یوم آزادی پر خاص: ہمیں نفرت سے نفرت کرنے کی ضرورت ہے

آزادی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم کسی جانور کی عبادت میں اتنی شدت اختیار کرلیں کہ ہم انسانی قدروں کو بھول جائیں، آزادی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم خود یہ طے کرلیں کہ سماج کا ایک طبقہ ملک دشمن ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

سید خرم رضا

سفر کے دوران جب موبائل میں جی پی ایس (گلوبل پوزیشننگ سسٹم) آن کر کے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کون سا روٹ بہتر ہے اور راستے میں کہاں اور کتنی دیر کا جام ہےتو جواب میں تمام وضاحتیں موبائل کی اسکرین پر آ گئیں جس کے بعد فیصلہ کرنے میں آسانی ہو گئی ۔ اس کے بعد خیالات کا ایک سیلاب آ گیا اور اس سیلاب کے ساتھ کئی سوال ذہن میں گردش کرنے لگے۔ ان سوالات کی روشنی میں یہ اندازہ لگانے کی کوشش کرنے لگا کہ دنیا نے کتنی ترقی کر لی ہے۔ ہم کار میں بیٹھے ہیں ، جی پی ایس ڈیوائس ایسا ہے جیسے ہمیں منزل پر پہنچانے کے لئے کسی بزرگ نے ہمارا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا ہو اور وہ بتا رہے ہوں کہ ایسے جانا، یہ راستہ لینا اور اس راستے سے نہ جانا ۔ پھر دماغ میں سوال اور پیدا ہوئے کہ سائنس داں یہاں تک پہنچے کیسے؟ سیٹلائٹ کے ذریعہ سب کچھ بتا نے کا یہ سفر کیسے طے ہوا ہوگا ؟کس کا ذہن اس سمت گیا اور اس کے لئے کیا کیا جدو جہد کی گئی؟ پھر لا تعداد سوالات جنم لینے لگے ۔ پتہ نہیں کس نے کتنی اور کیا کیا جدو جہد کی ہوگی، جب ہمیں جا کر یہ جی پی ایس ڈیوائس ملا ہے ۔ جن لوگوں نے اس تعلق سے اپنا کردار ادا کیا ہوگا ان کو کتنی مرتبہ مایوسی ہاتھ لگی ہوگی اور کتنی مرتبہ ایک حیران کرنے والی خوشی اس وقت محسوس ہوئی ہوگی جب ان کو کسی چھوٹے سے تجربے میں کامیابی کی ایک جھلک نظر آئی ہوگی۔بہر حال ہمارے لئے تو یہ ایک ایسا مددگار سائنسی ڈیوائس ہے جو ہماری بے شمار پریشانی حل کرتا ہے اور خاص بات یہ ہے کہ اس کے ایجاد میں ہمارا کوئی کردار نہیں ہے۔ ہمیں تو یہ سب بیٹھے بٹھائے مل گیا ، اسی طرح جیسے ہماری نسل کو ملک کی آزادی بیٹھے بٹھائے مل گئی ۔

جس آزادی کا جشن ہم آج منا رہے ہیں وہ ایسے ہی حاصل نہیں ہوئی ہے اس کے لئے کتنے لوگوں نے اپنی جانوں کی قربانیاں دیں ، کتنے لوگ بے گھر ہوئے، کتنے لوگوں نے جیل کی صعوبتیں برداشت کیں ،کتنے لوگوں نے کیسی کیسی ٹھوکریں کھائیں ، کتنے مذاکرات ہوئے ، کتنے اجلاس ہوئے، کتنے مختلف انداز میں لڑائی لڑی گئی پھر جا کر ایک لمبی جدو جہد کے بعد 1947میں آج کی تاریخ میں ہمیں آزادی نصیب ہوئی اور پھر ہلکے ہلکے نسل در نسل ہمارے ذہن سے یہ خیال گم ہونے لگا کہ جس آزاد فضا میں ہم سانس لے رہے ہیں اور جس آزادی کی وجہ سے ہم اپنے فیصلے لینے پر قادر ہیں وہ اس جی پی ایس کی ہی طرح ہو گئی ہے جس کا فائدہ تو ہم اٹھا رہے ہیں لیکن اس کو حاصل کرنے میں کن مراحل سے گزرنا پڑا اس کا ہمیں علم نہیں ۔ اب تو حال یہ ہے کہ ہم بھولتے جا رہے ہیں کہ اس کے لئے کیا کیا جدو جہد کی گئیں، ہمارے وجود کے لئے یہ کتنی اہمیت رکھتی ہے اور اس کو بچا کر رکھنا کتنا ضروری ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم آزادی کی قدر کریں اور اس کو ایک سائنسی ڈیوائس کے طور پر نہ سمجھیں کہ اب تو یہ ایجاد ہو گیا ہے اس لئے ہم چاہے جیسے اس کا استعمال کریں ۔ آزادی ایک ایسی انمول نعمت ہے جس کی ہم جتنی قدر کریں گے اس سے ہم اتنے ہی زیادہ مستفیض ہوں گے۔ آج ملک میں جس طرح کا ماحول ہے اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم آزادی کو بھی ایک سائنس کا تحفہ سمجھ رہے ہیں اور اس کو صرف استعمال کر رہے ہیں اس کے تقاضہ پورے نہیں کر رہے ۔ہم سوچ بیٹھے ہیں کہ اگر ہم کوئی غلطی کریں گے تو یہ خود بخود ٹھیک ہو جائے گا یہ جی پی ایس نہیں ہے کہ ایک بار غلط روٹ لے لیا تو یہ آپ کو ٹھیک روٹ پر لے آئے گا ۔ اس میں ایک بھی غلطی بہت مہنگی پڑسکتی ہے۔

آزادی کا مطلب بالکل یہ نہیں ہے کہ اگر کسی اپنے ہم وطن سے ہمارے خیالات نہیں ملتے تو ہم اس کو مار دیں، اگر کسی کے کھانے کا طریقہ اور پسند ہم سے جدا ہے تو ہم بھیڑ کی شکل میں جمع ہو کر اس کی جان لے لیں، آزادی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم کسی جانور کی عبادت میں اتنی شدت اختیار کر لیں کہ ہم انسانی قدروں کو بھول جائیں، آزادی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم خود یہ طے کر لیں کہ سماج کا ایک طبقہ ملک دشمن ہے اور ایک طبقہ چاہے ملک دشمنی کے کاموں میں ملوث ہو یا رہا ہووہ محب وطن کہلائے گا۔ آزادی کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے فیصلے آپس میں بیٹھ کر دانشمندی سے ملک کے مفادات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کریں ۔ آزادی کا مطلب یہ ہے کہ ہم ملک کی ترقی کے لئے اپنے ذاتی اختلافات کو نظر انداز کر کے متحد رہیں۔ آزادی کا مطلب یہ ہے کہ ہم پیار اور محبت کے ساتھ رہیں اور نفرت سے نفرت کریں ۔ آزادی کا مطلب یہ ہے کہ پورا عالم ہماری تہذیب اور ثقافت کی تعریف کرے ۔ آزادی کا مطلب یہ ہے کہ ہماری خواتین اپنے ہونے پرفخر محسوس کریں ۔ آزادی کا مطلب یہ کہ ہمارے نو نہال اپنی مرضی کی زندگی گزار سکیں اور ان کی نظروں میں کبھی مایوسی کی جھلک نظر نہ آئے۔

71 سال ہو گئے ہیں اب ملک کے کسی مسلمان کو یہ ثابت کرنے کی ضرورت نہیں پڑنی چاہئے کہ وہ محب وطن ہے ، کسی دلت کو اپنے دلت ہونے پر شرمندگی نہیں ہونی چاہئے ، کسی خاتون کوخود کوبے سہارا اور کمزور نہیں سمجھنا چاہئے اور یہ سب سنیما حال میں فلم شروع ہونے سے پہلے قومی ترانہ گائے جانے کے وقت احترام میں کھڑے ہونے سے حاصل نہیں ہوگا بلکہ یہ سب ملک کی ترقی کی سمت میں اٹھائے جانے والے ہر قدم کے ساتھ کاندھے سے کاندھا ملا کر کھڑے ہونے سے ہوگا۔ خدا کے واسطے آزادی کو ایک سائنسی ڈیوائس کے طور پر نہ لیں کہ بس اس کا استعمال کرنا ہے اور اس سے فائدہ اٹھانا ہے ۔ آزادی بہت بیش قیمتی تحفہ ہے اور بہت نازک بھی اگر اس کی قدر نہیں کی تو ہم اس کو گنوا بھی سکتے ہیں کیونک پہلے بھی کئی مرتبہ ہمارے اوپر دوسروں نے حکومت کی ہے۔اس کی بقا کے لئے سب سے ضروری عمل یہ ہے کہ ہم نفرت سے نفرت کریں ۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔