دنیا ہے چل چلاو کارستہ سنبھل کے چل...
’’جونا اکھاڑہ‘‘ عام طورپر بھارت میں ہندوؤں کا سب سے قدیمی اور سب سے بڑا اکھاڑہ مانا جاتا ہے 32سالہ کنہیا کمارکیشپ کا نام بدل کر کنہیا شوانند کر دیا گیا ہے۔
منووادی سنگھ پریوار اندر سے کتنا دکھی ہوا ہوگا جب اسے یہ خبر ملی ہوگی کہ ایک دلت کو ’’مہامنڈ لیشور‘‘ کا خطاب اور رتبہ عطا کیاگیا ہے۔ یہ پریوار کے لئے بڑی بے بسی کی بات ہے کیونکہ وہ اپنے پرچارک نریندر بھائی مودی جی کو دھمکا سکتے ہیں۔ جھڑک سکتے ہیں مگراکھاڑوں پر ان کا بس نہیں چلتا۔وہ اپنے معاملات اپنا اعتقاد اپنی الگ شناخت اور اپنی ایک الگ ہی آستھا (عقیدت) رکھتے ہیں۔
میں قارئین کو سمجھانے کے لئے کیا مثا ل دوں سمجھ میں نہیں آتا بس یوں سمجھ لیجئے کہ جیسے خود کو صاحبان طریقت کہلانے والوں کے حلقوں کے اندر یا خدا جانے باہر رہنے والے ’’قلندر صاحبان‘‘ نہ وہ علمائے شریعت کے پابنداورنہ پیرانِ طریقت کے، بس اپنی مرضی اور اپنے قلندری سلسلوں کے پیروکار ہوتے ہیں۔البتہ میلان صوفیوں جیسارکھتے ہیں چونکہ ہندوسناتن دھرم میں یہ وسعت ہے کہ وہ چاہیں جس کی پوجا کریں سب کو اپنا بھگوان مانیں یا کسی بھگوان کے وجود سے ہی انکار کردیں تا ہم وہ ہندو ہی کہلائیں گے مگر سوائے ناستکوں کے سب کی ڈوریاں پنڈتوں یابراہمنوں کے نادیدہ ہاتھوں میں ہوتی ہیں۔
بس اکھاڑے ہی ایسے گروہ ہیں جو مزا جاًمست قلندر ہوتے ہیں اور اپنے من کی کرتے ہیں ان کے لئے اکھاڑے کے سربراہ مہنت کا فرمان یا حکم آسمانی حکم کی حیثیت رکھتا ہے۔یہ صرف اسی کی تابعداری کرتے ہیں کسی اورکو گھانس بھی نہیں ڈالتے۔جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے لگ بھگ بیس یااکیس اکھاڑے ہیں۔ ان میں ایک اکھاڑہ جوگنوں کا بھی ہے۔ یہ ہمارے قلندروں کی طرح سرنگوں مزاج نہیں ہوتے کہ جو مل گیا کھا لیا نہ ملا تو بھوکے سو لئے بلکہ بڑے چکنے چپڑے چمکتے دمکتے اور رعب جھاڑنے والے ہوتے ہیں۔کیونکہ ہر اکھاڑے کے عوامی سطح پر ہزار معتقدہوتے ہیں جو نذر و نیاز چڑھاوا چڑھاتے ہیں اور ان سے آشیرواد لیتے ہیں۔
چنانچہ ہر اکھاڑے کے پاس کروڑوں روپے کی زمین جائداد وسونا چاندی اور جواہرات ہوتے ہیں جو اجتماعی طور پر اکھاڑے کی ملکیت ہوتے ہیں۔ ان اکھاڑوں کے ٹھاٹھ باٹ کا حقیقی نظارہ کنبھ کے میلوں میں نظر آتا ہے۔ کنبھ اشنان کے لئے مہینوں سے تیاریاں ہوتی ہیں سونے کا چھتر اکھاڑے کے مہنت کے ساتھ چلتا ہے۔اکھاڑے کے سینکڑوں سادھو ان کے جلو میں چلتے ہیں۔ کوئی مہنت چمکتے رتھ پر سوار ہوتا ہے تو کوئی مہنت شانداراورمہنگی بناچھت کی گاڑی میں سوارہوتا ہے۔ ہر اکھاڑے کے جھنڈے ہوتے ہیں۔کنبھ کا انتظام کرنے والے اشنان گھاٹوں پر ان کے خصوصی روایتی مقامات ان کو الاٹ کرتے ہیں۔روزانہ عام ہندو کنبھ میں ڈبکی لگاتے ہیں مگر ایک دن ’’شاہی اشنان‘‘ ہوتا ہے اس روز صرف اکھاڑے ہی اشنان کرتے ہیں بڑے طمطراق اور بینڈ باجے کے ساتھ اکھاڑے آتے ہیں اشنان کی جگہ الاٹ ہونے میں ذرا بھی گڑ بڑ ہوجائے تو اکھاڑے آپس میں اپنی آن بان قائم رکھنے کے لئے لڑجاتے ہیں خون خرابہ تک ہوجاتا ہے۔ ہاتھی گھوڑے سب اکھاڑے کے جلوس کی رونق بڑھاتے ہیں سب سے زیادہ شائقین اورناظرین جو گنوں کے اکھاڑے کے ارد گرد ہوتے ہیں۔اکھاڑے کسی سیاسی لیڈرکو کبھی نہیں بلاتے۔
خیر میں نے یہ سب معلومات آپ کے سامنے اس لئے رکھی کہ آپ کو ہندو دھرم میں اکھاڑوں کی اہمیت اور اثر رسوخ کا اندازہ ہو سکے اور یہ بات واضح ہو سکے کہ کسی دلت کو ’’مہا منڈلیشور‘‘بنانے میں پریوارکاکوئی رول نہیں ہوتا۔ اکھاڑوں کی روحانی درجہ بندی میں ’’ مہا منڈ لیشور‘‘ ایک بڑا اہم منصب یا رتبہ ہوتا ہے۔اس کے لئے بڑی صلاحیت اور مذہبی کتابوں کی واقفیت ہونا لازمی ہے۔’’جو نا اکھاڑہ‘‘ عام طورپر بھارت میں ہندوؤں کا سب سے قدیمی اور سب سے بڑا اکھاڑہ مانا جاتا ہے 32سالہ کنہیا کمارکیشپ کا نام بدل کر کنہیا شوانند کر دیا گیا ہے۔مطلب یہ ہوا کہ اس نے اپنی نئی زندگی کے لئے اپنا نام تک تیاگ دیا ہے اوراب اس کا ایک نیا جنم ہوا ہے۔ اجین میں پچھلے ہونے والے کنبھ کے میلے میں بھی ایک دلت کو یہ عزت بخشی گئی تھی۔
شیوانند کو جونا اکھاڑے کا مہا منڈلیشور بنانا اپنے آپ میں بہت اہمیت کا حامل ہے ۔ شیوانند کوسنسکرت کے ایک سیمنارمیں دلت ہونے کے سبب داخلہ نہیں دیا گیا تھا۔مگر انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور بھارتی جیوتش و گیان سے جو تش میں ایک ڈگری لی۔اس کے بعد انہوں نے خود کو جونا اکھاڑے سے منسلک کر لیا۔جونا اکھاڑہ سنیاسی روایات کی پیروی کرتا ہے اور ذات پات کے بھید بھاؤ میں زیادہ یقین نہیں رکھتا۔
اپنی علمی و روحانی جستجوکے سبب جلد ہی شیوانند 2016 میں ’’گوسائیں‘‘ بنانا دیئے گئے اور اب 2019 کے کنبھ میں وہ مہا منڈلیشور کی ذمہ داری نبھائیں گے۔ براہمنوں نے سنسکرت پاٹھ شالہ میں انہیں داخلہ دینے سے منع کردیا تھا کیونکہ سنسکرت صرف براہمنوں کے پڑھنے کا علم تھا۔
لیکن کیا شیوانند کے جونا اکھاڑے کے زریعہ مہا منڈلیشور کی نامزدگی سے ہندو سماج سے ذات پات کے نظام کا ختمہ ہوجائے گا جودن بہ دن کم ہونے کے بجائے بڑھتاہی جا رہا ہے۔ بھارت میں دلت لڑکیوں اور خواتین کے ساتھ زنابالجبر کی وارداتیں لگا تاربڑھ رہی ہیں۔ صرف اس لئے کہ زنا کی شکار خواتین سماج کے اس طبقہ سے تعلق رکھتی ہیں جو گاؤں اور چھوٹے چھوٹے قصبات میں بے یارو مدد گار ہوتی ہیں۔ اس کی روز مرہ زندگی کی ہرضرورت کی تکمیل متوسط اور اونچی ذات کے لوگوں کی مرہونِ منت ہوتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ تعلیم نے دلتوں میں جو بے داری پیدا کی ہے اس کا فیض پورے دلت سماج تک نہیں پہنچ پا رہاہے اور متوسط اور اعلی ذاتوں میں اپنی ظالمانہ اور اخلاقی بالادستی اُسی طرح برقرار رکھنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔
آپ کو یاد ہوگا کہ یکم جنوری 2018 میں مہاراشٹر میں کورے گاؤں بھیما میں جب لاکھوں کی تعداد میں دوسو سال پہلے مہاردلتوں کی مراٹھوں پر فتح کا جشن منانے جمع ہوئے تھے تو ا ن پرحملہ کیا گیا تھا۔ گاؤں میں دلتوں کے مکانوں کو آگ لگادی گئی تھی۔ اس آتشزنی کی چشم دیدگواہ ایک 19 سالہ دلت لڑکی پوجا ساکت تھی۔ اس پر گاؤں کے متوسط اور اونچی ذات والوں کا دباؤ تھا کہ وہ گواہی نہ دے مگر باہمت لڑکی ڈٹی رہی، لیکن اب چند روز قبل اس کی لاش گاؤں کے کنویں سےملی ہے۔ پولس اسے خودکشی کے طور پر دیکھ رہی ہے مگر بابا صاحب امبیڈکر کے پوتے پرکاش امبیڈکر نے ایک تحقیقاتی ٹیم بھیما گاؤں بھیجی تھی ان کا کہنا ہے کہ لڑکی کا قتل کیا گیا ہے اور لاش کو کنویں میں پھینک کر اسے خودکشی ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔
یہ تو روز مرّہ کی بات ہے اترپردیش مظفر نگرمیں بھی چند روز قبل اسکول میں ٹیچر نے کلاس کے سامنے ایک تیرہ سال کی لڑکی سے اس کی ذات پوچھی جب اس لڑکی نے خود کو دلت بتایا تو اسکول ٹیچر نے مستقبل میں اسے پہلی قطار میں ٹیچر کے سامنے بیٹھنے سے منع کر دیااور اس کو آخری بینچ پر بیٹھنے کو کہا گیا اس بات سے لڑکی نے اپنے گھروالوں کو آگاہ کیا تو انھونے ٹیچر کے خلاف پولس رپورٹ درج کرادی ۔ اب اسکول اس معاملہ کو رفع دفع کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
اس صورتحال کی روشنی میں جب ہم سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ کو دیکھتے ہیں جس میں ’’دلت اہانت‘‘و الے واقعات میں گرفتاری سے پہلے تحقیقات اور چھان بین کرنے کو کہا گیا ہے۔تو کیا ہم کسی دلت اہانت کے معاملہ انصاف کی توقع کر سکتے ہیں کیونکہ متوسط اور اونچی ذات والے کبھی بھی اپنے کسی ساتھی کو دلتوں کے سامنے نیچا نہیں ہونے دیں گے۔اسی لئے میں کہتا ہوں کہ دلت کا مہا منڈلیشور بن جانا ایک اہم بات ہے مگر اس سے فوری طور پر کوئی بنیادی تبدیلی آنے والی نہیں ہے۔
لیکن ایک سبق ہم مسلمانوں کو ضرور لینا چاہیے اگر ان میں قابلیت ہے اور اپنے حق سے دست بردارہو نے کے بجائے اس کےلئے لڑنے کا حوصلہ ہے تو انہیں کامیابی ضرور ملے گی۔ سنسکرت پاٹھ شالہ میں داخلہ نہ ملنے سے مایوس ہو کردلت نوجوان بیٹھا نہیں بلکہ اپنی قابلیت اورعلمی صلاحیت لگاتار بڑھاتا رہا ہے اور آخر کار مہا منڈلیشور بن کر قابل احترام ہو ہی گیا۔
ایک بات کا احساس ہمیں اچھی طرح ہو جانا چاہیے کہ دلت بھائی ہندو دھرم کا اٹوٹ انگ ہیں۔ مگر رتبہ کے معاملہ میں متوسط اور اونچی ذاتیں رشتہ داری نبھانا تو دور انہیں پاس بٹھانے کے لئے بھی آمادہ نہیں ہیں۔ وہ بھلا کیسے مسلمانوں کے ساتھ کچھ رعایت کر سکتے ہیں میں فرد واحد کے فرد واحد سے تعلق کی بات نہیں کر رہا کیونکہ وہ عام طور پر بہت اچھے اورپُراخلاق ہوتے ہیں ان کے مسلمانوں کے ساتھ برادرانہ تعلقات بھی ہوتے ہیں۔ لیکن جب بحیثیت ہندو قوم کوئی معاملہ سامنے آتا ہے تو گھٹنے ہمیشہ پیٹ کی طرف مڑتے ہیں اس لئے ہم کو جو بھی حاصل کرنا ہے اس کےلئے ہمیں شیونند مہا منڈلیشور کی طرح عمل پیہم میں مصروف رہنا پڑے گا۔
اتنا نا اپنے جامے سے باہر نکل کے چل
دنیا ہے چل چلاو کا رستہ سنبھل کے چل
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 29 Apr 2018, 5:31 PM