مہاراشٹر: کملابائی سے موہ بھنگ!
مہاراشٹر میں اے پی ایم سی الیکشن کے نتیجے نے بی جے پی کو ایک بار پھر زبردست پٹخنی دے دی۔ یہ پٹخنی اس بات کا ثبوت ہے کہ مہاراشٹر کے عوام کا کملابائی سے موہ بھنگ ہوچکا ہے۔
مہاراشٹر میں شیوسینا کو توڑنے کے بعد بی جے پی ابھی این سی پی پر ڈورے ڈال ہی رہی تھی کہ ریاست کے لوگوں نے اسے ایک بار پھر پٹخنی دے دی۔ یہ پٹختی اس قدر زبردست ہے کہ اس کو دن میں تارے نظر آگئے ہیں۔ اے پی ایم سی یعنی کہ ایگریکلچر پروڈکٹس مارکیٹ کمیٹی جسے مقامی طور پر ’کرشی اُتپنّ بازار سمیتی‘ بھی کہا جاتا ہے، اس کے انتخابات ہوئے۔ اس میں کل 148؍سیٹیں تھیں، جن میں سے مہاوکاس اگھاڑی یعنی کانگریس، این سی پی اور شیوسینا نے 81 سیٹوں پر قبضہ کرلیا ہے جبکہ بی جے پی اور شیوسینا (شندے گروپ) کو محض 42 سیٹوں پر اکتفا کرنا پڑا ہے اور اس میں سے بھی بیشتر سیٹیں اسے این سی پی وکانگریس کی باغیوں کی مدد سے ملی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں : ستیہ پال کا ستیہ وچن!
اے پی ایم سی کا یہ انتخاب اس لیے بھی نہایت اہم تھا کہ یہ ریاست کے دیہی معیشت اور کسانوں کی نمائندگی کرنے والا ایک مضبوط ادارے کا الیکشن تھا۔ کسان اپنی پیدوار اسی ادارے کے تحت قائم منڈیوں میں فروخت کرتے ہیں، اس لیے جس منڈی پر جس پارٹی کا قبضہ ہوتا ہے، کسانوں کی حمایت اسی پارٹی کو حاصل ہونا قرار دیا جاتا ہے۔ ایسی صورت میں جب ریاست میں ایک سال بعد اسمبلی و پارلیمانی الیکشن ہونے والے ہیں، اے پی ایم سی کی نصف سے زائد سیٹوں پر ایم وی اے کا قابض ہو جانا اور بی جے پی اتحاد کا 45- 47 سیٹوں پر سمٹ جانایہ واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ ریاست کے کسانوں کا رجحان تیزی سے ایم وی اے کی جانب ہو رہا ہے اور بی جے پی کی ساکھ دن بہ دن کمزور ہوتی جا رہی ہے۔
مہاراشٹر میں بی جے پی کی ہزیمت کی شروعات اندھیری مشرق کے ضمنی انتخابات سے ہی ہوگئی تھی۔ اس انتخاب سے قبل بی جے پی اور اس کے اتحادی شندے گروپ نے ایم وی اے کو کمزور کرنے کے لیے ایسی ایسی گھٹیا چالیں چلی تھیں کہ جنہیں دیکھ کر ہی ابکائی آنے لگتی تھی۔ شندے گروپ نے الیکشن کمیشن کو شیوسینا کا نام اور انتخابی نشانی کو منجمد کروا دیا تاکہ ادھوٹھاکرے شیوسینا کا نام اور انتخابی نشانی تیرکمان استعمال نہ کرسکیں۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ یہ سیٹ بی جے پی کے حصے میں آئی تھی اور شندے گروپ اپنا امیدوار بھی نہیں اتارنے والا تھا۔ پھر بھی نئے انتخابی نشان کے ساتھ جب ادھوٹھاکرے نے اپنے امیدوار کا اعلان کیا تو بی جے پی وشندے گروپ میں سناٹا پسر گیا تھا۔ جب بی جے پی کو یقین ہوگیا کہ وہ کسی صورت اپنے امیدوار کو کامیاب نہیں کراسکے گی تو اس نے ایک ایسے بہانے سے اپنا امیدوار واپس لے لیا، جو اس کی ہی روایت کے خلاف تھا۔
اس کے بعد ٹیچر وگریجویٹ حلقۂ انتخاب کے الیکشن آئے جس میں کل 5 سیٹیں تھیں۔ ان 5 سیٹوں میں سے بی جے پی کے حصے میں محض ایک سیٹ آئی اور وہ بھی شیوسینا سے درآمد کیے ہوئے امیدوار کی وجہ سے۔ یہ سیٹ کونکن ٹیچر حلقہ انتخاب کی تھی جس پر بی جے پی کے امیدوار نے شیتکری کامگار پارٹی کے امیدوار کو شکست دی تھی۔ اس کے برعکس ایم وی اے نے تین سیٹوں پر کامیابی حاصل کی، جبکہ ایک سیٹ پر کانگریس کا باغی امیدوار کامیاب ہوا۔ اسی ایم ایل سی الیکشن میں ریاست کے لوگوں نے یہ منظر بھی دیکھا کہ ناگپور جو بی جے کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے اور جہاں کی سیٹ پر دو ٹرم سے بی جے پی کا امیدوار کامیاب ہوتا آرہا تھا، اس پر کانگریس کا امیدوار 7 ہزار سے زائد ووٹوں سے کامیاب ہوا۔
اس کے بعد پمپری چنچوڑ اور قصبہ پیٹھ کے ضمنی انتخاب ہوئے جس میں سے پمپری چنچوڑ میں بی جے پی تو قصبہ پیٹھ میں کانگریس کامیاب ہوئی۔ لیکن کانگریس کی کامیابی کے شور میں بی جے پی کی کامیابی بالکل معدوم ہوگئی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ قصبہ پیٹھ بی جے پی و آر ایس ایس کا قلعہ تصور کیا جاتا تھا۔ یہاں پر گزشتہ 30 سالوں سے بی جے پی کا ہی امیدوار کامیاب ہوا کرتا تھا اور اس بار بھی بی جے پی نے جو امیدوار اتارا تھا وہ فڈنویس و ریاستی بی جے پی کا خاص الخاص تھا۔ لیکن کانگریس کے امیدوار نے بی جے پی کے امیدوار کو 10/ہزار سے زائد ووٹوں سے زبردست پٹخنی دے دی۔ دوسری جانب پمپری چنچوڑ میں بی جے پی کا جو امیدوار کامیاب ہوا وہ ایم وی اے سے بغاوت کرنے والے ایک آزاد امیدوار کی وجہ سے کامیاب ہوا۔ اس لحاظ سے یہاں بھی بی جے پی کی کامیابی ایم وی ای کے آپسی تال میل کی کمی کی وجہ سے تھی۔
سچائی یہ ہے کہ ریاست میں بی جے پی نے جب سے شیوسینا کو توڑ کر ایم وی اے کی حکومت گرائی ہے، اسے ہزیمت پر ہزیمت مل رہی ہے۔ اس نے یہ سوچ لیا تھا کہ شیوسینا کو توڑ کر وہ اس کے ووٹوں پر بھی قبضہ کرلے گی، لیکن گزشتہ 9 ماہ میں جتنے بھی انتخابات ہوئے ہیں، اس میں اسے نقصان ہی اٹھانا پڑا ہے۔ گزشتہ روز آنے والے زرعی پیدوار مارکیٹ کمیٹی کے نتیجے بھی اس کی اکھڑتی زمین کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ یہ صورت حال اگر یوں ہی برقرار رہتی ہے تو یقینی طور پر اس کا اثر اسمبلی و پارلیمانی الیکشن پر پڑے گا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سیاسی تجزیہ کار ابھی سے یہ پیشین گوئی کرنے لگے ہیں کہ ریاست میں بی جے پی اسمبلی کے انتخاب میں 50؍اور پارلیمنٹ کے انتخاب میں 10؍ سیٹ کے اندر سمٹ جائے گی۔ ظاہر ہے کہ بی جے پی بھی اپنی اس دگرگوں صورت حال سے واقف ہے، اسی لیے وہ اب اپنی پوری توانائی این سی پی کو توڑنے میں صرف کر رہی ہے۔ لیکن اے پی ایم سی الیکشن میں این سی پی کو ملنے والی کامیابی نے بی جے پی کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔