کیا وزیر اعظم کو فوج کی حب الوطنی پر شک ہے!
گجرات انتخابات میں بی جے پی کی یقینی جیت بنانے کی چاہت میں وزیر اعظم نے اپنے پر وقارعہدے کو بھی داؤ پر لگا دیا اور ہندوستانی فوج کی حب الوطنی پر سوال کھڑے کر دئیے ہیں۔
دس دسمبر کو پالنپور میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے گجرات چناؤ میں پاکستانی مداخلت کی ایک ایسی خیالی کہانی سنائی جس پر یقین کرنا تو دور ، وزیر اعظم جیسے عہدے پر بیٹھے کسی شخص سے ایسی امید بھی کرنا ناممکن ہے۔ لیکن وزیر اعظم مودی نے ایسا کر دکھایا۔
انہوں نے چناوی ریلی کے دوران کہا ’’ پاکستانی فوج کے سابق ڈائریکٹر جنرل سردار ارشد رفیقی کانگریس رہنما احمد پٹیل کو گجرات کے وزیر اعلیٰ کی شکل میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس حوالے سے پاکستان کے لوگ منی شنکر ایئر کے گھر میٹنگ کر رہے ہیں۔ منی شنکر ایئر کی رہائش پر ایک خفیہ میٹنگ ہوئی جس میں پاکستان کے ہائی کمشنر سمیت وہاں کے سابق وزیر خارجہ، ہندوستان کے سابق نائب صدر جمہوریہ حامد انصاری اور سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ شامل ہوئے ۔‘‘
خبروں کے مطابق 6 دسمبر کو منی شنکر ایئر کی رہائش پر ہوئی میٹنگ میں سابق فوجی سربراہ دیپک کپور کے علاوہ کئی سفارت کار بھی شامل ہوئےتھے جن میں سے کچھ لوگ ماضی میں پاکستان واقع ہندوستانی سفارت خانہ میں اپنی خدمات انجام دے چکے ہیں۔ سابق فوجی سربراہ دیپک کپور نے وزیر اعظم کی طرف سے عائد الزامات کی تردید کر دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہاں گجرات انتخابات کے حوالے سے کوئی بات چیت نہیں ہوئی اور تمام بات چیت صرف اور صرف ہندوستان ۔پاکستان تعلقات پر مبنی تھی۔
حزب اختلاف کی جماعتوں اور رہنماؤں کے تئیں وزیر اعظم کے نفرت سے پُر الفاظ آئے دن سامنے آتے رہتے ہے لیکن اس بات کا شاید ہی کسی کو اندازہ رہا ہوگا کہ اپنے ان حملوں میں وہ فوج کے اعلیٰ عہدوں پر اپنی خدمات انجام دے چکے لوگوں کو بھی شامل کر لیں گے جن کے تئیں وہ اپنی عقیدت کی اکثر نمائش کرتے نہیں تھکتے۔
وزیر اعظم اور ان کی جماعت بی جے پی خود کو سب سے بڑا قوم پرست قرار دیتے ہیں اور ان کی پالیسیوں پر تنقید کرنے والوں کو ملک مخالف ہونے کا تمغہ دینے میں بھی وہ دیر نہیں لگاتے۔ حال ہی میں وزیر اعظم نے جب فوج کی وردی پہن لی تھی اس معاملہ پر کافی بحث ہوئی تھی۔ کچھ لوگوں نے تو اسے فوج کی وردی کی بے حرمتی بھی قرار دے دیا تھا۔ 2014 کے لوک سبھا چناؤ کے دوران تاریخ میں شاید پہلی دفعہ فوج پر سیاست کرتے ہوئے ’ون رینک ون پنشن‘ کے سبکدوش فوجیوں کے مطالبہ کو اپنے انتخابی وعدے میں شامل کر لیا اور جب حکومت قائم ہو گئی تو آناکانی کرنے لگے۔
ابھی زیادہ دن نہیں گزرے ہیں جب جنتر منتر پر سبکدوش فوجیوں نے اپنے مطالبات کو لے کر طویل مدتی تحریک چلائی تھی اور لوگوں کو یہ بھی یا د ہوگا کہ کس طرح سبکدوش فوجیوں کو وہاں سے ہٹانے کےلیے طاقت کا استعمال کیا گیا اور ان کی بے حرمتی کی گئی۔ اتنا ہی نہیں ، پٹھانکوٹ فضائیہ کے اڈے پر جب دہشت گردانہ حملہ ہوا تو یہی مودی حکومت تھی جس نے پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے وفد کو جائے وقوعہ پر لے جار کر تفتیش کرنے کی اجازت دی تھی۔ گزشتہ ساڑھے تین سالوں کے دوران کئی بار فوجیوں کے ساتھ بدسلوکی کے معاملات سامنے آئے ، جن کو موجودہ حکومت نے حل کرنے کے بجائے دبا دینا ہی صحیح جانا۔
اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود بھی اگر وزیر اعظم مودی یا ان کی پارٹی یہ ظاہر کرتی ہے کہ ان کے دلوں میں فوج کے تئیں بہت زیادہ عزت ہے تو ان سے عوام کو یہ ضرور پوچھنا چاہیے کہ کیا یہ باتیں صرف کہنے کے لیے ہیں؟ کیا ان کی چناوی جیت فوج کے وقار سے زیادہ اہم ہے؟ کیا وہ صرف اپنی سیاست کے لیے فوج کا استعمال کرتے ہیں۔
اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیکمشوروں سے بھی نوازیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔