جب اندرا گاندھی کے سامنے امریکی لیڈر نکسن بھی سرنگوں ہو گئے...
مارچ 1966 میں اندرا گاندھی نے بطور وزیر اعظم اپنا پہلا غیر ملکی دورہ کیا۔ ورلڈ بینک اور بین الاقوامی مانیٹری فنڈ روپے پر نظر ثانی کا مطالبہ کر رہے تھے، فورن ایکسچینج ریزرو بھی ڈگمگا رہا تھا اور گھریلو فوڈ پروڈکشن ضرورت سے کم تھا۔ لیکن وہ ایک کمزور شبیہ لے کر نہیں گئیں۔ وہ دلکش ریشم کی ساڑیوں اور پوری رونق کے ساتھ گئی تھیں۔ ان کے چہرے پر ایک نورانیت تھی۔ امریکی صدر لنڈن جانسن بہت متاثر تھے۔ ہندوستانی سفیر کے گھر پر دونوں کے درمیان ایک پرائیویٹ ملاقات ہوئی جو طے شدہ وقت سے بھی زیادہ دیر تک چلی۔ پروٹوکول کو توڑتے ہوئے جانسن رات کے کھانے تک ٹھہرے۔
وہائٹ ہاؤس کی دعوت میں اندرا گاندھی کے ساتھ رقص کرنے کے لیے جانسن بے تاب ہو رہے تھے جسے انھوں نے خوش اسلوبی کے ساتھ منع کر دیا اور انھیں سمجھایا کہ ایسا کر کے وہ ہندوستان ناپسند ہو جائیں گی۔ بعد میں جذباتی ہوتے ہوئے جانسن نے اپنے افسران کو کہا کہ ’’اس لڑکی کو کوئی نقصان نہیں پہنچنا چاہیے۔‘‘ اس سفر کے دوران اندرا نے بہت اعتماد کے ساتھ یہ بیان دیا کہ ’’ہندوستان ویتنام کے معاملے میں امریکی کی پریشانی کو سمجھتا ہے۔‘‘ جانسن نے بطور رد عمل 30 لاکھ ٹن خوردنی اشیاء اور 90 لاکھ ڈالر کے تعاون کا وعدہ کیا۔
لیکن کشمیر پر وہ کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں تھیں۔ نیو یارک کی اپنی تقریر میں انھوں نے کہا ’’ریفرینڈم کرانے کا وقت جا چکا ہے۔ گزشتہ سردی میں کشمیر پر پاکستان کے ذریعہ کیے گئے دوسرے حملے کے بعد اقوام متحدہ کی پرانی تجویزکی جو بچی کھچی اہمیت تھی وہ ختم ہو گئی ہے۔ اب کوئی ریفرینڈم ہندوستان کی یکجہتی پر سوال کھڑا کرنے جیسا ہوگا۔ یہ علیحدگی کے ایشو کو اٹھائے گا اور ایسے ہی ایشوز پر امریکہ ایک خانہ جنگی کا سامنا کر چکا ہے۔ ہم مذہبی بنیاد پر ہندوستان کی دوبارہ تقسیم نہ برداشت کر سکتے ہیں نہ برداشت کریں گے۔
اس کے مقابلے میں جانسن کے جانشیں نکسن سے ان کی ملاقات بہت مایوس کن رہی۔ جب وہ دونوں نومبر 1971 میں ملے تو نکسن نے ان کی اس اپیل پر کوئی ہمدردی ظاہر نہیں کی کہ ’’پاکستانی فوج کے ذریعہ ظلم برداشت کر رہے لوگوں کا لاکھوں کی تعداد میں بھاگ کر ہندوستان آنا ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے۔‘‘ امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کے مطابق ’’اس کے بعد دیا گیا نکسن کا رد عمل قابل اشاعت بھی نہیں ہے۔‘‘
اندرا نے پھر اپنی شبیہ کے مطابق ہی اپنی ایک تقریر میں براہ راست امریکی عوام سے اپیل کی کہ ’’میں اس امید میں آئی ہوں کہ ہمارے حصے کی دنیا میں جاری حالات کو لے کر یہاں ایک گہرائی سے بھری سمجھ ہوگی۔‘‘
ہر حال میں وہ تحفظ کا وعدہ تو لے ہی آئیں۔ ستمبر 1971 میں سوویت روس کے صدر بریجنیو اور وزیر اعظم کوسیجن نے انھیں ماسکو میں یہ یقین دہانی کرائی کہ اگر ہندوستان کو جنگ کرنی پڑی تھی سووت فوج مدد کرے گی۔ اس سے پچھلے مہینے ہی دونوں ممالک کے درمیان ایک دستخط ہوا جس سے ’انڈو-سووت دوستی معاہدہ‘ مزید مضبوط ہو گیا۔
3 دسمبر 1971 کو پاکستانی فضائیہ نے ہندوستان کے 9 فضائی ٹھکانوں پر بمباری کر دی۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان نے روایتی طور پر جارحانہ رخ اختیار کیا۔ اندرا اس وقت کولکاتا کے تاریخی بریگیڈ پریڈ میدان میں ایک عظیم الشانی ریلی کو خطاب کر رہی تھیں جب پاکستان کا حملہ ہوا۔ ایک طرح سے وہ بے فکر تھیں کیونکہ اس سے نمٹنے کی انھوں نے پوری تیاری کر رکھی تھی۔ دراصل وہ پہلا حملہ کرنا نہیں چاہتی تھیں۔ اس رات انھوں نے کابینہ کے اراکین اور حزب مخالف لیڈروں کے ساتھ ایک ایمرجنسی میٹنگ کی۔ نصف رات کو انھوں نے ملک کو ایک نشریہ کے ذریعہ مطلع کیا کہ ’’یہ ہم پر تھوپی گئی ایک جنگ ہے۔‘‘
آئندہ صبح انھوں نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ ’’9 مہینوں سے مغربی پاکستان کی فوج ظالمانہ طریقے سے بنگلہ دیش کے لوگوں کی آزادی اور بنیادی انسانی حقوق کو کچل رہی ہے۔ قبضہ کرنے والی فوج نے اپنی دشمنی سے بھی آگے جا کر کئی سنگین جرائم کیے ہیں۔ لاکھوں لوگوں کو بے گھر کر دیا گیا ہے۔ ایک کروڑ لوگوں کو ہمارے ملک میں آنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ ہم نے لگاتار اس جانب دنیا کی توجہ کھینچی ہے کہ کس طرح پورے عوام کو مارنے کی کوشش ہو رہی ہے اور ہماری سیکورٹی کو خطرہ ہو گیا ہے۔‘‘
ہر جگہ لوگوں نے ہمدردی کا مظاہرہ کیا اور معاشی و دیگر بوجھ کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی سیکورٹی پر خطرہ کو سمجھا۔ لیکن حکومتیں اخلاقی اور سیاسی طور پر لقوی سے متاثر نظر آئیں۔
4 دسمبر 1971 کو پورے چاند کی رات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہندوستان نے ڈھاکہ پر چہار جانب سے حملہ کر دیا۔ 2 دن بعد اندرا گاندھی نے پارلیمنٹ میں زوردار تالیوں کے درمیان اعلان کیا کہ ’’ہندوستان ایک آزاد ملک کی شکل میں بنگلہ دیش کے وجود کو قبول کرتا ہے۔‘‘
نکسن نے ہندوستان کی حوصلہ شکنی کی کوشش میں خلیج بنگال میں امریکہ کا 7واں جہازی بیڑا بھیج دیا۔ چین نے زبانی دھمکیاں دیں۔ سوویت روس کے جہازی بیڑے نے خلیج بنگال میں امریکی بحری فوج کو پیچھے چھوڑ دیا۔ نکسن نے اس وقت دھمکی بھرے لہجے میں ہندوستان کی پالیسی کو پاکستان کے خلاف جارحیت قرار دیا۔
16 دسمبر کو 5 بجے شام میں ہندوستانی فوج کے سربراہ جنرل سیم مانکشا نے اندرا گاندھی کو فون کیا اور یہ خبر دی کہ ’بنگالی مکتی واہنی‘ کی نگرانی میں ہندوستانی فوج نے ڈھاکہ کو آزاد کرا دیا ہے اور پاکستانی فوج نے بغیر کسی شرط کے خودسپردگی کر دی ہے۔
پارلیمنٹ پہنچتے ہی اندرا گاندھی نے اعلان کیا کہ ’’ڈھاکہ اب آزاد ملک کی آزاد راجدھانی ہے۔ پارلیمنٹ اور پورا ملک اس تاریخی واقعہ پر خوش ہے۔ ہم بنگلہ دیش کے لوگوں کا ان کی فتح کے لمحوں میں استقبال کرتے ہیں۔‘‘ فوجی کامیابی کے علاوہ یہ خارجہ پالیسی کی جیت تھی۔ 1971 کے ایک امریکی رائے شماری میں اندرا گاندھی کو دنیا کی سب سے قابل تعریف شخصیت منتخب کیا گیا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 20 Nov 2017, 10:15 AM