واجپئی کی مدد سے ہی ملک میں آر ایس ایس کی جڑیں مضبوط ہوئیں
سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی ہمیشہ آر ایس ایس کے تئیں وفادار بنے رہے۔ ایک بار امریکہ میں انھوں نے خطاب کے دوران کہا کہ وہ بھلے ہی وزیر اعظم ہوں لیکن حقیقت میں آر ایس ایس کارکن ہیں۔
ہندوستان کے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کے انتقال کے بعد انھیں پیش کی گئی خراج عقیدت میں واجپئی کو ایک روادار اور نرم رو لیڈر بتایا گیا۔ کئی لوگوں نے کہا کہ وہ ’غلط پارٹی میں صحیح لیڈر‘ تھے۔ محترم واجپئی کے بارے میں اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ ذاتی طور پر وہ ایک ’اچھے آدمی‘ تھے جنھوں نے حکومت میں رہتے ہوئے بھی کبھی سخت رویہ نہیں اختیار کیا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ ایک بہترین مقرر تھے۔ لیکن کیا وہ اچھے آدمی بھی تھے؟
ان کے انتقال کے بعد پریشان کرنے والے کئی واقعات ہوئے۔ انھیں خراج عقیدت پیش کرنے پہنچے سوامی اگنیویش کے ساتھ مار پیٹ کی گئی۔ سوشل میڈیا پر واجپئی کی تنقید کرنے کے لیے بہار کے موتیہاری سنٹرل یونیورسٹی کے استاذ سنجے کمار کے ساتھ زبردست تشدد ہوا۔ اورنگ آباد میں واجپئی کو خراج عقیدت پیش کرنے سے انکار کرنے پر ایک منتخب کونسلر کو جیل بھیج دیا گیا۔ دوسری طرف ان کی بھتیجی کرونا شکلا نے بی جے پی پر الزام عائد کیا کہ گزشتہ 9 سالوں سے جب واجپئی بستر پر تھے، بی جے پی نے انھیں نظر انداز کیا اور ان کے انتقال کے بعد اب وہ سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لیے ان کے نام کا استعمال کرنا چاہتی ہے۔ بی جے پی بڑے زور و شور سے ان کی ’استھی کلش‘ یاترائیں نکال رہی ہے اور ان کی استھیوں کو ملک کی مختلف ندیوں میں بہایا جا رہا ہے۔ اسے بھی ایک سیاسی ڈرامہ کی شکل میں دیکھا جا رہا ہے۔
پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے اور کشمیر میں امن قائم کرنے کے لیے ان کی کوششوں کے باوجود ان کے اصل سیاسی نظریہ کے بارے میں کسی کو کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے۔ ان کی تقریر کرنے کی صلاحیت، ان کے مذاقیہ انداز اور ان کے لبرل نظریہ کی بہت تعریف کی جاتی ہے لیکن کیا ہم یہ بھول سکتے ہیں کہ انھوں نے زندگی بھر تنگ ذہن ہندو راشٹرواد کے لیے کام کیا۔ بہت کم عمر میں انھوں نے آر ایس ایس کی رکنیت اختیار کی اور ان کی ایک نظم ’ہندو تن من، ہندو جیون‘ بہت مقبول ہوئی۔
یہ وہ وقت تھا جب ہندوستان کے لوگ بطور ہندوستانی اپنی پہچان بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔ انھوں نے آر ایس ایس کے ترجمان ’آرگنائزر‘ میں اپنے سیاسی ایجنڈے پر ایک مضمون لکھا جس کا عنوان تھا ’سَنگھ اِز مائی سول‘۔ بعد میں ایک مضمون میں انھوں نے یہ دعویٰ کیا کہ انھوں نے جنگ آزادی میں حصہ لیا تھا۔ اپنے گاؤں بٹیشور میں ہندوستان چھوڑو تحریک کے تحت نکالے جا رہے جلوس میں محض تماش بین تھے۔ انھوں نے عدالت میں اپنے بیان میں خود یہ اعتراف کیا کہ وہ جلوس کا حصہ نہیں تھے۔ انھوں نے گاؤں میں تحریک کی قیادت کر رہے لوگوں کے نام بھی ظاہر کیے اور انھیں کچھ دنوں بعد جیل سے آزاد کر دیا گیا۔ سنہ 1942 کی تحریک کے دوران آر ایس ایس کے سربراہ نے سویم سیوکوں کو اس تحریک سے دور رہنے کی ہدایت دی تھی۔ آر ایس ایس کے وفادار کارکن کے طور پر انھوں نے اس ہدایت کی تعمیل کی۔
آزادی کے بعد گائے کو سیاست کے مرکز میں لانے کی پہلی بڑی کوشش 6 نومبر 1966 کو کی گئی جب مسلح سادھوؤں کی ایک بڑی بھیڑ نے پارلیمنٹ پر حملہ کر دیا۔ اس موقع پر واجپئی نے بھی تقریر کی تھی۔ جب جنتا پارٹی حکومت (79-1977) میں یہ مطالبہ اٹھا کہ واجپئی اور ان کے جیسے دیگر لیڈروں، جنھوں نے جنتا پارٹی کی رکنیت لے لی تھی، کو آر ایس ایس سے اپنے رشتے توڑ دینے چاہئیں، اس وقت جن سنگھ کے دیگر لیڈروں سمیت واجپئی نے ایسا کرنے سے منع کر دیا اور نتیجتاً جنتا پارٹی بکھر گئی۔
جہاں تک رام مندر تحریک کا سوال ہے، ایسا کہا جاتا ہے کہ انھوں نے اس میں شرکت نہیں کی تھی۔ دلیل یہ ہے کہ انھوں نے 5 دسمبر 1992 کو اپنی ایک انتہائی اشتعال انگیز تقریر میں کارسیوا کرنے کی ضرورت پر زور دیا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ اس کے لیے میدان کو ’سمتل‘ یعنی برابر کیا جانا چاہیے۔ اس ’سمتل‘ کے اصل معنی کو سمجھنا مشکل نہیں ہے۔ بابری مسجد انہدام کے فوراً بعد 7 دسمبر 1992 کو انھوں نے کہا کہ وہ ملک کے تئیں معافی کے طالب ہیں۔ اس کے ایک ہفتہ بعد انھوں نے کہا کہ جو کچھ ہوا وہ ایشور کی خواہش تھی اور ایک ماہ بعد انھوں نے کہا کہ ’’اگر اکثریتی طبقہ کے جذبات کی عزت نہیں کی جائے گی تو اس کا یہی نتیجہ ہوگا۔‘‘
روچیرا گپتا نامی صحافی، جو انہدام کے وقت وہاں موجود تھیں اور جن کے ساتھ کارسیوکوں نے بدسلوکی اور مار پیٹ کی تھی، نے بتایا کہ واجپئی نے انھیں چائے پر بلایا اور ان سے کہا کہ جو کچھ ان کے ساتھ ہوا اس کے بارے میں انھیں خاموش رہنا چاہیے کیونکہ وہ ایک اچھی فیملی سے ہیں۔ واجپئی نے قصداً اپنی ایک نرم شبیہ بنائی تاکہ آر ایس ایس کے ذریعہ بابری مسجد انہدام کیے جانے کے جرم پر پردہ ڈالا جا سکے۔ اڈوانی نے ان کا نام وزیر اعظم عہدہ کے لیے پیش کیا اور اس کی وجہ بہت صاف تھی۔ جہاں اڈوانی نے بی جے پی کے لیے حمایت حاصل کی تھی وہیں یہ بھی حقیقت تھی کہ اقتدار میں آنے کے لیے بی جے پی کو دیگر پارٹیوں سے اتحاد کرنا پڑتا اور ایک شدت پسند لیڈر کی شکل میں اڈوانی کی شبیہ ان کی راہ میں رکاوٹ بنتی۔
واجپئی ہمیشہ آر ایس ایس کے تئیں وفادار بنے رہے۔ امریکہ کے اسٹیٹن آئی لینڈ میں بولتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ وہ بھلے ہی وزیر اعظم ہوں لیکن اصل میں آر ایس ایس کارکن ہیں۔ گجرات کے ڈانگ میں عیسائیوں کے خلاف تشدد (1999) کے بعد انھوں نے مذہب تبدیلی پر قومی بحث کا مطالبہ کیا لیکن تشدد متاثرین کے بارے میں ایک لفظ نہیں کہا۔
اسی طرح گجرات میں سنہ 2002ء کے تشدد کے دوران نریندر مودی کو ’راج دھرم‘ پر عمل کرنے کی ان کی صلاح کو زبردست طریقے سے تعریف ملی۔ ایسا بتایا جاتا ہے کہ انھوں نے نریندر مودی کو عہدہ سے ہٹانے کا فیصلہ لے لیا تھا لیکن بی جے پی کارکنان میں مودی کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے انھوں نے اپنے قدم واپس کھینچ لیے۔ بعد میں اپنی ایک تقریر میں انھوں نے مودی کے ’عمل رد عمل اصول‘ کی دوسرے لفظوں میں حمایت کی۔ انھوں نے کہا کہ ’’اگر سابرمتی ایکسپریس کے قصوروار مسافروں کو زندہ جلانے کی سازش نہیں تیار کی گئی ہوتی تو اس کے بعد ہوئے واقعہ سے بچا جا سکتا تھا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا اور لوگوں کو زندہ جلا دیا گیا۔‘‘ ان کے مطابق ٹرین میں آگ لگائے جانے کی ضروری تنقید نہیں ہوئی۔ مسلمانوں کے تئیں آر ایس ایس کی نفرت کو ظاہر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’’مسلمان جہاں بھی ہوتے ہیں، وہاں مسائل ہوتے ہیں۔‘‘
واجپئی اس دور میں سیاست کے عروج پر تھے جب سَنگھ پریوار کو ملک میں اپنی زمین بنانی تھی۔ انھوں نے آر ایس ایس کی سیاست کو ہی آگے بڑھایا۔ ہاں، ان کے لفظ میٹھی چاشنی میں لپٹے ہوتے تھے۔ اور ایسا کرنے میں وہ ماہر تھے۔ تعجب نہیں کہ آر ایس ایس مفکر گوونداچاریہ نے انھیں بی جے پی کا مکھوٹا بتایا تھا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔