کیا بھوپال سے پرگیہ کی فتح گاندھی کے قاتل گوڈسے کے نظریات کی کامیابی ہے؟

مودی حکومت میں جس طرح ’راشٹرواد‘ کے نام پر بابائے قوم کے نظریات کا قتل کیا گیا ہے اسے ہندوستان کی تاریخ میں سیاہ دور سے تعبیر کیا جائے گا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

نواب علی اختر

تلخ حقائق کو جذباتی فرقہ وارانہ اور دیگر تمام ترکیبوں سے چھپانے کی لاکھ کوشش کی جائے مگر وہ ایک نہ ایک دن ابھر کر سامنے آہی جاتے ہیں۔ سنگھ پریوار (راسٹریہ سوئم سیوک سنگھ) اس فن میں ہمیشہ سے ماہر رہا ہے۔ 2014 میں نریندر مودی کے برسر اقتدار آنے کے بعد حکومت کی طاقت اور میڈیا کی سرپرستی بھی اسے مل گئی، اس لئے ہر تلخ حقیقت کے جواب میں راشٹرواد اور ہندوتوا کو سامنے کر کے عوام کی آنکھوں میں نہ صرف دھول جھونکی جاتی رہی بلکہ کمال ہوشیاری سے ووٹوں کی فصل بھی کاٹی جاتی رہی ہے۔ اس کا تازہ ثبوت بی جے پی کے ٹکٹ پر بھوپال سے لوک سبھا کا الیکشن لڑنے والی سادھوی پرگیہ ہے جس نے اپنی انتخابی مہم میں ناتھو رام گوڈسے کو سچا محب وطن کہا تھا۔ سادھوی کے اس بیان کی ہرطرف سے مذمت ہوئی تھی مگر ہندوتوا کے گھوڑے پرسوار نام نہاد راشٹر بھکتوں نے اسی پرگیہ کو پارلیمنٹ پہنچانے کا تہیہ کرلیا- ذرا تصور کریں کہ وہی پرگیہ جب ہفتے کو پارلیمنٹ کے سینٹرل ہال میں منعقدہ این ڈی اے کی پارلیمانی پارٹی کی میٹنگ میں پہنچی ہوگی اور وہاں بابائے قوم کی فوٹو سے اس کا سامنا ہوا ہوگا تو اس کا ردعمل کیا ہوگا؟ کیا ہندوتوا کا یہ کارندہ مہاتما گاندھی کی فوٹو سے نظریں ملا سکا ہوگا؟

مودی حکومت میں جس طرح ’راشٹرواد‘ کے نام پر بابائے قوم مہاتماگاندھی کے نظریات کا قتل کیا گیا ہے اسے ہندوستان کی تاریخ میں سیاہ دور سے تعبیر کیا جائے گا- مودی حکومت میں راشٹرواد کی ایک الگ ہی تعریف گڑھ دی گئی ہے یعنی سرجیکل اسٹرائیک کے حوالے سے بڑے پیمانے پربولے گئے جھوٹ پرخاموش رہنا اور حکومت کی پیٹھ تھتھپانا راشٹرواد ہے اور اگر کوئی ہندوستانی فوج کی کارکردگی پرسیاست کی مخالفت کرتے ہوئے حکومت سے سوال پوچھے تو اسے فوراً غدار قرار دے دیا جائے گا۔ اس لئے عوام کا ایک بڑا طبقہ حکومت کے خلاف کچھ نہ بولنے میں ہی اپنی عافیت سمجھتا ہے۔


ہمارے اساتذہ، والدین اور بزرگوں نے ہمیں یہی پڑھایا اور سکھایا ہے کہ وطن سے محبت ایمان کا جز ہے مگرموجودہ نظریاتی دور میں ایک طبقہ ایسا پیدا ہوگیا ہے جس نے حب الوطنی کا مطلب ہی پوری طرح بدل کر رکھ دیا ہے۔ حد تو یہ ہوگئی ہے کہ بی جے پی کے لیڈر اور کارکان جو سوتے جاگتے نام نہاد راشٹر بھکتی کا نعرہ لگاتے ہیں، وہ ایک طرف جہاں بابائے قوم مہاتما گاندھی کے قاتل ناتھو رام گوڈسے کوسچا راشٹر بھکت کہہ کر اس کا ’جنم اورمرن‘ دن منا رہے ہیں، وہیں گاندھی جی کا پتلا بناکر انہیں گولیاں ماری جاتی ہیں اورمصنوعی خون بہا کر خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے اور اس جرم کا ارتکاب کرنے والے کو راشٹر بھکت کہا جا رہا ہے۔ وہیں اگر کوئی دوسرا یہ کہتا ہے کہ آزادی کے بعد ملک کا پہلا دہشت گرد ہندو تھا اور اس کا نام ناتھورام گوڈسے ہے، تو اسے غدار کہا جاتا ہے۔ یہ عجیب الخلقت خیالات صرف مودی کی بی جے پی حکومت میں ہی ممکن ہے۔ کیونکہ 2014 سے پہلے عوام میں ملک کے تئیں پائی جانے والی حب الوطنی کو مودی حکومت کے آنے کے بعد ’غداری‘ میں بدل دیا گیا ہے اور اس سے پہلے کی غداری کو مودی حکومت میں ’راشٹربھکتی‘ کا درجہ دے دیا گیا۔

موجودہ وقت میں اپنے سیاسی مفاد کے لئے ملک کے عوام کو دو زمروں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ ایک زمرہ پرگیہ ٹھاکر جیسے ان مٹھی بھر لوگوں کا ہے جو راشٹر بھکتی کی آڑ میں ہر اس عمل کی مخالفت کرتے ہیں جس سے وطن عزیز میں اتحاد و اخوت کو فروغ مل رہا ہو اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی مضبوط ہو رہی ہو۔ ایسے ہی لوگ گلے میں بھگوا گمچھا ڈال کر اور ٹوپی لگا کر کچھ دیر کے لئے گئو رکشک بھی بن جاتے ہیں اور پھر سرعام اقلیتوں کے خلاف اس درندگی کا مظاہرہ کرتے ہیں جس کو دیکھ کو روح کانپ جاتی ہے اور زیادہ تر ایسے مجرمانہ واقعات میں انتظامیہ بھی ان کا ساتھ دینے پر مجبور ہوجاتی ہے کیونکہ ایسانہ کرنے انہیں بھی غدار قرار دے دیا جائے گا اور انتہا پسندوں کی درندگی کا شکار ہونا پڑے گا جیسا اترپردیش کے بلند شہر میں گزشتہ سال ہوئے تشدد میں انسپکٹر سبودھ کمار کے ساتھ ہوا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ سبودھ کمار خود ساختہ گئورکشکوں اور نام نہاد ’لو جہاد‘ مخالف مہم چلانے والوں کے خلاف سخت رویہ اپناتے تھے جس کی وجہ سے طویل عرصہ سے وہ ’راشٹر بھکتوں‘ کے رڈار پر تھے۔


مگر وہیں دوسرا زمرہ ہیمنت کرکرے جیسے ان محبان وطن کا ہے جو ذات، پات اور فرقہ واریت کو پس پشت ڈال کرصرف اور صرف ہندوستانی ہونے کے ناطے ملک کی حفاظت اور ترقی کے لئے شب و روز سرگرم عمل رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں میں ہندو بھی ہوتے ہیں اور مسلمان بھی، دلت، سکھ اورعیسائیوں کی اکثریت بھی اسی زمرے میں شامل ہوتی ہے جس کا مقصد ہرحال میں ملک کے آئین اور جمہوریت کا سر بلند رکھنا ہے۔ اب خود ہی فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہمیں راشٹر بھکتی چاہیے یا حب الوطنی؟ گاندھی کے اصول اور نظریات پر چل کر ملک وملت کے لئے ترقی کی مثال قائم کر کے زندہ و جاوید بننا ہے یا گوڈسے کی تنگ نظری اختیار کرنے والوں کے جال میں پھنس کر لعنت و ملامت کا طوق گلے میں ڈال کر اس دنیا سے سدھارنا ہے؟ ہندوستان کثرت میں وحدت کی مثال ہے اس لئے ایسے کردار کا مظاہرہ کرنا ہوگا جس میں انسانیت کی قدر و منزلت ہو، جذبہ اتحاد و اخوت ہو تاکہ غداروں کی تمام سازشیں ناکام کی جاسکیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔