بہلا بھی گئے تڑپا بھی گئے...انیس درانی

مودی حکومت نے ایسے عالمی فارم میں شرکت کر کے پاکستانی الزامات کو ایک سند دے دی کیونکہ او آئی سی اجلاس میں ہندوستان کو دہشت گرد اسٹیٹ قرار دیا گیا، ہندوستان پر کشمیر کے قبضہ کرنے کی تہمت لگائی گئی۔

تصویر سوشل میڈیا / <a href="https://twitter.com/MEAIndia">@MEAIndia</a>
تصویر سوشل میڈیا / @MEAIndia
user

انیس درانی

گزشتہ نصف صدی کا جب میں جائزہ لیتا ہوں تو کسی ایسے صدر یا وزیراعظم کو مودی جی کے ہم پلہ نہیں پاتا۔ انتہائی قابل تعریف بات یہ ہے کہ وہ لاکھوں کے مجمع سے بھی نہیں گھبراتے اور اس قدر خود اعتمادی کے ساتھ جھوٹ بولتے ہیں کہ سچ کو جاننے والا بھی خود شک میں گرفتار ہوجاتا ہے۔ ہمیں اپنے وزیراعظم کی اس خوبی کا اعتراف کرنا ہی چاہیے۔

ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

وزیراعظم کی تعریف کرنے کے لئے دل بے چین یوں ہوا کہ فروری کے آخری ہفتہ میں بھارت کی نمائشی وزیر خارجہ سشما سوراج (درحقیقت وزیراعظم مودی جی ہی بھارت کے وزیرخارجہ، وزیر داخلہ، وزیر دفاع اور وزیر خزانہ ہیں۔ ارون جیٹلی، راجناتھ سنگھ، سشما سوراج اور نرملا سیتارمن کے سروں پر تو نمائشی کلاہ رکھے گئے ہیں) کے آرگنائزیشن آف اسلامک کو آپریشن (OIC) کے پچاسویں اجلاس میں بحیثیت معزز مہمان خصوصی شرکت کا ڈھنڈورا پیٹا جارہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ مودی سرکار نے وہ کام کردکھایا جو گزشتہ ستّرسال میں کبھی نہیں ہوسکا (بھلے ہی OIC کی اپنی عمر ہی صرف پچاس سال ہے) پہلی بار عالم اسلام نے مودی سرکار کی وزیرخارجہ کو بحیثیت مہمان خصوصی مدعو کرکے پاکستان کو چت کردیا ہے۔ اس کی خارجہ پالیسی کو مٹی میں ملادیا ہے۔ جوکام کانگریسی سرکار ستّرسال میں نہ کرسکی وہ مودی سرکار نے پانچ سال میں کر دکھایا وغیرہ وغیرہ۔ مودی بھکت، مودی کے زر خرید دانشور اور مودی کی گود میں دودھ پینے والا میڈیا سب مودی جی کی شان میں چالیسہ پڑھ رہے تھے۔ کیونکہ مودی جی کا تعلق جس قبیل سے ہے وہ کھوکھا چنا باجے گھنا کہلاتا ہے۔

آرگنائزیشن آف اسلامک کو آپریش 1969 میں قائم ہوئی تھی۔ پاکستان اس کی تشکیل میں کئی اہم عرب ممالک کے ساتھ پیش پیش تھا۔ اس وقت بھی اس کا نام OIC تھا مگر اس کا مطلب آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس تھا۔ جو بعد میں کچھ عرصہ تک آرگنائزیشن آف اسلامک کنٹریز رہا اور پھر بالآخر اس نے موجودہ نام اختیار کیا۔ اس کا پہلا اجلاس مراکش کے دارالحکومت رباط میں 1969 میں ہوا تھا۔ ابتدائی طور پر بھارت کو بھی اس کا ممبر بننے کی دعوت دی گئی تھی کیونکہ بھارت ایک اسلامی ملک تو نہیں تھا مگر دنیا میں مسلمانوں کی آبادی کے تعلق سے اس وقت بھی انڈونیشیا کے بعد دوسرے نمبر پر تھا۔

اندراگاندھی کا دور حکومت تھا۔ اس وقت اپنے ایک سنیٹر اور قابل اعتماد وزیر فخرالدین علی احمد کی سربراہی میں بھارت کی نمائندگی کے لئے ایک وفد بھیجا۔ (فخرالدین علی احمد بعد میں بھارت کے صدر جمہوریہ بنے) اس وقت بھارت میں گجرات کی راجدھانی احمدآباد میں بڑے پیمانے پر مسلم کش فساد پھوٹ پڑے تھے جس میں بہت سے مسلمان شہید ہوئے تھے چنانچہ جب وفد مراکش پہنچا تو مسلم ممالک میں کافی بے چینی تھی۔ پاکستان کے صدر جنرل یحییٰ خان جو اس کانفرنس کے بانیوں میں سے تھے اس وقت بھارت کی بے عزتی کرنے کے لئے بھارت کے خلاف ایک لابی کو متحرک کردیا جس میں اردن، ترکی اور ایران بھی شریک تھے اور انہوں نے کانفرنس کے منتظمین کو صاف الفاظ میں کہہ دیا کہ اگر بھارت کو OIC کی ممبرشپ دے کر شامل کیا گیا تو وہ کانفرنس میں شریک نہیں ہوں گے۔ یہ کہہ کر انہوں نے خود کو ہوٹل کے کمرے میں بند کرلیا۔ کانفرنس کے لئے تمام اسلامی ممالک کے وفود آچکے تھے افتتاح ہونا تھا۔ پاکستان اس تنظیم کے بانیوں میں سے تھا اور بہت فعال ممبر تھا۔ مراکش حکومت کے لئے بڑی الجھن پیدا ہوگئی تھی آخر مراکش کے حکمراں شاہ جس نے اپنے ایک وزیر کو فخرالدین علی احمد کے پاس بھیجا اور ان سے درخواست کی کہ وہ اجلاس سے غیرحاضر رہیں یا پھر اچانک بیماری کا بہانہ بناکرشرکت نہ کریں۔

فخرالدین صاحب کو بالآخر اس بات کے لئے تیار کرلیا گیا کہ’’مشاہد‘‘ (آبزرور) کی حیثیت سے شریک ہوں ممبر کی حیثیت سے نہیں۔ یہ فیصلہ بھی بھارتی وزارت خارجہ سے صلاح کے بعد لیا گیا کیونکہ حکومت ہند اپنے عرب میزبانوں کو شرمندگی سے بچانا چاہتی تھی۔ اس کے بعد سے بھارتی حکومت کا موقف یہ رہا کہ وہ OIC کے اجلاس میں اس وقت شریک ہوگا جب بھارت کو اس کی مستقل ممبرشپ دی جائے گی۔ چنانچہ حکومت کے پاس کئی مرتبہ OIC سے بطور مشاہد شریک ہونے کے دعوت نامے آئے مگر بھارتی حکومتوں نے کبھی انہیں قبول نہیں کیا۔

18کروڑ مسلمانوں کی بھارت میں موجودگی کے سبب بھارتی حکومت مستقل ممبر بننا اپنا حق سمجھتی تھی۔ مگر یہ سب بھی سیاسی تماشہ گیری تھی کیونکہ بنیادی طور پر بھارت ایک سیکولر آئین والا سیکولر ملک ہونے کے ناطے مذہبی بنیاد پر بننے والے کسی بھی عالمی پلیٹ فارم کا ممبر بننا مناسب نہیں سمجھتا تھا اور وہ یہ بھی جانتا تھا کہ پاکستان کشمیر کو لے کر ہمیشہ اس کی مخالفت کرے گا جس کے سبب مستقبل میں اس کے عرب ممالک سے تعلقات میں کڑواہٹ پیدا ہوسکتی ہے۔ دوسری بات فرداً فرداً عرب ممالک سے انفرادی دوستی کر کے بھارت کے لئے زیادہ منفعت کا حصول کیا جاسکتا ہے۔ سفارتی سطح پر زیادہ فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔

اب ذرا ہم مودی سرکار لااعتبار کے اس موضوع پر حالیہ کارکردگی کا جائزہ لیں جس کا روز اول سے ڈھول پیٹا جارہا تھا۔ 26 فروری کو پاکستان کے بالاکوٹ علاقے میں دہشت گردی کے خلاف بھارت نے بڑی کارروائی کی۔ جوابی طور پر27 فروری کو دن میں ساڑھے دس بجے پاکستان نے بھارتی فضائی سرحد کی خلاف ورزی کرنے کی کوشش کی، جس کی مارا ماری میں دونوں ممالک کو ایک ایک جنگی طیارے کا نقصان اٹھانا پڑا۔ 28فروری کو نمائشی وزیرخارجہ سشما سوراج OIC کانفرنس میں شرکت کے لئے ابوظہبی کے لئے روانہ ہوئیں۔ جہاں پہلی اور دوسری مارچ کو OIC کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس تھی۔ بھارتی وزیرخارجہ کو دعوتِ شرکت دینے کی گفت وشنید بھارت کی وزارت خارجہ میں گزشتہ ایک ماہ سے چل رہی تھی۔ بھارت کی وزارت خارجہ کے بعض سینئر سفارتکار اس بات کے خلاف تھے کہ سابق پالیسی کو بدلاجائے اور وزیرخارجہ OIC کانفرنس میں شرکت کریں کیونکہ انہیں یقین تھا کہ پاکستان ہمیشہ کی طرح کشمیر کے تعلق سے قرارداد منظور کروا کر وزیرخارجہ کے لئے خجالت کا سبب بنے گا۔ مگر چونکہ اب سارے فیصلے وزیراعظم کے دفتر سے لئے جاتے ہیں۔ جس کے عقل مندوں کی سوچ تھی کہ اب حالات بدل چکے ہیں۔ کشمیر کے تعلق سے بھارت کے خلاف کوئی آواز بلند نہیں ہوگی۔ اس لئے سشما سوراج OIC کے اجلاس میں پہنچ گئیں۔ انہوں نے بنا پاکستان کا نام لئے دہشت گردی کے خلاف زبردست تقریر کی۔ پاکستان نے اپنے اعلان کے مطابق OIC اجلاس کا بائیکاٹ کیا ان کے وزیرخارجہ محمود قریشی ابوظہبی گئے ہی نہیں بلکہ پاکستانی وزارت خارجہ کے چند جونیئر افسران کا وفد بھیج دیا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ سشما سوراج کی تقریر بہت جامع تھی۔ انہوں نے مشرقی ایشیاء سے لے کر افریقہ تک پھیلے پورے عالم اسلام سے بھارت کے عمدہ تعلقات کا تذکرہ کیا اور کہا کہ دہشت گردی کے خلاف بھارت کی جنگ کسی مذہب کے خلاف لام بندی نہیں ہے۔ پاکستان کا نام لئے بغیر انہوں نے کہا کہ جو ممالک دہشت گردوں کی مالی امداد کرتے ہیں۔ انہیں پناہ دیتے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ دہشت گردی کے تربیتی کیمپ بند کردیں۔ ان کی مالی امداد بند کردیں اور اپنے اپنے ممالک میں ایسی تنظیموں کے دفاتر بند کردیں۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی دونوں ایک ہی سکّے کے دو رخ ہیں۔ کیونکہ دونوں میں مذہب کو مسخ کرکے آلہ کار بنایا جاتا ہے۔ مگر ان سب باتوں کے باوجود پر نالہ اپنی جگہ پر ہی گرا۔

اجلاس کے آخری دن جو قرارداد منظور ہوئی اس میں OIC نے بھارت کا باجہ بجا دیا۔ اس قرارداد میں کشمیر کے تعلق سے’’بھارتی دہشت گردی‘‘ کی اصطلاح استعمال کی گئی۔ کانگریس نے اس پر سخت گرفت کرتے ہوئے وزیراعظم اور وزیرخارجہ سے دریافت کیا کہ ابوظہبی میں جو کچھ ہوا کیا اسے کسی طرح بھی کامیاب سفارتکاری کہا جاسکتا ہے؟، بھارت کو دہشت گرد اسٹیٹ قرار دیا گیا۔ بھارت پر کشمیر قبضہ کرنے کی تہمت لگائی گئی۔ آپ نے ایسے عالمی فارم میں شرکت کرکے پاکستانی الزامات کو ایک سند دے دی۔ انہی وجوہات کی بنا پر سابقہ حکومت نے سالوں سے جان بوجھ کر OIC اجلاسوں کو نظرانداز کرتی آئی تھی۔ مگر مودی سرکار کو جنون یہ ہے کہ وہ ہر وقت ہر موقع کو اپنے لئے ایک تمغہ کی طرح استعمال کرنا چاہتی ہے۔ خواہ اس سے مستقبل میں ملک کو کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہو۔ یہی سب کچھ اس معاملہ میں ہوا ہے۔ یہ ثابت کرنے کے لئے کہ کانگریس نے کبھی OIC کے اجلاس میں شرکت نہیں کی ہے۔ اس لئے ہم ضرور کرکے دکھائیں گے۔ جب سشما پالے میں کود پڑی تھیں تو پھر ان کو اپنی تقریر میں کھل کر پاکستان کا نام لے کر اس پر دہشت گردی کی حمایت کرنے کا الزام لگانا چاہیے تھا۔ آخر بعد میں جاری ہونے والی OIC کی قرارداد میں بھی تو کھل کر کشمیر کے تعلق سے بھارت کا نام لے کر الزام لگائے گئے ہیں۔

آج ساری دنیا میں سیاسی طورپر الٹ پلٹ ہوچکی ہے۔ سعودی عربیہ اور یواے ای (UAE) اقتصادی طورپر پوری طرح امریکہ کی گرفت میں ہیں۔ اب سارے عرب ممالک اپنے مالی مفادات کے تحفظ اور سرمایہ کاری کے لئے بھارت اور دوسرے ایشیائی ممالک میں امکانات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ بھارت اپنے تعلقات اسلامی ممالک بالخصوص عرب ممالک کے ساتھ ایک ہموار اور سودمند سطح پر رکھے۔ اور بھارت کی داخلی سیاست میں پوائنٹ اسکور کرنے کے لالچ میں نہ آئے۔

پاکستان نے بھلے ہی OIC کے اجلاس کا بائیکاٹ کیا ہو مگر وہ بھارت پر اسلام مخالف ملک کا لیبل لگانے میں کامیاب ہوگیا۔ حالانکہ اس وقت عرب ممالک کو بھارت کی اور بھارت کو عرب ممالک کے ساتھ عمدہ تعلقات کی ضرورت ہے۔ آج کے حکمرانوں کی ایک دوسرے کو بڑے بھائی چھوٹے بھائی کہنے کی اب اتنی اہمیت نہیں رہ گئی جتنی اس وقت تھی جب سعودی عرب کے بادشاہ اندراگاندھی کو اپنی بہن اور سیدہ کہا تھا۔ امید ہے بھارت سرکار کو آرگنائزیشن آف اسلامک کو آپریشن کے اس اجلاس سے جو سبق ملا ہے اسے ہمیشہ یاد رکھے گی۔

تسکین دل محزوں نہ ہوئی وہ سعی کرم فرما بھی گئے

اس سعی کرم کو کیا کہیے بہلا بھی گئے تڑپا بھی گئے

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔