ہندوستان کبھی ہندو راشٹر نہیں بن سکتا... آکار پٹیل

ہندو راشٹر کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے پاس ایسا ڈھانچہ نہیں جو دنیا کے جدید ماحول میں ڈھالا جا سکے۔ سماج و ریاست کو ہندو طور طریقوں سے منظم کرنے کا سب سے اہم عنصر ذات ہے جو بیشتر ہندوﺅں کو قابل قبول نہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

آکار پٹیل

2019 کے لوک سبھا انتخابات پر نگاہ رکھنے والے لوگوں میں ایک بڑا خوف ’ہندو راشٹر‘ کو لے کر ہے۔ یہ ایک ایسا نظریہ ہے جو ہندوستان کو اپنے غیر مذہبی موجودہ آئین سے دور لے جا سکا ہے اور ایک مذہبی آئین کی طرف دھکیل سکتا ہے۔ یہ ہندوستان کو ایک ’زیادہ ہندو‘ یا ’مکمل ہندو‘ ریاست بنا دے گا۔ سوچ یہ ہے کہ بی جے پی کی لگاتار دوسری فتح، اور شاید بڑی فتح اسے آئین میں کچھ ایسے عنصر جوڑنے کے لیے آگے بڑھا دے گی جو ہندوستان کو ہندو راشٹر بنا دے گا۔ لیکن مجھے نہیں لگتا کہ ایسا کرنا ممکن ہے اور میں آئندہ کچھ لمحات میں اس کی تشریح کروں گا۔

مجھے شروعات اس بات سے کرنی چاہیے کہ انفرادی حقوق کے نظریہ سے دیکھنے پر اس بات سے زیادہ فرق نہیں پڑتا کہ ہندوستان پر کون سی پارٹی حکومت کرتی ہے۔

میں جس تنظیم سے جڑا ہوں اس نے دہائیوں تک جموں و کشمیر پر کام کیا ہے اور فوجی قوت کے زیادہ استعمال اور مسلح فوج کے سزا معاف ہونے کے معاملے سے منسلک ایشوز وہاں حالیہ نہیں ہے اور نہ ہی موجودہ حکومت نے ایسا کرنے کی شروعات کی ہے۔ اسی طرح اے ایف ایس پی اے (افسپا) قانون جو عدالت میں سماعت سے فوج کے جوانوں کو بچاتا ہے، اسے بھی موجودہ بی جے پی حکومت نے نہیں بنایا ہے۔ جب ہم ہندوستانیوں کے انفرادی حقوق اور اسے ریاست کے ذریعہ کچلے جانے کے بارے میں سوچتے ہیں تو اس سے جڑا کوئی بھی بڑا مسئلہ پرانا ہے۔

دلتوں سے لے کر قبائلیوں، مسلمانوں اور دوسرے مذہبی اقلیتوں تک ہندوستان میں کمزور طبقات کےا فسران سے جڑا کوئی مسئلہ حالیہ نہیں ہے۔ صرف واحد نئی چیز ہوئی ہے کہ اس حکومت کی پالیسیوں اور نعروں نے گوشت کو لے کر ہونے والی لنچنگ کی وبا کو جنم دے دیا ہے۔ لیکن ہم کہتے ہیں کہ اس کے علاوہ چیزوں میں کوئی دوسری تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ ایک ایسا شخص ہونے کے ناطے جو کئی بار پاکستان جا چکا ہے اور کئی سالوں تک اس کا جائزہ لیا ہے، میں یہ بتا سکتا ہوں کہ ایک شخص کے لیے برصغیر کی مذہبی ریاست میں زندگی گزارنا اور سیکولر ریاست میں زندگی گزارنا زیادہ الگ نہیں ہے۔ یہ سچ ہے کہ پاکستان کے کچھ قانون قصداً اقلیتوں کے خلاف تفریق سے بھرے بنائے گئے ہیں۔ مثلاً آئین غیر مسلموں کو وزیر اعظم یا صدر کے عہدہ پر بیٹھنے سے روکتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ احمدیہ نام کا مسلم طبقہ ہے جو آزادی کے ساتھ اپنی مذہبی روایت پر عمل نہیں کر سکتا۔ لیکن اس کے علاوہ کم و بیش دوسری چیزیں ہندوستان میں ایک جیسی ہیں۔ پاکستان میں اقلیتیں کم ہیں لیکن ان میں بھی اسی قسم کا عدم تحفظ اور حاشیہ پر پڑے ہونے کا احساس ہے جو ہندوستان کے اقلیتوں میں ہے۔

اب اس بات پر آتے ہیں کہ کیا ہندو راشٹر کا قیام ہو سکتا ہے! یہاں دو باتیں ہیں، جیسا کہ کسی بھی مذہبی ریاست میں ہوتا ہے۔ پہلا یہ کہ مذہب کے اقدار اور ثقافت سے جڑے پہلو قانون کا حصہ ہو جاتے ہیں۔ مثال کے لیے، کچھ مسلم ریاستوں میں شراب پر پابندی ہے اور رمضان کے مہینے میں لوگوں کو ان کے ریسٹورینٹ بند رکھنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ان میں سے کچھ چیزیں ہندوستان میں پہلے سے ہی ہیں۔ شراب بندی اور گﺅکشی کو لے کر پہلے سے ہی کئی ریاستوں میں کچھ الگ الگ شکلوں میں قانون موجود ہے۔

دوسرا یہ ہے کہ لوگوں کو ان کے مذہب اور جنس کی بنیاد پر تقسیم کیا جاتا ہے اور انھیں یہ بتایا جاتا ہے کہ انھیں کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں۔ مذہبی اقدار سے چلنے والے کسی ریاست کا یہ ایک گہرا پہلو ہے اور اسی چیز سے لوگ ڈرتے ہیں۔ ہندو راشٹر کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے پاس ایسا کوئی مضمون نہیں ہے جو جدید دنیا کے طور پر ڈھالا جا سکتا ہے۔ سماج اور ریاست کو ہندو طور طریقوں سے منظم کرنے کا سب سے اہم عنصر ذات ہے۔ یہ زیادہ تر ہندوﺅں کو قابل قبول نہیں ہے۔ شمال سے لے کر جنوب تک پورے ملک میں شودر کسان طبقہ سیاسی طور پر طاقتور ہے جس میں پاٹیدار، ووکالیگا، جاٹ، یادو، ریڈی وغیرہ آتے ہیں۔ زیادہ تر وزیر اعلیٰ ان ذاتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ قانون میں کچھ تبدیلی کی وجہسے یہ طبقہ خود سے اپنی طاقت برہمنوں کو نہیں دینے والے۔ اسی طرح دلت اور قبائلی جو ہماری آبادی کا ایک چوتھائی ہیں، انھیں ہندو راشٹر میں کچھ ملنے والا نہیں، اس لیے اس کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ وہ ایسا چاہیں۔ ایک نظام جو ہندو مذہب اور اسے ماننے والوں کو زیادہ خصوصی اختیارات دیتی ہے، اسے ضروری طور پر ذات کو دیکھنا چاہیے، اور وہیں یہ بات پھنس جاتی ہے۔

2008 تک نیپال دنیا کا واحد ہندو ملک تھا۔ کشتریہ نسل کی حکومت 2008 میں جمہوریت کے قیام کے ساتھ ہی ختم ہو گئی۔ نیپال کیوں ایک ہندو ریاست تھی؟ کیونکہ طاقت راجہ کے پاس تھی، جیسا کہ ہندو کوڈ میں بتایا گیا ہے۔ لیکن نیپال صرف اسی حد تک ’ہندو ریاست‘ تھی۔ اس کے علاوہ کچھ دیگر ہندو مذہبی صحیفوں کے مطابق وہاں ایسا نہیں تھا کیونکہ ان کی زیادہ تر چیزیں حقوق انسانی کے عالمی اعلانات کے خلاف ہیں۔

تو ہندو راشٹر بنانے کے لیے آئین میں کیا تبدیلی لانی ضروری ہیں؟ ہم غیر ہندوﺅں کے تئیں تفریق کر سکتے ہیں اور انھیں ان کے حقائق سے محروم کر سکتے ہیں۔ ان میں سے کچھ ہم پہلے ہی کر چکے ہیں۔ بہار اور گجرات میں عیسائی اپنی پاکیزہ شراب نہیں پی سکتے اور ہندوستان کے زیادہ تر حصوں میں مسلمان گائے کی قربانی نہیں دے سکتے۔ دوسرے حقوق کو ہم نے قانونی طور پر نہیں چھینا ہے لیکن عام طور پر ان کی کوئی موجودگی نہیں ہے۔ مسلمانوں کے وزیر اعظم بننے پر کوئی پابندی نہیں ہے لیکن اس وقت کو دیکھتے ہوئے مستقبل قریب میں ایسا ہونا ناقابل یقین ہے۔ 1947 کے بعد سے سیاست میں مسلم قیادت اپنے سب سے ذیلی سطح پر ہے اور یہ ہندوستان میں کوئی ایشو بھی نہیں ہے۔

ہم اس سے بھی آگے جا سکتے ہیں اور باضابطہ طور پر ہندو راشٹر میں عیسائیوں اور مسلمانوں کے کچھ سیاسی اختیارات لے سکتے ہیں۔ پھر بھی، کیونکہ ہندو راشٹر زیادہ تر ہندوﺅں کی طاقت اور حقوق کو ختم کر دے گا، اس لیے ہم مطمئن رہ سکتے ہیں کہ بی جے پی یا کوئی اور طاقت ایسا نہیں کر سکتی۔ یہی سبب ہے کہ ہندو راشٹر کا نظریہ اور جو یہ اصل میں ہے، وہ غیر واضح ہے اور ہمیشہ ایسا ہی رہے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 30 Sep 2018, 6:07 PM