مودی کی نظر مسلم خواتین پر نہیں ہندو ووٹ بینک پر .. ظفر آغا
یہ وہی نریندر مودی ہیں جن کی حکمرانی میں گجرات فسادات کے دوران دنگائیوں نے مسلم عورتوں کی نہ صرف عصمت دری کی تھی بلکہ ایک عورت کا بطن کاٹ کر8 ماہ کے بچے کو اس کی ماں کے سامنے مار دیا تھا۔
مودی حکومت کا بس چلا تو طلاق ثلاثہ جلد ہی ایک جرم قرار ہو جائے گا۔ طلاق ثلاثہ یعنی ’طلاق بدعت‘ ایک بدعت ہے اس لیے اس کو ختم ہونا ہی چاہیے تھا۔ لیکن اس مسئلہ کو مسلم پرسنل لاء سے جڑا ہوا معاملہ ہونے کے سبب اس معاملے پر بحث تو ہوتی رہی لیکن کوئی پیش قدمی نہیں ہوئی۔ لیکن سنہ 2014 میں نریندر مودی کے برسراقتدار آتے ہی طلاق ثلاثہ معاملے نے ایک نئی شکل اختیار کر لی۔ ہوا یہ کہ کچھ مسلم خواتین نے طلاق ثلاثہ کے معاملے میں سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا اور اس کو Gender Justice (صنفی حقوق) کا رنگ دے دیا۔ بس مودی حکومت نے بھی عدالت میں اس کو شریعت اور مسلم پرسنل لاء سے الگ کر جنڈر جسٹس کی نوعیت دے دی۔ چنانچہ اس روشنی میں سپریم کورٹ نے وہی کیا جو ہونا چاہیے تھا۔ اور اس طرح چند ماہ قبل سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد طلاق ثلاثہ غیر قانونی قرار ہو گیا۔ لیکن جب سپریم کورٹ طلاق ثلاثہ کو غیر قانونی بنا چکا تھا تو پھر پارلیمنٹ کے ذریعہ اس طلاق کے خلاف ایک غیر انسانی اور کٹر قسم کا قانون پاس کرنے کی کیا ضرورت تھی!
مودی حکومت کا اس سلسلے میں عدالت کی طرح یہ جواز تھا کہ یہ طلاق ثلاثہ کا معاملہ مسلم عورت کے حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے اس لیے اس سلسلے میں ایک سخت قانون بنا کر مسلم عورت کو تحفظ اور انصاف دلوانا حکومت کا فرض ہے۔
اللہ کی پناہ، نریندر مودی اور مسلمانوں کو تحفظ و انصاف! بھلا نریندر مودی کو مسلم عورت یا مرد کے تحفظ اور انصاف میں حقیقی دلچسپی ہو سکتی ہے! یہ وہی نریندر مودی ہیں جن کے راج میں سنہ 2002 میں گجرات کے بدترین فساد ہی نہیں بلکہ مسلم نسل کشی ہوئی تھی اور مودی جی نے دنگائیوں کے خلاف انگلی بھی نہیں اٹھائی تھی۔ جب کچھ عرصے بعد ایک صحافی نے مودی جی سے گجرات دنگوں کے بارے میں سوال کیا کہ کیا ان کو 2002 فسادات پر افسوس ہے! اس کا جواب مودی جی نے یہ دیا تھا کہ ’’مجھے اس کا اتنا ہی افسوس ہے جتنا ایک کتے کے بچے کا کار سے دب کر مر جانے کا افسوس ہوتا ہے۔‘‘
یہ ہے مودی جی کی مسلم محبت کا عالم۔ اور تو اور مودی جی کو مسلم عورتوں کے تحفظ اور انصاف کی کتنی فکر ہے اس کا اندازہ بھی گجرات فساد سے لگایا جا سکتا ہے۔ گجرات فسادات میں محض لوگ مارے ہی نہیں گئے تھے بلکہ ان فسادات میں دن دہاڑے دنگائیوں نے مسلم عورتوں کی عصمت دری بھی کی تھی۔ حد تو تب ہوئی جب ایک عورت کے بطن سے کاٹ کر 8 ماہ کے بچے کو اس کی ماں کے سامنے مار دیا گیا تھا۔ مسلم عورتوں کے حقوق کا اب دَم بھرنے والے وہی مودی ہیں جن کی حکومت نے عدالت میں زانی اور دنگائیوں کا دفاع کیا تھا۔ پھر عشرت جہاں اور کوثر بی جیسی مسلم عورتوں کا دن دہاڑے کس کی حکومت نے گولی مار کر انکاؤنٹر کروایا تھا! یہ سب کچھ گجرات میں مودی حکومت کے ناک کے نیچے ہوا اور تب مودی جی کو مسلم خواتین کے حقوق کی یاد نہیں آئی۔
اس لیے مودی جی کو اس وقت مسلم خواتین کے حقوق کا درد اٹھا ہوا ہے یہ محض ایک چھلاوا ہے اور کچھ نہیں۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ مودی جی طلاق ثلاثہ کے خلاف سخت سے سخت قدم اٹھانے کو اس قدر بے چین کیوں ہیں! مودی وہ سیاستداں ہیں جو محض دو نکتہ نگاہ سے سوچتے ہیں۔ اول ان کے لیے چناؤجیتنا سب سے بڑی سیاست ہے۔ دوسرے وہ کٹر ہندوتو وادی ہیں اور ہندوتوا ایجنڈا کو لاگو کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ نریندر مودی چناؤ جیتنے کے لیے ہمیشہ ایک ہندو ووٹ بینک بنانے کے لیے مسلم حوا کھڑا کرتے ہیں۔ کبھی یہ کام وہ ڈھکے چھپے انداز میں کرتے ہیں اور کبھی کبھی یہی کام وہ بڑی بے شرمی سے کھلے بندوں کرتے ہیں۔ مثلاً حالیہ گجرات اسمبلی چناؤ میں گجرات جیتنے کے لیے انھوں نے جھوٹ سچ کی حدیں پار کر احمد پٹیل کو گجرات کا وزیر اعلیٰ بنانے کی بات چھیڑی۔
الغرض وہ اپنے کو ہر چناؤ میں سب سے بڑا ہندو مفاد کا لیڈر پروجیکٹ کر ووٹر کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ وہی مسلمان کو ٹھیک کر سکتے ہیں۔ طلاق ثلاثہ کو قانون کے ذریعہ ختم کر مودی جی مسلم خواتین کے حقوق کے لیے کارگر نہیں بلکہ اس کے ذریعہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ واحد لیڈر ہیں جو طلاق ثلاثہ ختم کر اس ملک میں چار شادیاں کر مسلم آبادی بڑھانے والے مسلمانوں کو سبق سکھا رہے ہیں۔ آر ایس ایس کا اس سلسلے میں یہی ماننا ہے۔ اس طرح آر ایس ایس بھی خوش ہو جائے گی اور مودی اور سنگھ کا ایک اور ہندوتوا ایجنڈا بھی نافذ ہو جائے گا۔
دراصل گجرات چناؤ کے وقت سے مودی گھبرائے ہوئے ہیں۔ ان کو اب صاف نظر آ رہا ہے کہ چناؤ جیتنا اب ان کے لیے کار دارد ہوتا جا رہا ہے۔ ان کا چناؤ جیتنے کا واحد فارمولہ ہندو ووٹ بینک ہے۔ اس لیے وہ جلدی میں ہیں کہ وہ کسی طرح اپنے کو سب سے بڑا ’ہندو ہتیشی‘ ثابت کریں۔ طلاق ثلاثہ بل مودی کی اسی حکمت عملی کی ایک کڑی ہے جس کا مسلم خواتین کے حقوق سے کچھ لینا دینا قطعاً نہیں ہے۔ کیونکہ مودی اور مسلم مفاد دو الگ راستے ہیں خواہ وہ مسلم مردوں کا مفاد ہو یا مسلم خواتین کے حقوق کی جدوجہد۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 04 Jan 2018, 7:29 PM