یوگی سرکار سے عوام بدظن
ہندوستان میں قتل و غارت گری، لوٹ مار، ریپ، ڈاکہ زنی، کرپشن اور اس جیسے دیگر جرائم بکثرت وقوع پذیر ہوتے ہیں، انتظامیہ اور ارباب اقتدار جرائم پر قابو پانے میں ہمیشہ ناکام نظر آتے ہیں، ہمیشہ اور ہر انتخاب میں ماضی کی تاریک تصویروں کو دکھا کر روشن مستقبل کا خاکہ پیش کر کے ووٹ مانگا جاتا ہے، لیکن سرکاریں بن جانے کے بعد لاء اینڈ آرڈر کا نظام جوں کا توں برقرار رہتا ہے، حکومتیں اپنے وعدوں کی تکمیل اور عوامی فلاح و بہبود کا کام کرنے کے بجائے اقتدار کی کرسی پر بیٹھ کر عوام کا استحصال شروع کر دیتی ہیں۔ اتر پردیش اسمبلی انتخابات کے دوران بھی عام انتخابات کی طرح بی جے پی نے بہت سارے سبز باغ دکھائے، دیگر امور کے ساتھ کرائم، کرپشن، ریپ اور قتل کے موضوعات پر سابقہ سماج وادی سرکار کی کھل کر مذمت کی، اکھلیش حکومت کو ناکام قرار دیا، عوام سے ریاست اتر پردیش کو امن و سکون کا گہوارہ بنانے، جرائم پر قابو پانے اور لاء اینڈ آرڈر کا مسئلہ درست کرنے کا وعدہ کیا لیکن حکومت بن جانے کے بعد اتر پردیش کی صورت حال اور زیادہ بدتر ہو چکی ہے۔ جو صورت حال اکھلیش حکومت کے گزشتہ پانچ سالوں میں یو پی کی نہیں ہوئی تھی اس سے زیادہ بری حالت صرف پانچ مہینے میں ہو گئی ہے۔ یوگی حکومت کے دو ماہ مکمل ہونے کے بعد اسمبلی میں رپورٹ پیش کی گئی تھی ’’صرف دو ماہ میں 8 سو سے زائد ریپ کے واقعات پیش آئے جب کہ اتنی ہی قتل کی واردات بھی ہوئیں۔‘‘ ٹائمز آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق 2016 میں 15 مارچ سے 15 اپریل کے درمیان اترپردیش میں ریپ کے صرف 41 واقعات درج کیے گئے تھے جب کہ 2017 میں مذکورہ مدت کے درمیان 179 واقعات درج کیے گئے ہیں۔ انہی ایام میں سال گزشتہ قتل کے صرف 101 واقعات پیش آئے تھے جب کہ یوگی حکومت میں 273 قتل کے واقعات انجام دیے گئے ہیں۔ ایک سروے کے مطابق اکھلیش سرکار میں ایک سال کے دوران جتنے واقعات پیش آتے تھے یوگی حکومت میں صرف پانچ ماہ کے دوران اس سے دوگنے حاثات پیش آ چکے ہیں۔ علاوہ ازیں بہت سے لوگوں کی شکایت یہ ہے کہ پولس میں ان کی ایف آئی آر درج نہیں ہو رہی ہے۔ ان کے ساتھ ہونے والے واقعات پر پولس کوئی ایکشن نہیں لیتی ہے۔
بی جے پی حکومت بننے کے بعد یو پی کے ضلع سہارنپور کو گجرات بنانے کی کوشش کی گئی، دلتوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے گئے، بڑی ذات کے لوگوں نے دلتوں پر ظلم و ستم کی انتہا کر دی، بھیم راؤ امبیڈکر جینتی پر انھیں مورتی نصب کرنے سے روک دیا گیا، کچھ دنوں بعد جب دلتوں کے گاؤ ں شبیر پور میں راجپوتوں نے پہلی مرتبہ مہارانا پرتاپ کی جینتی پر ریلی نکالی تو دلتوں نے بھی مخالفت کی۔ راجپوتوں نے اس بات پر دلتوں کی بستی کو آگ لگا دی۔ شبیر پور گاؤں میں چن چن کر ان مکانوں کو آگ کے حوالے کر دیا گیا جس کے بارے میں پتہ چلا کہ یہ دلت کا ہے۔ کئی لوگوں کا قتل کیا گیا، کھیتوں میں کام کر کے شب و روز کی ضروریات کی تکمیل کرنے والے دلتوں کا سب کچھ لوٹ لیا گیا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اب تک ان دلتوں کو انصاف نہیں مل سکا ہے۔ ظالموں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا گیا ہے اور نہ ہی غریبوں اور مزدوروں کو ان کے حقوق مل سکے ہیں۔ بلکہ اطلاع یہ ہے کہ الٹے انہی دلتوں کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے۔
اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ یوگی نے حلف برداری کے بعد سب سے پہلا کام غیر قانونی سلاٹر ہاؤس کو بند کرنے کا کیا تھا۔ کہا گیا تھا کہ اس فیصلہ کا مقصد آلودگی پر قابو پانا اور گندگی کو دور کرنے کے ساتھ ریاست میں قانون کی حکمرانی کو بحال کرنا ہے۔ لیکن پس پردہ اس کا اصل مقصد مسلمانوں کو معاشی طور پر کمزور کرنا اور ان کی تجارت کو نقصان پہنچانا تھا۔ سبھی جانتے ہیں کہ گوشت کے چھوٹے کاروباریوں میں زیادہ تر مسلمان ہیں۔ اس فیصلے سے انہی لوگوں کی دکانیں بند ہوئیں۔ چمڑے کے تاجروں کا بہت بڑا خسارہ ہوا لیکن گوشت کے بڑے تاجروں کا کچھ نہیں ہوا۔ چونکہ اعلیٰ سطح پر گوشت کی تجارت میں مسلمانوں سے زیادہ غیر مسلم برادری کے لوگ ہیں۔ ہندوستان آج بھی بیف ٹرانسپورٹ میں نمبر وَن ہے۔ سلاٹر ہاؤس کی منظوری کے لیے جو شرطیں رکھی گئی ہیں وہ بہت زیادہ مشکل اور پیچیدہ ہیں۔ اس پر عمل کرنا بہت دشوار اور پریشان کن ہے۔
اتر پردیش حکومت نے مذہبی منافرت کو آگے بڑھاتے ہوئے یوم آزادی کے موقع پر مدارس کے نام یہ سرکلر جاری کر دیا کہ اہل مدارس 15 اگست پر تقریب کا اہتمام کریں، جھنڈا لہرائیں، قومی ترانہ گائیں اور اس کی ویڈیو گرافی کرا کر حکومت کو ارسال کریں۔ جو مدارس اس کی پابندی نہیں کریں گے ان پر سزا عائد ہوگی۔ یہ نوٹس واضح طور پر ایک سیکولر ملک میں نفرت پیدا کرنے پر مبنی تھی۔ مسلمانوں پر شک کرنے، ان کی خدمات اور قربانیوں کو فراموش کرنے اور انھیں رسوا کرنے کی کوشش تھی۔ مختلف مذاہب کے لوگ یہاں رہتے ہیں، سینکڑوں نسل اور ذات کے قبیلے یہاں آباد ہیں لیکن اس کے باوجود صرف دینی مدارس کے نام یہ سرکلر جاری کر کے جان بوجھ کر مدارس کو ٹارگیٹ کیا اور یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی کہ مسلمان ملک سے محبت نہیں کرتے ہیں، وہ پاکستانی نظریہ کے قائل ہیں، ان کی حب الوطنی کا امتحان لینا ضروری ہے چونکہ یہ ملک کے دشمن ہیں۔
اتر پردیش میں یوگی سرکار کے آنے کے بعد صحت محکمہ بھی بدحالی کا شکار ہے۔ اسپتال قتل خانوں میں تبدیلی ہو چکے ہیں۔ اپنے بچوں کو علاج کے لیے اسپتال جانے والے والدین وہاں سے لاش لے کر لوٹ رہےہیں۔ گورکھپور اسپتال میں ایک ماہ کے دوران 290 بچوں کی اموات ہو چکی ہیں، فرخ آباد اسپتال میں بھی صرف ایک ماہ کے دوران 49 بچے موت کی آغوش میں جا چکے ہیں۔ اسپتالوں میں یہ تمام اموات گیس اور آکسیجن کی کمی کی وجہ سے ہوئی ہیں۔ لیکن حکومت ذمہ داری قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے، کبھی ان اموات کے لیے اگست کے مہینے کو ذمہ دار ٹھہراتی ہے تو کبھی ان ڈاکٹروں کو ہی ملزم قرار دیتی ہے جنھوں نے دن و رات ایک کر کے اسپتال کے نظام کو بہتر بنانے اور بچوں کا علاج کرنے کی کوششیں کی۔ سب سے شرمناک بات یہ ہے کہ گورکھپور سے وزیر اعلیٰ پانچ مرتبہ ایم پی رہ چکے ہیں۔
یوگی حکومت کی ان تمام بدنظمیوں کے سبب عوام میں حکومت کے تئیں بدظنی پھیلنے لگی ہے۔ شروع کے دو ماہ تک شب و روز یوگی سرکار کی قصیدہ خوانی کرنے والی میڈیا بھی اب حقائق پر بات کرنے لگی ہے۔ یو پی میں لاء اینڈ آرڈر کے مسئلے پر سوال اٹھا رہی ہے اور ہر محاذ پر یو پی کی یوگی سرکار کو ناکام قرار دے رہی ہے۔
- مضمون نگار معروف اسلامی اسکالر اور آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔