فلسطین معاملے پر قومی اتفاق رائے کا فقدان... سراج نقوی
فلسطین کا اس مشکل گھڑی میں ساتھ چھوڑنا صرف غیر دانشمندانہ فیصلہ نہیں ہے بلکہ اس سے قومی اتفاق رائے سے بننے والی روز اوّل سے جاری ہماری خارجہ پالیسی کو بھی خاک میں ملا دیا گیا ہے۔
7 اکتوبر کو فلسطین کی حریّت پسند تنظیم حماس کے اسرائیل پر کیے گئے بھرپور حملے کے بعد وزیر اعظم نے جس طرح صہیونی حکومت کے حق میں بیان دیا وہ حیران کن تھا۔ اس لیے کہ ملک کی تاریخ میں غالباً پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ ہماری حکومت نے مسئلہ فلسطین پر قومی اتفاق رائے سے ہٹ کر ایسا بیان دیا کہ جس کی توقع فلسطین یا عالمِ اسلام کو بہرحال نہیں رہی ہوگی۔ البتہ یہ بات بہرحال قابل ذکر ہے کہ اہم اپوزیشن پارٹی کانگریس نے اپنی قومی ورکنگ کمیٹی کے میٹنگ میں واضح الفاظ میں فلسطینی کاز کی حمایت کا موقف دوہرایا۔
ملک کی آزادی کے بعد سے ہی ہندوستان کا فلسطین کے تعلق سے یہ واضح موقف رہا ہے کہ اسرائیل کا سرزمین فلسطین پر قبضہ غاصبانہ ہے، اور اسے وہاں سے ہٹ جانا چاہیے۔ یہی سبب ہے کہ جب مغرب کی سازشوں سے اسرائیل وجود میں آیا تب بھی ہندوستان ان ممالک میں شامل تھا کہ جنھوں نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا تھا۔ خارجہ پالیسی کے تعلق سے یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ملک کی مختلف سیاسی پارٹیاں ماضی میں ایک دوسرے سے خواہ کتنی بھی سیاسی لڑائی لڑتی رہی ہوں لیکن خارجہ پالیسی کے تعلق سے ایک طرح کا قومی اتفاق رائے پورے ملک کی سیاسی قیادت کے درمیان رہا ہے۔ اس معاملے میں ملک نے پارٹی کی سیاست سے اوپر اٹھ کر دنیا کو یہ مثبت پیغام دیا ہے کہ ہندوستان میں کسی بھی پارٹی کی حکومت آئے لیکن اس کا اثر خارجہ پالیسی پر نہیں پڑتا۔ اس حکمت عملی کے سبب ہندوستان کی خارجہ پالیسی کی دنیا چند سال پیشتر تک معترف رہی ہے۔ جنتا پارٹی کی حکومت میں جب وزارت خارجہ کا قلم دان بی جے پی کے اٹل بہاری واجپئی کے پاس تھا تو انھوں نے بھی مسئلہ فلسطین کے تعلق سے صاف کہا تھا کہ اسرائیل نے فلسطین کی زمین غصب کی ہے، لہذٰا اسے ہر حال میں اسے خالی کرنا ہوگا۔
لیکن اسے کیا کہیے کہ حماس اور اسرائیل کی تازہ جنگ میں وزیر اعظم مودی نے کھلے طور پر اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہونے کی بات کہی اور حماس کے اسرائیل پر کیے گئے حملے پر کہا کہ وہ اس سے حیران یا shocked ہیں۔ اگر حماس نے اسرائیل سے اپنی ہی سرزمین واپس لینے کے لیے اس پر ان حالات میں حملہ کیا کہ امریکہ سمیت عالمی برادری یا کم از کم مغربی ممالک کا بڑا حصہ فلسطین کے جائز مطالبے کو نظر انداز کر رہا تھا، تو اس میں حیران یا shocked ہونے کی کیا بات ہو سکتی ہے۔ اسرائیل جب دل چاہتا ہے فلسطین کے کسی بھی علاقے پر حملہ کر کے بے گناہ شہریوں کو قتل کر دیتا ہے۔ کبھی بھی فلسطین کے بچے کھچے علاقے میں نئی یہودی بستیاں بسانے کا اعلان کر دیتا ہے، اور دنیا اسے توسیع پسندی کے خطرناک کھیل سے روکنے کی سنجیدہ کوشش تک نہیں کرتی۔ اسرائیلی بربریت کو حق دفاع کہہ کر اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، اور اب جبکہ حماس نے اسرائیلی جارحیت کا منھ توڑ جواب دے کر دنیا کو حیران کر دیا ہے، اسرائیل کو اس کی اوقات بتا دی ہے تو دنیا کے دیگر دوغلے رہنماؤں کی طرح مودی کو بھی لگتا ہے کہ حماس کا عمل دہشت گردی ہے۔ شاید اس کا سبب یہ ہے کہ مغرب نے دہشت گردی کی جو تعریف طے کی ہے اس میں مسلمانوں کی اپنے جائز حقوق کے لیے لڑائی کو بھی دہشت گردی کہہ کر اس کی حوصلہ شکنی کرنے کی پالیسی کے طور پر قبول کر لیا گیا ہے۔ اس کی بے شمار مثالیں سامنے ہیں۔ مودی بھی اسی پالیسی کے تحت اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہونے اور حماس کی حریت پسندی کو دہشت گردی بتا کر بد دیانت مغربی دنیا کے ساتھ خود کو کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔
لیکن جہاں تک ہمارے ملک کا تعلق ہے تو کم از کم مسئلہ فلسطین کے تعلق سے ملک کے عوام کا موقف بھی مودی حکومت کے برعکس ہے۔ حالانکہ این ڈی اے میں شامل پارٹیوں کے علاوہ چند اپوزیشن پارٹیوں نے بھی فلسطین معاملے پر جو رخ اپنایا ہے وہ منافقت پر ہی مبنی ہے، لیکن کانگریس جیسی بڑی پارٹی کا اس معاملے میں فلسطین کے تعلق سے ظاہر کیا گیا موقف ہندوستانی عوام کے جذبات کی عکاسی کرتا ہے۔ جنتا دل (یو) لیڈر کے سی تیاگی نے بھی جس سخت لہجے میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف لب کشائی کی ہے وہ بھی قابل تعریف ہے۔ یہی معاملہ میڈیا کا بھی ہے۔ گودی یا درباری میڈیا کی بات چھوڑیں وہ میڈیا جو بی جے پی مخالف کہا جاتا ہے اور داخلی معاملات میں مسلمانوں کے حقوق کا علمبردار ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اس نے بھی حماس کے حملے سے متعلق حقائق کی جانچ پڑتال کیے بغیر جس طرح کچھ وائرل ویڈیوز کی بنا پر حماس کو دہشت گرد تنظیم کہا وہ افسوسناک ہے۔ ایسا تو قطعی نہیں ہے کہ اسرائیل نے گزشتہ چند برسوں میں مظلوم فلسطینیوں کے خلاف جو جارحانہ اور ظالمانہ کارروائیاں کی ہیں ان کا ریکارڈ انٹرنیٹ پر موجود نہ ہو۔ اسے سامنے رکھ کر یہ فیصلہ کیا جا سکتا تھا کہ کون دہشت گرد ہے اور کون دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بحالت مجبوری صہیونی طاقتوں کے خلاف نبرد آزما ہے۔ حماس نے اسرائیل کے خلاف جو کچھ کیا اس کی ضرورت اس لیے تھی کہ صہیونی طاقت اپنے طاقت کے زعم میں فلسطین کے حق میں کچھ بھی سننے کو تیار نہ تھی۔ ایسے میں سوائے اس کے کیا راستہ بچتا ہے کہ ’’ہم امن چاہتے ہیں مگر جنگ کے خلاف... گر جنگ لازمی ہے تو پھر جنگ ہی سہی۔‘‘
لیکن یہ بے حد عجیب بات ہے کہ ہماری حکومت اور میڈیا کے بڑے حصے نے نہ تو اس حقیقت کو سامنے رکھا کہ ہندوستان کچھ ٹھوس اسباب سے فلسطینی عوام کے حق آزادی یعنی ایک آزاد فلسطین کے قیام کی حمایت کرتا رہا ہے، اور نہ ہی اس بات پر غور کرنے کی ضرورت محسوس کی کہ مغربی ذرائع ابلاغ نے اسرائیل پرستی میں جو موقف اختیار کیا ہے اس میں صداقت کم اور جھوٹ زیادہ ہے، اور اسی جھوٹ کے تحت حماس کو دہشت گرد تنظیم کہہ کر فلسطینی کاز کو کمزور کرنے کی کوشش امریکہ اور اس کے حواری برسوں سے کر رہے ہیں۔
ہندوستان نے آزادی کے بعد سے ہی غیر جانبداری کی پالیسی اس لیے اختیار نہیں کی تھی کہ اہم بین الاقوامی مسائل پر ہندوستان اعتدال کا دامن چھوڑ کر ان طاقتوں کا حاشیہ بردار بن جائے جو عالمی نظام پر قبضہ کرنے کے لیے نت نئی چالیں چلتی ہیں، کمزور ممالک کو دباتی ہیں اور جارحیت کو حق دفاع کا لبادہ اڑھا کر اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کرتی ہیں۔ آزادی کے بعد سے ہی ہماری قیادت نے خارجہ پالیسی کے تعلق سے جو راہ اختیار کی اس میں اپوزیشن کو نظر انداز نہیں کیا گیا، اس میں عوامی جذبات اور قومی مفادات کو بھی پس پشت نہیں ڈالا گیا بلکہ ان سب کے درمیان اعتدال قائم کرتے ہوئے ایسا راستہ اختیار کرنے کی حکمت عملی اپنائی گئی کہ جس سے دنیا جان سکے کہ انگریزوں کے خلاف اپنے حق آزادی کی جنگ جیتنے والا ملک دنیا بھر کے مظلوموں کی آزادی کا بھی طرفدار ہے۔
فلسطین کے تعلق سے جس قومی پالیسی کی بات ہو رہی ہے وہ کانگریس یا جن سنگھ (موجودہ بی جے پی) کے نظریے کی عکاس نہیں تھی بلکہ اس میں، مظلوم فلسطینیوں کے جائز حقوق کی حمایت کے نظریے کو بنیادی اہمیت دی گئی تھی۔ اسی لیے فلسطین ہمیشہ ہی ہندوستان کو اپنا قابل بھروسہ اور معتبر دوست سمجھتا رہا ہے، لیکن حماس کے حملے کے خلاف اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہو کر مودی حکومت نے اس قومی پالیسی کی دھجیاں اڑا دی ہیں جو آزادی سے اب تک بین الاقوامی سطح پر ہمیں باوقار اور غیر جانبدار ملک کے طور پر عزت دلاتی رہی ہے۔ جو ہمیں مظلوموں کا حامی اور دہشت گردوں کا دشمن بتاتی رہی ہے، خواہ یہ دہشت گردی سرکاری ہی کیوں نہ ہو۔ فلسطین کا اس مشکل گھڑی میں ساتھ چھوڑنا صرف غیر دانشمندانہ فیصلہ نہیں ہے بلکہ اس سے قومی اتفاق رائے سے بننے والی روز اوّل سے جاری ہماری خارجہ پالیسی کو بھی خاک میں ملا دیا گیا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔