لوک سبھا انتخاب 2024: اعظم خان کے قلعہ رامپور میں بچھ چکی ہے شطرنج کی دلچسپ بساط

ایک بڑا سوال یہ ہے کہ نوابوں کی نشانیوں کو مسمار کرنے والے اعظم خان کی سیاست کا باب کیا ختم ہونے جا رہا ہے، وہ بھی اس پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے ذریعہ جس کے وہ بانیوں میں شامل ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>(دائیں سے بائیں) ذیشان خان، گھنشیام سنگھ لودھی، محب اللہ ندوی</p></div>

(دائیں سے بائیں) ذیشان خان، گھنشیام سنگھ لودھی، محب اللہ ندوی

user

ناظمہ فہیم

مغربی یوپی کا مشہور ضلع رامپور، جو پہلے نوابی کے لیے پہچانا جاتا تھا اور پھر یہاں کے چاقو نے اپنی پہچان بنائی، اب اعظم خان کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ ایک طرح سے رامپور پارلیمانی حلقہ اعظم خان کا قلعہ ہے جہاں انھوں نے 2019 میں بی جے پی امیدوار جیہ پردا کو شکست دی تھی۔ لیکن اس مرتبہ اس لوک سبھا سیٹ پر شطرنج کی دلچسپ بساط بچھ چکی ہے۔ اس بار اعظم خان کی سیاسی پہچان چاقو کی نوک پر ہے۔ وہ اس لیے کہ سماجوادی پارٹی نے رامپور پارلیمانی حلقہ سے جو امیدوار اتارا ہے، بظاہر وہ اعظم خان کی پسند کا نہیں ہے۔ دراصل سماجوادی پارٹی کے امیدوار نے اپنی انتخابی مہم میں جن لوگوں کو اپنے ساتھ رکھا ہے، وہ لوگ وہی ہیں جنہوں نے اعظم خان کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے۔ ساتھ ہی اعظم خان کے حامی بھی سماجوادی پارٹی امیدوار سے دوری بنائے ہوئے ہیں۔

ایسے میں یہ ایک بڑا سوال یہ ہے کہ نوابوں کی نشانیوں کو مسمار کرنے والے اعظم خان کی سیاست کا باب کیا ختم ہونے جا رہا ہے، وہ بھی اس پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے ذریعہ جس کے وہ بانیوں میں شامل ہیں۔ بی جے پی اکھلیش یادو اور اعظم خان کی دوری کو اپنے لیے فائدہ مند سمجھ رہی ہے، جبکہ بی ایس پی امیدوار دونوں لیڈران کے درمیان موجود فاصلے کو اپنے حق میں کرنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بی ایس پی امیدوار ذیشان خان نے اپنی انتخابی مہم میں اعظم خان اور ان کی اہلیہ و بیٹے عبداللہ اعظم کا سہارا لیتے ہوئے اپنے حامیوں کے ہاتھوں میں سلاخوں کے پیچھے قید اعظم خان کی تصویر والے پوسٹر بینر دے دیے ہیں۔ ساتھ ہی اپنی تقریروں میں بھی کہا ہے کہ اعظم خان کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیجنے والے ان کی پارٹی کے وہ لوگ ہیں جو یہ کہتے تھے کہ رامپور میں اعظم خان کے بغیر پارٹی کا کوئی فیصلہ نہیں ہوتا۔ حالانکہ اس بار ان کی مرضی کے بغیر ہی اکھلیش یادو نے دہلی کی پارلیمنٹ سے متصل مسجد کے امام محب اللہ ندوی کو ان کے سینے پر لا کھڑا کیا ہے۔ بی ایس پی امیدوار کو اس کا کتنا فائدہ ہوگا، اس کا اندازہ تو اگلے دو دنوں میں ہی ہو جائے گا، لیکن اس الیکشن میں یہ بھی طے ہو جائے گا کہ اعظم خان کی اس ضلع میں کتنی سیاسی زمین باقی رہ جائے گی۔


ایک جانب بی جے پی نے اس سیٹ کو اپنے وقار کا مسئلہ بنا لیا ہے اور دوسری جانب سماجوادی پارٹی یہ سوچ کر مطمئن ہے کہ عوام انڈیا اتحاد کے ساتھ ہے۔ یہ اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بی جے پی امیدوار گھنشام سنگھ لودھی کی حمایت میں صوبے کے وزیرِ اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ دو بار یہاں آ چکے ہیں اور سماجوادی پارٹی سربراہ اکھلیش یادو ایک بار بھی اپنے امیدوار کی حمایت میں یہاں نہیں پہنچے۔ سیاسی مبصرین کی مانیں تو رامپور پارلیمانی حلقہ میں انڈیا اتحاد اور بی جے پی امیدوار کے درمیان سخت مقابلہ ہوگا، کیونکہ یہاں کی بیشتر عوام کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی کے ساتھ کھڑے ہیں۔ یعنی عوام اعظم خان اور اکھلیش یادو کے بیچ سیاسی تنازع سے آگے بڑھ کر دیکھ رہی ہے۔

قابل ذکر ہے کہ رامپور پارلیمانی سیٹ پر 16 لاکھ 69 ہزار ووٹ ہیں، جس میں 55 فیصد مسلم ووٹ ہے۔ اس ووٹ کے بڑے حصہ پر اعظم خان کا قبضہ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ 10 مرتبہ رکن اسمبلی رہے اور ایک بار پارلیمانی رکن منتخب ہوئے۔ ان کی اہلیہ اور بیٹے عبداللہ اعظم نے بھی یہاں سے عوامی نمائندگی کی، مگر اس وقت یہ تینوں جیل میں ہیں اور رامپور اسمبلی سیٹ و پارلیمانی سیٹ پر بی جے پی کا قبضہ ہے۔ اس قبضہ کو برقرار رکھنے کے لیے بی جے پی نے پورا زور لگا رکھا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عوام کس کے سر پر کامیابی کا تاج رکھتی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔