لوک سبھا انتخاب 2024: مدھیہ پردیش میں بی جے پی کے لیے گزشتہ کارکردگی کو دہرانا ٹیڑھی کھیر
مدھیہ پردیش میں کئی سیٹوں پر بی جے پی مشکلات کا سامنا کر رہی ہے، کانگریس نے جس سمجھداری کے ساتھ امیدوار اتارے ہیں اس سے بھی بی جے پی پریشان ہو گئی ہے۔
مرکزی وزیر جیوترادتیہ سندھیا گزشتہ 20 سالوں میں پہلی بار انتخاب کے دوران گنا میں پسینہ بہا رہے ہیں اور محنت کے ساتھ انتخابی تشہیر بھی کر رہے ہیں۔ کئی انتخابات کا نظارہ کر چکے بزرگوں کا کہنا ہے کہ اس بار نئی بات یہ ہے کہ گوالیر کے سابق شاہی کنبہ کی نسل سے تعلق رکھنے والے جیوترادتیہ اپنی بیوی اور بیٹے کے ساتھ عام لوگوں سے ملاقات کر رہے ہیں، ان کی تکلیفیں سن رہے ہیں اور انھیں دور کرنے کا وعدہ کر رہے ہیں۔
سہریا قبائلیوں کی بستیوں میں پہنچے تو سندھیا نے انھیں اپنا پرانا دوست بتایا۔ ایک طرف ان کی بیوی روٹیاں بنا رہی ہیں تو ان کا بیٹا عام لوگوں کے ساتھ کھانا کھا رہا ہے۔ بائپاس پر گنا شہر سے تین کلومیٹر دور واقع بلونی گاؤں میں رہنے والے بی جے پی کارکن 27 سالہ ویرپال یادو کہتے ہیں ’’سندھیا جی جب تک کانگریس میں تھے، کبھی کار سے نہیں اترے۔ کار سے ہاتھ ہلاتے نظر آتے تھے۔ آج وہ لوگوں سے ہاتھ ملا رہے ہیں، سب سے گھل مل رہے ہیں۔ بیٹا قبائلیوں کے گھر کھانا کھا رہا ہے، بیوی روٹیاں بنا رہی ہیں۔‘‘ ویسے، ویرپال یہ بھی کہتے ہیں کہ 2019 میں انھوں نے بی جے پی کے لیے انتخابی تشہیر کی تھی، لیکن اس بار کانگریس کی حمایت کر رہے ہیں۔
ویرپال کے بغل میں کھڑے 60 سالہ کیلاش نارائن یادو کہتے ہیں کہ 2019 میں بی جے پی کی حمایت کرنے والے 2.5 لاکھ یادو ووٹر بھگوا پارٹی کے ذریعہ کے پی یادو کو ٹکٹ نہ دینے سے ناخوش ہیں۔ گزشتہ مرتبہ کے پی یادو نے سندھیا کو تقریباً ایک لاکھ ووٹوں سے ہرایا تھا۔ وہ کہتے ہیں ’’جو جیتا اس کا ٹکٹ کاٹ دیا اور جو ہارا اسے ٹکٹ دے دیا۔ یہ تو ایسا ہے کہ ہند-پاک میں عالمی کپ کا فائنل میچ ہو اور ہندوستان جیت جائے پھر بھی عالمی کپ پاکستان کو دے دیا جائے۔‘‘
مزید ایسے اسباب ہیں جس سے صاف ہوتا ہے کہ بی جے پی مقابلے کو ہلکے میں نہیں لے رہی۔ حال ہی میں پرچۂ نامزدگی داخل کرنے کے آخری دن اس نے اندور سے کانگریس امیدوار اکشے بام سے نام واپس کرا دیا، جس سے موجودہ بی جے پی رکن پارلیمنٹ شنکر لالوانی کے لیے واک اوور یقینی ہو گیا۔ اندور کو 1989 سے ہی بی جے پی کا مضبوط قلعہ مانا جاتا رہا ہے اور بیشتر لوگوں نے اس سیٹ کو برقرار رکھنے کے لیے پارٹی پر داؤ لگایا ہوگا۔ اگر نہیں تو کانگریس امیدوار کو ڈرامائی انداز سے نام واپس کیوں لینا پڑ گیا؟
اس کی کئی وجوہات بتائی جا رہی ہیں۔ ان میں سے ایک صاف طور پر کانگریس اور اس کی ریاستی صدر جیتو پٹواری کی کمزوریوں کو ظاہر کرتا ہے۔ جیتو خود اندور سے ہیں اور سابق کانگریس امیدوار کی پسند تھے۔ دوسری سوچ یہ ہے کہ بی جے پی کو زمینی ہلچل کا احساس ہو گیا تھا اور اس وجہ سے ایک مقامی عدالت کو اراضی تنازعہ کے 17 سال پرانے معاملے میں قتل کی کوشش کے لیے غیر ضمانتی دفعہ جوڑنے کے لیے راضی کیا گیا اور کانگریس امیدوار کو سمن جاری کیا گیا۔ جب کانگریس امیدوار نے اپنا پرچۂ نامزدگی واپس لیا تو اندور بی جے پی کے قدآور لیڈر کیلاش وجئے ورگیہ اور رکن اسمبلی رمیش منڈولے ان کے ساتھ تھے اور انھوں نے فوراً اعلان کیا کہ وہ بی جے پی میں شامل ہو گئے ہیں۔
کم ووٹنگ سے فکر:
بی جے پی نے 2019 میں مدھیہ پردیش کی 29 میں سے 28 لوک سبھا سیٹیں جیتی تھیں۔ گزشتہ سال اسمبلی انتخاب میں حیرت انگیز جیت کے بعد تو ان کے لیے مقابلہ آسان ہونا چاہیے تھا، لیکن بی جے پی لیڈر زمین پر پسینہ بہا رہے ہیں کیونکہ انھیں پتہ ہے کہ اس بار ایک ایک سیٹ کتنی اہم ہوگی۔
ریاست میں ووٹنگ 7 سے 14 فیصد کم ہوئی ہے۔ بی جے پی نے گزشتہ چار انتخابات میں 55 فیصد مستحکم ووٹ شیئر حاصل کیا، جبکہ کانگریس کے پاس 35 فیصد مستحکم ووٹ شیئر رہا۔ کم ووٹنگ سے فکرمند تو دونوں ہی پارٹیاں ہیں، لیکن بی جے پی کو خوف ہے کہ اس کی وجہ سے کہیں اسے برعکس نتائج کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
ایک طرف جہاں بی جے پی کے میڈیا انچارج آشیش اگروال نے اس گراوٹ کو کانگریس کے ووٹرس کا پارٹی کے تئیں عدم اعتماد بتایا، تو کانگریس اسے بی جے پی کی شکست کی منادی مان رہی ہے۔ وہیں ریاستی الیکشن کمیشن کے چیف الیکٹورل افسر انوپم راجن نے گراوٹ کے لیے گرمی کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ جن 12 سیٹوں پر ووٹنگ ہو چکی ہے، ان میں سے کئی سیٹیں قبائلی حلقہ میں ہیں اور مانا جاتا ہے کہ کانگریس نے ان میں سے 6 پر سخت ٹکر دی ہے۔ جیتو پٹواری نے بھی کھلے عام دعویٰ کیا ہے کہ کانگریس چھندواڑہ، ریوا، ستنا، سیدھی، منڈلا، ڈنڈوری اور دموہ سے جیت سکتی ہے۔
کانگریس کی مضبوط پالیسی:
7 مئی کو تیسرے مرحلہ کی ووٹنگ میں بھنڈ، بھوپال، گنا، گوالیر، مرینا، راج گڑھ، ساگر اور ودیشا میں دو قطبی مقابلہ ہوگا۔ دو سابق وزرائے اعلیٰ ودیشا سے شیوراج سنگھ چوہان اور راج گڑھ سے دگ وجئے سنگھ کے علاوہ گنا سے مرکزی وزیر جیوترادتیہ سندھیا میدان میں ہیں۔
یہ وہ علاقہ ہے جہاں گزشتہ اسمبلی انتخاب میں کانگریس نے امید سے بہتر مظاہرہ کیا تھا۔ بدلاؤ کے لیے بی جے پی لیڈر بھی ذاتی طور پر حامی بھرتے ہیں کہ کانگریس کے ذریعہ سمجھداری کے ساتھ امیدواروں کے سلیکشن نے بھنڈ، مرینا، گوالیر اور راج گڑھ میں بی جے پی کے لیے مشکلیں کھڑی کر دی ہیں۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں اگنی ویر، پرانی پنشن اسکیم، بے روزگاری اور مہنگائی جیسے ایشو اسمبلی انتخاب کے دوران بھی گونجے تھے۔ گوالیر سے پروین پاٹھک، مرینا سے ستیہ پال سیکروار ’نیتو‘ اور بھنڈ سے دلت لیڈر پھول سنگھ بریا کو میدان میں اتار کر کانگریس نے گوالیر، چنبل علاقہ میں سبھی تین اہم طبقات کی نمائندگی کا خیال رکھا۔
ستیہ پال سنگھ سیکروار پرانے اور طاقتور سیاسی کنبہ سے آنے والے سابق بی جے پی رکن اسمبلی ہیں۔ ان کے بڑے بھائی ستیش سیکروار کانگریس رکن اسمبلی ہیں، جن کی بیوی گوالیر کی میئر ہیں۔ مرینا سیٹ آخری بار 1991 میں کانگریس نے جیتی تھی، لیکن سیکروار ایک مضبوط امیدوار ہیں اور وہ حیرت انگیز نتیجہ دے سکتے ہیں۔ حال ہی میں اختتام پذیر اسمبلی انتخاب میں کانگریس نے مرینا کے 8 اسمبلی حلقوں میں سے 5 پر جیت حاصل کی تھی۔ بی جے پی امیدوار شیومنگل تومر نے 2008 میں دیمنی اسمبلی سیٹ سے 250 ووٹوں سے جیت حاصل کی تھی، لیکن 2013 اور 2018 میں اسی سیٹ پر بڑے فرق سے ہار گئے تھے۔ سابق مرکزی وزیر اور اب اسمبلی اسپیکر نریندر سنگھ تومر نے 2023 میں اسمبلی سیٹ جیتی۔
گوالیر میں بی جے پی نے سابق وزیر بھرت سنگھ کشواہا کو اتارا ہے، جو 2023 کا اسمبلی انتخاب گوالیر-دیہی سے 3000 ووٹوں سے ہار گئے تھے۔ بی جے پی اور کانگریس دونوں نے 2023 میں گوالیر لوک سبھا حلقہ میں چار چار اسمبلی حلقوں میں جیت حاصل کی تھی۔
بھنڈ سے کانگریس امیدوار پھول سنگھ بریا بھانڈیر اسمبلی سیٹ سے موجودہ رکن اسمبلی ہیں اور علاقہ کے سب سے بڑے دلت لیڈر ہیں۔ بی جے پی نے موجودہ رکن پارلیمنٹ سندھیا رائے کو پھر سے میدان میں اتارا ہے۔ اس سیٹ کو بی جے پی کا قلعہ مانا جاتا ہے لیکن اس بار بریا کی وجہ سے مقابلہ آسان نہیں ہوگا۔ بریا پہلے بی ایس پی میں تھے۔ سندھیا کے قلعہ گنا میں سندھیا سے ناخوش بی جے پی کارکنان کے ذریعہ اندرونی رنجش کا امکان ہے، پچھلی بار کے فاتح کے پی یادو کو ٹکٹ نہ دیے جانے سے یادو سمیت او بی سی طبقہ میں بھی ناراضگی ہے۔
کانگریس نے یہاں سے راؤ یادویندر سنگھ یادو کو میدان میں اتارا ہے۔ مانا جاتا ہے کہ 77 سال کی عمر پار کر چکے سابق وزیر اعلیٰ دگ وجئے سنگھ کو موجودہ بی جے پی رکن پارلیمنٹ روڈمل ناگر پر سبقت حاصل ہے، جو دو بار سے رکن پارلیمنٹ ہیں۔ ناگر کے خلاف اقتدار مخالف لہر کے علاوہ اپنے لوگوں کی خدمت کرنے کا آخری موقع دینے کی دگ وجئے سنگھ کی جذباتی اپیل زور پکڑ رہی ہے۔
مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ اور دیگر بی جے پی لیڈران کے ذریعہ دگ وجئے سنگھ کو ’آخری وداعی‘ دینے کی اپیل اور ان کی بڑھتی عمر کا ذکر لوگوں کو پسند نہیں آیا ہے۔ دگ وجئے اپنی عمر کو شکست دیتے ہوئے علاقے میں زور و شور سے تشہیر کر رہے ہیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ بی جے پی کے لیے سیٹیں جیتنے کی اپنی پچھلی کامیابی کو دہرانا ممکن نہیں ہے۔ انتخاب کے اس مرحلہ میں 6 سے 8 سیٹوں کا نقصان ہوتا صاف دکھائی دے رہا ہے، جس کی وجہ سے بھگوا خیمہ میں بے چینی بڑھ گئی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔