آج کے ہندوستان کو راجیو گاندھی کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت

راجیو گاندھی سے زیادہ غمگین اور سخت حالات میں کوئی حکمراں نہیں بن سکتا تھا جب 31 اکتوبر، 1984 کو اپنی والدہ محترمہ کے قتل کے بعد انہیں کانگریس کا صدر اور ملک کا وزیر اعظم بننا پڑا۔

تصویر سوشل میڈیا بشکریہ ہندی جانکاری
تصویر سوشل میڈیا بشکریہ ہندی جانکاری
user

قومی آواز بیورو

40 برس کی عمر میں وزیر اعظم بننے والے جناب راجیو گاندھی بھارت کے سب سے کم عمر وزیر اعظم تھے اور غالباً دنیا کے ان نو عمر سیاست دانوں میں سے ہیں جنہوں نے حکومت کی رہنمائی کی۔ راجیو گاندھی کو ہندوستانی تاریخ کا سب سے بڑا مینڈیٹ ملا تھا۔ اپنی والدہ کے قتل کے بعد انہوں نے لوک سبھا کے لئے انتخاب کرانے کا حکم دیا اور انتخاب میں کانگریس کو گذشتہ سات انتخابات کے مقابلے میں زیادہ تناسب میں ووٹ ملے اور پارٹی نے 508 میں سے ریکارڈ401نشستیں حاصل کیں۔

راجیو گاندھی 20 اگست 1944 کو بمبئی میں پیدا ہوئے۔ وہ اس وقت محض تین برس کے تھے جب بھارت کو آزادی ملی اور ان کے نانا جان ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم بنے۔ ان کے والدین لکھنؤ سے دہلی آکر بس گئے تھے۔ ان کے والد فیروز گاندھی نے رکن پارلیمنٹ بن کر ایک بہادر اور جفاکش رکن کی حیثیت سے شہرت حاصل کی۔


راجیو گاندھی نے اپنے بچپن کا ابتدائی زمانہ اپنے نانا کے ساتھ تین مورتی ہاؤس میں گزارا، جہاں اندرا گاندھی، وزیر اعظم کی میزبان کی حیثیت سے فرائض انجام دیتی تھیں۔ انہوں نے مختصر وقفے کے لئے دہرادون کے ویلہم اسکول میں تعلیم حاصل کی، لیکن جلد ہی انہیں ہمالیائی تلہٹی میں رہائشی دون اسکول میں داخل کرا دیا گیا۔ یہاں ان کے کئی دوست بنے جن سے ان کی تاعمر دوستی قائم رہی ۔

اسکول سے نکلنے کے بعد جناب گاندھی کیمبرج کے ٹرینٹی کالج گئے، لیکن جلد ہی وہ وہاں سے نکل کر لندن کے امپیرئیل کالج میں داخل ہوگئے۔ انہوں نے وہاں سے میکینکل انجینئیرنگ کی تعلیم حاصل کی۔


سیاست میں اپنا کیرئیر بنانے میں ان کی کوئی دلچسپی نہیں تھی اور ان کے ہم جماعتوں کے مطابق، ان کی کتابوں کی الماری میں فلسفے، سیاست یا تاریخ کی بجائے سائنس اور انجینئیرنگ سے متعلق کتابیں پائی جاتی تھیں۔ حالانکہ موسیقی میں ان کی خاصی دلچسپی تھی۔ وہ مغربی اور ہندوستانی کلاسیکی موسیقی کے علاوہ جدید موسیقی کے بھی دلدادہ تھے۔

فضائی پرواز ان کا سب سے بڑا شوق تھا۔ یہی وجہ تھی کہ انگلینڈ سے واپسی کے بعد انہوں نے دہلی فلائنگ کلب کے داخلے کا امتحان پاس کیا اور تجارتی پائلٹ کا لائسنس حاصل کیا۔ جلد ہی وہ گھریلو قومی ہوائی جہاز کمپنی، انڈین ایئرلائنز کے پائلٹ بن گئے۔


راجیو گاندھی سے زیادہ غمگین اور سخت حالات میں کوئی حکمراں نہیں بن سکتا تھا جب 31 اکتوبر، 1984 کو اپنی والدہ محترمہ کے قتل کے بعد انہیں کانگریس کا صدر اور ملک کا وزیر اعظم بننا پڑا۔ لیکن اپنی نجی زندگی میں غمگین ہونے کے باوجود انہوں نے غیر معمولی اعتدال، وقار اور شعور کے ساتھ قومی ذمہ داری کو بحسن و خوبی انجام دیا۔

تعلیم حاصل کرنے کے لئےراجیو گاندھی کی زندگی کا ایک بڑا حصہ مغربی ممالک میں گزرا اس لئے ان کی ہمیشہ خواہش رہی کہ جس طرح مغربی ممالک نے ترقی کی ہے ویسے ہی ہندوستان بھی ترقی کرے۔ اسی سوچ کی وجہ سے راجیو گاندھی جب وزیر اعظم بنے تو انہوں نے ہندوستان میں کئی اہم فیصلے لئے جن میں ملک میں کمپیوٹر لانا تھا ۔ ملک میں کمپیوٹر متعارف کرانا ان کی دور اندیشی کی ایک مثال ہے۔ راجیو گاندھی کے قریبیوں نے ان کو سیاسی طور پر بہت نقصان پہنچایا جس سے ہندوستان کی ترقی بھی متاثر ہوئی۔ آج کے ہندوستان کو راجیو گاندھی ہمیشہ سے زیادہ ضرورت ہے۔


راجیو گاندھی کو قتل کرنے والے سماج دشمن عناصر کے ذہن میں یہ کبھی نہیں رہا ہوگا کہ راجیو گاندھی جیسے لوگوں کی جان لینے سے ان کے سوچ اور خیالات کے بہاؤ کو نہیں روکا جا سکتا۔ راجیو گاندھی کاجو ہندوستان کو دنیا میں ایک طاقتور ملک بنانےکا خواب تھا اس کو ان کے قتل سے دھکا ضرور لگا ہے لیکن ان کا خواب پورا ضرور ہوگا کیونکہ اس کی بنیاد انہوں نے ڈال دی تھی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔