کی ویڈیو ریکارڈنگ تھی۔ اس کو بی جے پی اور گودی میڈیا نے پین ڈارئیو بم قرارد یا تھا۔ لیکن اسمبلی میں اس بم کو پھوڑنے کا نتیجہ بی جے پی کی توقع کے عین برخلاف نکلا، کیونکہ اسی پین ڈرائیو کی بنیاد پر پولیس نے فڈنویس کے خلاف تفتیش شروع کردی۔ پولیس نے تفتیش کے لئے فڈنویس کو نوٹس جاری کیا جس پر بی جے پی نے ریاست میں وہ ہنگامہ مچایا جیسے سانپ کے دم پر پیرپڑگیا ہو۔ یہ الگ بات ہے کہ اسمبلی میں فڈنویس کے ذریعے لائی جانے والی پین ڈرائیو میں موجود ریکارڈنگ کے بارے میں جلد ہی یہ انکشاف سامنے آگیا کہ یہ کسی اووی آرٹسٹ کے ذریعے تیار کروائی گئی تھی۔ اس انکشاف کے بعد اب صورت حال یہ ہے کہ بی جے پی کے لوگ اپنی زبان پر پین ڈرائیو کا ذکرتک لانے سے کترانے لگے ہیں۔ اب اس کے بعد صورت حال یہ ہے کہ بی جے پی کے لیڈران ہذیان بکتے گھوم رہے ہیں اور پولیس ان کے خلاف ایف آئی آردرج کرتی جا رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں : انتخابی نتائج سے ماہرین بھی انگشت بدندان... نواب علی اختر
کہا جاتا ہے کہ ظالم بزدل ہوتا ہے، اور لالچ آدمی کو اندھا کر دیتا ہے۔ پھر چاہے ظلم سیاسی ہو یا لالچ اقتدار کا ہو۔ پولیس نے فڈنویس کو محض تفتیش کے لئے نوٹس روانہ کیا تھا جس پر بی جے پی سڑکوں پر اتر آئی۔ یہی بی جے پی تھی جس نے نواب ملک کی گرفتاری پر مٹھائیاں تقسیم کی تھی اور ان کے استعفیٰ کے لئے ریاست گیر سطح پر احتجاج کیا تھا۔ یہاں تک اسمبلی کے احاطے میں نواب ملک کی تصویر کے ساتھ داؤد ابراہیم کی تصویر لگاکر دھرنا دیا تھا۔ لیکن جب ریاستی حکومت نے فڈنویس کے دور کی بدعنوانیوں کا محض ایک تار چھیڑا تو پتہ چلا کہ مرکزی ایجنسیوں کے ذریعے دوسروں کی تفتیش کو غیرجانبدار قرار دینے والے پولیس کے نوٹس کو سیاست سے آلودہ کہتے نہیں تھک رہے ہیں۔ فڈنویس کا کہنا ہے کہ انہیں سیاسی بنیاد پر پھنسایا جا رہا ہے جبکہ پولیس بھرتی گھوٹالہ رپورٹ کے انکشاف سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اب بھلا ان سے کون پوچھے اس سے قبل جن لوگوں کے خلاف مرکزی ایجنسیوں کی کارروائیاں ہوئی ہیں اور بی جے پی مٹھائیاں تقسیم کرتے ہوئے جسے حق بجانب قرار دیتی رہی ہے، کیا وہ سیاسی مقصد کے تحت اور حکومت کو غیرمستحکم کرنے کے لئے نہیں تھیں؟ ریاستی حکومت نے بس ذرا اپنا رویہ کیا تبدیل کیا کہ گزشتہ ڈھائی سال سے حکومت گرانے کی خوش فہمی میں غلطاں بی جے پی نے نہ صرف اپنی شکست تسلیم کرلی، بلکہ پولیس کی تفتیش پر ایسا واویلا مچا رہی ہے گویا اسے ڈر ہے کہ اس سے بھان متی کا پٹارہ کھل جائے گا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔