کرناٹک 2019 کے سیاسی اسکرپٹ کا محرک بن کر اُبھرا!
یو پی اے چیئرپرسن سونیا گاندھی نے مایاوتی سے دیر تک گلے مل کر جس انداز میں گفتگو کی اور پھر مایا-ممتا-سونیا نے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر لوگوں کا جس طرح استقبال کیا، یہ ایک سیاسی پیغام ہے۔
جنتا دل سیکولر کے لیڈر ایچ ڈی کماراسوامی نے کرناٹک کے وزیر اعلیٰ عہدہ کا حلف لے لیا اور اس کے ساتھ ہی کرناٹک کے سیاسی ڈرامہ کا خاتمہ ہوتا ہوا معلوم ہو رہا ہے۔ حالانکہ اکثریت ثابت کرنا ابھی باقی ہے۔ لیکن اس ڈرامہ کے آخری منظر میں جس نئے اسٹیج کے آثار نمایاں ہوتے ہیں اس میں 2019 کی سیاسی اسکرپٹ کو بخوبی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ اس اسٹیج میں کئی ریاستوں کے سربراہان آئندہ لوک سبھا انتخابات کے لیے تال ٹھونکنے کو تیار نظر آئے تو کچھ لیڈروں نے اہم سیاسی اشارے بھی دیے۔
اس اسٹیج پر یو پی اے چیئرپرسن سونیا گاندھی اور بی ایس پی سپریمو مایاوتی کی ایک دوسرے کے تئیں قربت نظر آئی، تو بنگال میں ایک دوسرے کو ایک آنکھ نہ سہانے والے ترنمول اور سی پی ایم کے ہاتھ ملانے، تیسرے محاذ کی وکالت کرنے والی ممتا اور شرد یادو کی یو پی اے چیئرپرسن سونیا اور کانگریس سربراہ راہل گاندھی سے دوستانہ گفتگو، چندرا بابو نائیڈو کی اکھلیش اور تیجسوی یادو سے باتیں، شرد پوار کی اجیت سنگھ سے بات چیت اور جے ڈی ایس سربراہ ایچ ڈی دیوگوڑا کا کسی بزرگ کی طرح سب کا خیال رکھنا اور سب سے ملنا جلنا ایک ایسے ’مہا گٹھ بندھن‘ کا اشارہ دے رہی ہیں جس میں دوسرے، تیسرے، چوتھے... سبھی محاذ ضم ہو جائیں گے۔
اس اسٹیج پر 2019 کے لیے بی جے پی مخالف محاذ کی جو تصویر نظر آئی اس میں 11 پارٹیوں کے لیڈر ہیں جن کے پاس موجودہ لوک سبھا میں 143 سیٹیں ہیں۔ ٹی آر ایس لیڈر چندر شیکھر راؤ کو یہاں شامل کرنا پڑے گا، کیونکہ وہ کسی وجہ سے آج اسٹیج پر نہیں تھے، حالانکہ وہ ایک دن پہلے ہی کماراسوامی اور دیوگوڑا سے مل کر گئے ہیں۔
اپوزیشن اتحاد کے اس ’شکتی پردرشن‘ کی سب سے اہم سیاسی تصویریں سونیا گاندھی کی مایاوتی سے دیر تک گلے مل کر بات چیت کرنا اور پھر مایا-ممتا-سونیا کا ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر لوگوں کا استقبال کرنا ایک بڑا سیاسی پیغام دیتی ہے۔ خاص بات یہ رہی کہ اس اسٹیج پر سونیا گاندھی زیادہ تر وقت مایاوتی اور ممتا بنرجی کے ساتھ نظر آئیں جب کہ راہل گاندھی اکھلیش یادو اور چندرا بابو نائیڈو کے ساتھ نظر آئے۔ دوسری طرف سی پی ایم جنرل سکریٹری سیتا رام یچوری کا تیجسوی سے دیر تک باتیں کرنا بھی کافی اہم تصور کیا جا رہا ہے۔
اسٹیج پر پہنچنے والے لیڈروں میں تیجسوی یادو پہلے تھے۔ ان کے بعد اکھلیش یادو نظر آئے اور تبھی مایاوتی پہنچیں۔ لیکن اصل ہلچل ہوئی راہل اور سونیا گاندھی کے اسٹیج پر پہنچنے کے بعد۔ دونوں نے اسٹیج پر پہنچتے ہی مایاوتی سے ملاقات کی۔ مایاوتی نے بہت دیر تک سونیا گاندھی کا ہاتھ تھامے رکھا اور ان سے بات کرتی رہیں۔ حلف برداری کے بعد کافی دیر تک سونیا گاندھی ممتا بنرجی سے بھی بات چیت کرتی ہوئی نظر آئیں اور فوٹو سیشن میں بھی سونیا گاندھی، مایاوتی اور ممتا بنرجی ساتھ نظر آئیں۔
اس تقریب میں اپوزیشن نے جس اتحاد کا مظاہرہ کیا ہے، وہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ کچھ سیاسی تجزیہ نگار سوال اٹھائیں گے کہ اپوزیشن لیڈروں کا یہ اتحاد کتنے دن قائم رہے گا؟ اور کیا 2019 تک کوئی ایک نیا محاذ مودی کے خلاف کھڑا ہوگا؟
سوال جائز ہے، لیکن انھیں اس طرح سمجھنا ہوگا کہ جب اتر پردیش کی گورکھپور اور پھول پور سیٹ پر یو پی کی ہی دو پارٹیوں نے روایتی دشمنی کو بھلا کر ایک ساتھ بی جے پی کا مقابلہ کیا تو نتیجہ حیران کرنے والا تھا اور یو پی وزیر اعلیٰ و نائب وزیر اعلیٰ اپنے گھر میں شکست کھا گئے۔ ان دو سیٹوں کے نتائج نے اپوزیشن کو نئے سرے سے کھڑے ہونے کا موقع دیا اور ایک اور تجربہ اتر پردیش کی ہی کیرانہ لوک سبھا سیٹ کے ضمنی انتخاب میں کیا جا رہا ہے۔ یہاں اپوزیشن نے انتخاب کو ’آل پارٹی‘ بمقابلہ ’بی جے پی‘ بنا دیا ہے، یعنی ایس پی-بی ایس پی، کانگریس اور آر ایل ڈی نے مل کر مشترکہ امیدوار کھڑا کیا ہے۔
اس ضمنی انتخاب کے نتیجے جو بھی آئیں، لیکن کماراسوامی کی حلف برداری تقریب میں سونیا گاندھی کا مایاوتی سے کافی دیر تک نہ صرف باتیں کرنا بلکہ اسے ظاہر بھی کرنا ایک بڑے سیاسی اتحاد کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ یہاں توجہ دینے والی بات ہے کہ اسٹیج پر موجودہ تقریباً 11 سیاسی پارٹیوں میں سے کانگریس کے علاوہ صرف بی ایس پی ہی ایسی پارٹی ہے جس کا ووٹر تقریباً ہر ریاست میں ہے۔ اس کے علاوہ گزشتہ چار برسوں میں دلتوں اور پسماندہ طبقہ پر بڑھے حملوں اور مظالم کے ایشوز کو اگر مایاوتی اٹھاتی رہی ہیں تو کانگریس نے بھی اس میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ گزشتہ دنوں دلت مظالم کے خلاف ہندوستان میں ہوئے بند کی حمایت کر کے کانگریس نے دلت مفادات کے محافظ بننے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ اس لیے باتیں ختم کرتے کرتے سونیا-مایاوتی کا ایک دوسرے سے سر جوڑنا سیاسی اسٹیج کے نئے منظرنامے کی طرف اشارہ کر رہا ہے جہاں دور سے مسحور کر دینے والی موسیقی کے ساتھ ہی مخالفین کو شکست فاش دینے والی ہنکار بھی سنائی دے رہی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔