کیوں نہ کہوں: نفرت کی کوکھ سے محبت کیسے جنم لے... سید خرم رضا
نفرت کی کوکھ سے کبھی محبت جنم نہیں لے سکتی۔ پاکستان روز اول سے نفرت کی سیاست پر جی رہا ہے اور جب تک وہ اس سے باہر نہیں آئے گا تب تک اسے کسی اچھے مستقبل کی امید نہیں کرنا چاہیے۔
پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان پر قاتلانہ حملے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے کیونکہ سیاست میں اختلافات ہونا ایک فطری بات ہے لیکن یہ اختلافات جب تشدد کی شکل اختیار کر لیتے ہیں تو یقیناً یہ تشویش کی بات ہے۔ جب ہم ایسے واقعات کی مذمت کریں تو ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ یہ سب اچانک نہیں ہوا بلکہ کوکھ میں پل رہے اس عنصر کو جنم دینے کے پیچھے کئی عوامل ہیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان کا وجود دو فرقوں میں نفرت کی دین ہے۔ نفرتیں اس قدر بڑھیں یا بڑھائی گئیں کہ ملک مذہبی بنیاد پر تقسیم ہو گیا اور لاکھوں لوگ تقسیم کے اس زخم سے متاثر ہوئے۔ یہ مذہبی منافرت ہی تھی کہ ملک کے تقسیم ہونے کے بعد بھی یہ نفرتیں ختم تو کیا ہوتیں کم بھی نہیں ہوئیں۔
پاکستا ن جو رقبہ اور آبادی کے لحاذ سے ہندوستان کے مقابلے چھوٹا تھا اس نے خود کو ہندوستان کے برابر دکھانے کے لئے ہر وہ کام کیا جس سے پاکستان کو ہی نقصان ہوا۔ اس نے اپنی خامیوں اور کمیوں کو دور کرنے پر توجہ دینے کے بجائے عوام کو ہندوستان کی مخالفت کی جانب دھکیل دیا۔ سیاست دانوں نے عوامی توجہ ہٹانے اور اپنی سیاسی مقبولیت میں اضافہ کی غرض سے ہندوستان مخالف ماحول کو اس قدر ہوا دی کہ اس کو فوج کے آگے گھٹنے ٹیکنے پڑے۔ فوج کو بھی کچھ ہی دنوں بعد اقتدار کا خون منہ لگ گیا اور پھر اس نے مارشل لاء لگانے کے لئے بدامنی کا ماحول تیار کیا اور اقتدار پر قبضہ کر لیا۔
آزاد پاکستان کی تاریخ میں فوج منتخب عوامی حکومت کے مقابلے میں زیادہ تر اقتدار پر قابض رہی اور یہی نہیں پاکستان میں کبھی بھی کسی منتخب حکومت نے اپنی پانچ سالہ مدت کار پوری نہیں کی، جبکہ فوج نے کئی سال تک عوام پر اپنا راج کیا۔ اس سب کی وجہ سے یہ ہوا کہ عوامی حکومت اور فوج میں ہمیشہ رسہ کشی کا ماحول رہا۔ اس پوری مدت کار میں فوج اور عوام کی منتخب حکومت نے ایک دوسرے کی خوب تنقید کی اور خود کو ملک اور جمہوریت کا خیر خواہ بتایا۔ اس دوران فوج نے کبھی کسی سیاسی پارٹی کا ہاتھ تھاما تو کبھی کسی کو دھمکایا یا مروایا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی مثال ہمارے سامنے ہے جنہیں جنرل ضیا الحق نے پھانسی کی سزا دلوائی۔
سال 2020 میں پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف زہر اگلتے رہے اور ان پر الزام لگاتے رہے کہ انہوں مل کر عمران خان کے لئے انتخابی دھاندلی کی اور عمران خان کو اقتدار پر بٹھایا، لیکن چار سال بعد ان کے تیور بدلے ہوئے ہیں اور وہ اسی فوج کے خلاف جب عمران خان بول رہے ہیں تو وہ عمران خان کو ہدف تنقید بنائے ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ صاف ہے کہ آج ان کی جماعت بر سر اقتدار ہے جبکہ عمران ان کی جماعت کی قیادت میں قائم حکومت کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
دراصل عمران کی حکومت پاکستان کی سیاست میں پہلی مرتبہ عدم اعتماد کی وجہ سے اقتدار سے باہر ہوئی جس نے عمران اور ان کے حامیوں کو بوکھلا دیا اور وہ کھل کر فوج اور فوجی سربراہ کے خلاف محاذ کھول دیا۔ فوج اور فوجی سربراہ کے خلاف پاکستانی سیاست میں یہ کوئی نئی بات نہیں تھی لیکن عمران کے حامیوں نے اپنے غصے اور ناراضگی کا ہر محاذ پر پر تشدد اور جارحانہ مظاہرہ شروع کر دیا۔ وزیر اعظم شہباز شریف جب وفد کے ساتھ سعودی عرب گئے تب دورے کے دوران مسجد نبوی میں عمران حامیوں نے شہباز شریف کے خلاف چور چور کے نعرے لگائے، اس نے اس نفرت کی انتہا کو اجاگر کر دیا۔ اس کے بعد نواز شریف کی بیٹی اور پاکستان کی وزیر مریم اورنگزیب کے ساتھ عمران حامیوں نے ان کے لندن دورے کے دوران جو نازیبا حرکت کی اس نے خلیج کو مزید بڑھا دیا۔
صحافی ارشد شریف کا کینیا میں گولی مار کر قتل کرنے کی خبر پر عمران کی پارٹی پاکستان تحریک انصاف کا جو رد عمل سامنے آیا اس کا جواب دینے کے لئے پہلی مرتبہ آئی ایس آئی کے ڈی جی صحافیوں سے مخاطب ہوئے۔ پہلی مرتبہ آئی ایس آئی کے سربراہ کو صحافیوں کے سامنے آکر اپنے ادارے کا دفاع کرنے سے سب کی آنکھیں چڑھ گئیں۔ اس کے بعد عمران خان پر قاتلانہ حملہ اور حملے کے بعد ان کے قریبی سابق وزیر کے ذریعہ بیان بازی اور خود ان کے ذریعہ ایف آئی آر میں سیاسی شخصیات کے ساتھ فوجی جرنل کے نام کو شامل کرنے پر اڑ جانا اس بات کی جانب اشارہ کرتا ہے ہے کہ نفرت کی سیاست مزید جارح ہو سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں : نڈا کا ہماچل اور شاہ کا گجرات!... اعظم شہاب
حقیقت یہ ہے کہ عمران خان پر قاتلانہ حملہ کسی اچانک غصے کی دین نہیں ہے بلکہ نفرت کے ماحول کو کوکھ میں پالنے کی وجہ سے ہے۔ جب اقتدار سے نہ جانے اور اقتدار میں دوبارہ آنے کے لئے جہاں شادیاں کی جایئں، جنوں کو خوش کرنے کے لئے منوں گوشت چیلوں کو کھلایا جائے، ملک کے حکمرانوں کے خلاف مدینہ منورہ کی سب سے بڑی مسجد میں چور چور کے نعرے لگائے جایئں، خاتون وزیر کے ساتھ بیرون ملک میں بدتمیزی کی جائے تو یہ سب وہ اشارے ہیں جو بتاتے ہیں کہ ملک کس جانب گامزن ہے۔ دراصل نفرت کی کوکھ سے کبھی محبت جنم نہیں لے سکتی۔ پاکستان روز اول سے نفرت کی سیاست پر جی رہا ہے اور جب تک وہ اس سے باہر نہیں آئے گا تب تک اسے کسی اچھے مستقبل کی امید نہیں کرنا چاہیے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔