ہندوستانی مسلمان فیصلہ کن موڑ پر... اسد مرزا

ہندوستانی مسلمان آزادی کے 73 برس گزر جانے کے بعد اپنے وجود کے بحران سے دوچار ہے لیکن سوال یہ ہی کہ اس حالت میں پہنچنے کے لیے کیا وہ خود ذمہ دار ہیں یا اس کے لیے دوسروں کو مورد الزام ٹھہرایا جاسکتا ہے؟

تصویر یو این آئی
تصویر یو این آئی
user

اسد مرزا

ملک کی آزادی کے حصول کے لیے ہندوستانی مسلمانوں نے تحریک آزادی میں غیر معمولی کردار ادا کیا تھا لیکن 73 برس گزر جانے کے بعد اب ایک بار پھر وہ بیچ چوراہے پر کھڑے ہیں۔ 73 برس قبل ان کے سامنے سوال یہ تھا کہ آیا انہیں پاکستان ہجرت کرجانا چاہیے، جسے مسلمانوں کے نام پر ایک نئے ملک کے طور پر برطانوی حکومت نے قائم کیا تھا، یا پھر انہیں اسی ملک میں رہنا چاہیے جہاں ان کے آباؤ اجداد مدفون ہیں۔ اور جس ملک میں تمام شہریوں کو یکساں حقوق اور فرائض کا وعدہ کیا جا رہا ہے۔ لیکن 73 برس گزر جانے کے بعد اب یہ اِدھر یا اُدھرجانے کے بجائے ان کے وجود کا سوال بن گیا ہے۔

تاہم مسلمانوں کے لیے بہتر یہ ہوگا کہ وہ اسے وجود کا سوال بنانے کے بجائے خود احتسابی کریں اور یہ ادراک کرنے کی کوشش کریں کہ ان سے کہاں بھول ہوئی ہے، جس کی وجہ سے انہیں ملک کے مین اسٹریم کا حصہ نہیں سمجھا جاتا ہے۔ اس سوال کا معروضی جائزہ لینے کے بعد انہیں ایسی منصوبہ بندی اور لائحہ عمل طے کرنا چاہیے جس سے کہ راہ میں حائل تمام رکاوٹوں کو دور کیا جاسکے اور 26 سال کے بعد جب ہم اپنی آزادی کے سو سال کا جشن منا رہے ہوں تو اس وقت فخر کے ساتھ یہ کہہ سکیں کہ مسلمانوں نے نا صرف اپنی مسلم قوم بلکہ اپنے اہل وطن دونوں کی امنگوں کو بھی پورا کیا ہے۔


ہندوستانی مسلمان تقسیم ملک کے بعد

آزادی کے بعد کے ابتدائی برسوں میں ہندوستانی مسلمانوں نے تقسیم کے منفی مضمرات کو زائل کرنے اور خود کو سیاسی، تعلیمی اور تجارتی شعبوں میں منظم ہونے کی تدابیر اختیار کیں۔ اس وقت رفیع احمد قدوائی، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا حفظ الرحمان، مولانا ابوالکلام آزاد اور ڈاکٹر ذاکر حسین جیسے رہنما موجود تھے، جنہوں نے مسلمانوں کے زخموں پر مرہم رکھنے اور انہیں حتی الامکان رہنمائی کرنے کی کوشش کی۔ چونکہ اس وقت مسلمانوں کی اہم ترین شخصیات پاکستان ہجرت کرگئی تھی اس لیے مسلمانوں کی بڑی تعداد خود کو بے یارومددگار محسوس کر رہی تھی۔ انہوں نے ایسے حالات میں بالخصوص تعلیمی ترقی پر توجہ دی۔ تاہم ان مشکل حالات میں مسلم مذہبی رہنماوں کی طر ف سے جس قیادت کی ضرورت تھی وہ سامنے نہیں آسکی۔

بے یارومدد گار قوم

1970 سے 1980 کی دہائی کے درمیان مسلمان عملاً بے یارومدد گار رہے کیوںکہ ان کے تمام بڑے رہنما 1969 تک اس دنیا سے رخصت ہوچکے تھے اور مسلمانوں میں اس پائے کا کوئی رہنما نہیں رہ گیا تھا جو پوری قوم کی قیادت کرسکے۔ بدقسمتی سے مسلمانوں کی قیادت ناتجربہ کار، ناعاقبت اندیش اور چاپلوس لوگوں کے ہاتھوں میں چلی گئی جنہیں نہ کوئی سیاسی تجربہ تھا اور نہ ہی سیاسی بصیرت، جنہیں صرف اپنے ذاتی مفادات سے مطلب تھا۔


اسی دوران مشرق وسطی میں تیل کی دولت نکل آئی اور کیرالا، کرناٹک، تمل ناڈو، آندھرا پردیش اور مہاراشٹر جیسے ساحلی ریاستوں کے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ملازمتوں کی تلاش میں ان ملکوں کے لیے نکل گئے۔ انہوں نے وہاں اچھے پیسے کمائے اور اسے اپنے وطن بھی بھیجا جس کا استعمال مسلم قوم کی تعلیمی ترقی کے لیے بھی کیا گیا۔ گوکہ تعلیم پر جو پیسہ لگایا گیا اس کا فیصد بہت کم تھا لیکن اس کے باوجود طویل مدت میں اس سے مذکورہ ریاستوں میں مسلم قوم کی تعلیمی سطح کو بہتر بنانے، سماجی ترقی اور اقتصادی ترقی میں کافی مثبت پیش رفت حاصل کرنے میں کامیابی ملی۔

لیکن یہ صرف ایک پہلو تھا۔ مسلمانوں کی بحیثیت ایک سماج کی ترقی کے لیے ضروری اصلاحات پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔ سیاسی محاذ پر معمولی اور سیاسی بصیرت سے عاری رہنما مسلمانوں کے نمائندے بن گئے۔ دوسری طرف مذہبی محاذ پر بھی مسلمان متحد نہیں رہ سکے۔ اس کے برخلاف خلیجی ملکوں سے آنے والی دولت کا استعمال مسلمانوں کو مزید مسلکوں اور گروپوں میں تقسیم کرنے میں بھی کیا گیا۔


سیکولر طاقتوں کی بے وفائی

1980 سے 1990 تک مسلمانوں کو متعدد سیاسی اور مذہبی مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور بدقسمتی سے ایک بار پھر مذہبی اور سیاسی رہنماوں اور ملک کے سیکولر رہنماوں دونوں نے ہی مسلمانوں کو مایوس کیا۔ مسلم قیادت کے فقدان کے باوجود مسلمان تعلیمی شعبوں میں اپنی حصولیابیوں کی وجہ سے اقتصادی ترقی کی راہ پر آگے بڑھتے رہے۔ اس معمولی ترقی کا سہرا ان مسلمانوں کو دیا جانا چاہیے جو کہ خاموشی کے ساتھ کام کرتے رہے اور کسی بالغ النظر اور صاحب بصیرت قیادت یا کسی جامع منصوبہ کے بغیر اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق انتہائی لگن اور دلجمعی کے ساتھ مسلمانوں کی ترقی اور فلاح و بہبود کے لیے کام کرتے رہے۔

مسلم دشمن عناصر کا عروج

1990 کے بعد سے ملک کی اکثریتی فرقے کی نمائندگی کرنے والی دائیں بازو کی طاقتوں نے زور پکڑنا شروع کیا۔ جس کا انجام 1992 میں بابری مسجد کی شہادت پر منتج ہوا۔ اس واقعہ نے ملک کے سیاسی منظر نامے پر ہندو قوم پرست طاقتوں کو مزید متحد ہو کر آگے پیش قدمی کرنے کا بھی کام کیا۔


اس دوران مسلمانوں کو ملک میں سیاسی منظر نامے میں حاثیے پر ڈالنے کی کوششیں جاری رہیں۔ اور دوسری جانب دائیں بازو کی طاقتوں نے نظریاتی بنیادوں، نفسیاتی حربوں اور سیاسی چاپلوسی کی مدد سے ہندووں کو متحد کرنے کی کوششیں بھی جاری رکھیں۔ جس کا کامیاب نتیجہ 1996 میں اٹل بہاری واجپئی کیے مل1996 کے بعد سے بھارتیہ جنتا پارٹی نے ملک کی مختلف ریاستوں میں اپنے آپ کو مستحکم کرنا شروع کیا اور بالآخر 2014 میں اکثریت کے ساتھ مرکز میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی۔ 2014 کے بعد سے ہندوستانی مسلمانوں کو یکے بعد دیگر مسلسل حملوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ بحیثیت مجموعی مسلم رہنماوں کی طرف سے اس کے تدارک کے لیے خاطر خواہ کوشش نہیں کی جارہی ہے۔

مستقبل کا لائحہ عمل

اس صورت حال میں ہمیں ایک بار پھر اس اصل سوال پر غور کرنا ہوگا کہ ہندوستانی مسلمانوں کو اب کیا کرنا چاہیے؟ اس کا جواب خود احتسابی اور مسائل کا معروضی تجزیہ کرنے میں بھی مضمر ہے کہ آخر مسلمانوں کی یہ حالت کیوں ہوئی؟ ان مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر غور کرنا ہوگا۔ پہلی بات تو یہ کہ ہمیں مسلکی اور طبقاتی اختلافات کے بجائے ایک متحدہ قوم کی امیج پیش کرنے کی کوشش کرنی ہوگی۔ دوسری بات یہ کہ ہمیں مسائل کو حل کرنے کے لیے Approach Reactive اپنانے کے بجائے Approach Proactive اپروچ اختیار کرنا ہوگی۔ ایسے لوگ جو کسی سطح پر مسلمانوں کے نمائندے نہیں ہیں انہیں کسی بھی سطح پر نمائندگی کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے، بلکہ انہیں عوامی طورپر مسترد کرنے کی ضرورت ہے۔ تیسری بات یہ کہ ملک کی دیگر اقلیتوں مثلاً پارسیوں، سکھو اورعیسائیوں کے ساتھ پائیدار رابطہ قائم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ مزید برآں ان اقلیتی فرقوں سے سیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ انہوں نے تعلیمی اور اقتصادی شعبوں میں کامیابی کے پرچم کس طرح لہرائے ہیں۔


چوتھی بات یہ کہ مسلمانوں کے لیے خود احتسابی ضروری ہے اور خود اپنی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ کسی بھی قوم کی ترقی میں یہ فیصلہ کن امر ہے۔ شادی بیاہ اور مذہبی تقریبات وغیرہ میں بے جا پیسے بہانے کے رجحانات پر روک لگانے کی ضرورت ہے۔ اور آخری بات یہ کہ مسلمانوں کی نفسیات اور انہیں درپیش مسائل کی متعلق رویوں میں تبدیلی کا پیغام منطقی اور قابل فہم انداز میں دیا جانا چاہیے۔ یہ کام کسی ایسی کل ہند کمیٹی کے ذریعہ کیا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا جس میں تمام طبقات اور تمام مسالک کے رہنماوں کے علاوہ سیاسی اور سماجی کارکنان بھی شامل ہوں۔

سیاسی محاذ پر مسلمانوں کو کثیرجہتی لائحہ عمل اپنانا چاہیے، ملک کی سیکولر اور جمہوری طاقتوں کو مضوط کرنا چاہیے اور ہندوستان میں 63 فیصد سیکولر اور درست سوچ رکھنے والوں کی حمایت کے حصول کو یقینی بنانا چاہیے۔ جب تک مسلمان مجموعی طور پر اپنی نفسیات کو بدلنے اور اپنی اصلاح کرنے کا فیصلہ خود نہیں کریں گے، اس وقت تک ہر طرف سے ہونے والے حملوں سے انہیں بچانے میں کوئی بھی دوسری طاقت مدد نہیں کرسکتی۔ اس کے لیے انہیں خود ہی نئے حل نکالنے ہوں گے اور نئی راہ اختیار کرنی ہوگی۔


بقول شاعر مشرق علامہ اقبال

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

(مصنف سیاسی تجزیہ نگار ہیں۔ وہ بی بی سی اردو اور خلیج ٹائمز دوبئی سے وابستہ رہے ہیں)ک کے وزیر اعظم بننے کی صورت میں سامنے آیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 16 Aug 2020, 9:07 PM