لوک سبھا انتخاب 2024: ہریانہ میں کسانوں کے سوالات سے بی جے پی-جے جے پی کے چھوٹ رہے پسینے، معافی مانگنے تک پہنچی نوبت

ہریانہ میں ساڑھے چار سال تک ساتھ رہی بی جے پی و جے جے پی کی پیشانی پر کسانوں کی مخالفت نے پسینہ لا دیا ہے، ان دونوں پارٹیوں کے امیدواروں کو کسان گاؤں میں گھسنے بھی نہیں دے رہے۔

<div class="paragraphs"><p>سوشل میڈیا</p></div>

سوشل میڈیا

user

دھیریندر اوستھی

ہریانہ میں اب کسان برسراقتدار طبقہ سے لگاتار سوالات پوچھ رہے ہیں۔ بی جے پی ہی نہیں، جے جے پی لیڈروں سے بھی سوالات ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے ان دونوں پارٹیوں کے پسینے چھوٹ رہے ہیں۔ کسان سوال کر رہا ہے کہ اس کی راہ میں کیلیں کیوں بچھائی گئیں؟ اس پر آنسو گیس کے گولے کیوں داغے گئے؟ لاٹھیاں کیوں برسائی گئیں؟ وہ شہید ہوتے رہے اور حکومت تماشہ دیکھتی رہی؟ ریاستوں کی سرحدوں کو ہند-پاک سرحد کیوں بنا دیا گیا؟ کسان کہہ رہا ہے کہ اب میرا وقت ہے، لہٰذا لوک سبھا انتخاب کی تشہیر کے لیے بی جے پی-جے جے پی لیڈران کا گاؤں میں گھسنا مشکل ہو گیا ہے۔ نوبت معافی مانگنے تک آ گئی ہے، لیکن کسان تو جواب مانگ رہے ہیں۔

ہریانہ کے اقتدار میں ساڑھے چار سال تک ساتھ رہی بی جے پی اور جے جے پی کی پیشانی پر کسانوں کی مخالفت نے پسینہ لا دیا ہے۔ کسان گاؤں میں انھیں گھسنے نہیں دے رہے ہیں۔ تقریباً روزانہ ہنگامہ ہو رہا ہے۔ اس کے باوجود بی جے پی کا رویہ حیران کرنے والا ہے۔ وزیر اعلیٰ نائب سنگھ سینی انھیں غنڈہ اور شورش پسند کہہ رہے ہیں۔ ہسار سے بی جے پی امیدوار رنجیت سنگھ چوٹالہ نے ان کسانوں کو خالصتان حامی کہہ ڈالا۔ وزیر اعلیٰ کی ریلی میں خالی کرسیاں دکھانے پر ایک صحافی کے خلاف پولیس میں شکایت دے دی گئی۔ جے جے پی کا رویہ بھی حیرت میں ڈالنے والا ہے۔ اقتدار سے باہر کا دروازہ دکھا دینے کے باوجود وہ کبھی کسانوں کو دھمکا رہی ہے تو کبھی معافی بھی مانگ رہی ہے۔ ہریانہ میں بنے حالات بی جے پی-جے جے پی کی بے چینی بڑھا رہے ہیں۔ ہسار کے نارنوند کے گاؤں بڈانا کے سوشل میڈیا میں وائرل ہوئے پوسٹر کی عبارت ان حالات کی تصدیق کر رہے ہیں۔ وائرل پوسٹر میں لکھا گیا تھا کہ گاؤں بڈانا یہ اعلان کرتا ہے کہ ہمارے گاؤں میں بی جے پی-جے جے پی لیڈروں و کارکنوں کا آنا سخت منع ہے۔ بی جے پی شہید کسانوں کی قاتل اور جے جے پی کسان قوم کی غدار ہے۔ پوسٹر میں لکھے یہ الفاظ ساڑھے چار سال کی حکومت کے خلاف ناراضگی کا اظہار ہے۔ نارنوند کے ہی گاؤں ڈاٹا میں روگھی کھاپ کے چبوترے پر ہوئی پنچایت میں دیہی عوام نے فیصلہ کیا کہ بی جے پی اور جے جے پیلیڈران کو گاؤں میں نہیں گھسنے دیا جائے گا۔ کسانوں کو دہلی جانے سے جس طرح روکا گیا اسی طرح اب ان پارٹیوں کے لیڈروں کو بھی گاؤں میں نہیں گھسنے دیا جائے گا۔


5-4 اپریل سے ہریانہ میں شروع ہوئی مخالفت کا یہ سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ 5 اپریل کو سابق نائب وزیر اعلیٰ دُشینت چوٹالہ کو نارنوند کے گاؤں ناڑا میں سیاہ پرچم دکھانے کے بعد گاؤں گامڑا میں گھسنے نہیں دیا گیا تھا۔ کچھ نوجوانوں کی دُشینت چوٹالہ کے ساتھ بحث بھی ہوئی تھی۔ ناراض کسانوں کا کہنا تھا کہ دُشینت نے ان سے کہا کہ تم میرے سامنے سیاست کرو گے؟ لیڈر بنو گے؟ ان کسانوں کا کہنا تھا کہ بی جے پی کو جمنا پار کرنے والے اقتدار کے لالچ میں ان کی گود میں بیٹھے رہے۔ جب بی جے پی نے باہر کا راستہ دکھا دیا تو آج ان کو گاؤں کے لوگوں کی یاد آئی ہے۔ کسانوں کا کہنا تھا کہ سابق وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر و دُشینت چوٹالہ نے ریاست کی سرحدوں پر کنٹیلی تاریں و دیواریں بنا کر ایک ہی ملک میں رہنے والے لوگوں کے لیے سرحد بنا دیا۔ دُشینت کا مرچ پور، کوتھ خرد، کوتھ کلاں، ناڈا، غیبی نگر، ہیبت پور، راکھی شاہ پور، راکھی گڑھی، گورانا، ڈاٹا، خان پور، سندھڑ وغیرہ گاؤں میں پروگرام تھا۔

فتح آباد کے رَتیا میں وزیر اعلیٰ نائب سینی کی مخالفت کرنے پہنچے 100 سے زائد کسانوں کو پولیس نے حراست میں لے لیا۔ ان کسانوں کو وزیر اعلیٰ نے شورش پسند کہہ دیا، جس کی مخالفت میں پگڑی سنبھال جٹّہ کسان سنگھرش سمیتی کے ریاستی صدر مندیپ نتھوان کی قیادت میں بڑی تعداد میں کسانوں نے تھانہ میں شکایت دی۔ کسانوں کا کہنا تھا کہ جمہوری ملک میں کسان وزیر اعلیٰ سے 18 سوال پوچھنے آئے تھے، لیکن وزیر اعلیٰ ان سے نہیں ملے۔ رَتیا ریلی میں خالی کرسیاں دکھانے پر صحافی کے خلاف دی گئی شکایت کو لے کر بھی کسانوں نے اعتراض ظاہر کیا۔ فتح آباد کے ہی ٹوہانا میں بھی وزیر اعلیٰ کی ریلی سے پہلے بڑی تعداد میں کسانوں کو حراست میں لیا گیا۔ فرید آباد میں پارٹی کے یومِ تاسیس سے متعلق پروگرام میں وزیر اعلیٰ نے تنبیہ کے انداز میں ریاست میں غنڈہ گردی کرنے والوں سے سدھر جانے کی گزارش کر دی۔ ساتھ میں یہ بھی کہا کہ نہیں تو یہ سدھار بھی ہم ہی کریں گے۔ یہ مانا گیا کہ وزیر اعلیٰ یہ تنبیہ کسانوں کو دے رہے تھے۔ ہسار کی اُکلانا اناج منڈی میں ’سنکلپ ریلی‘ میں حصہ لینے آ رہے وزیر اعلیٰ کی مخالفت کرنے نکلے کسانوں کو سوریوالا چوک پر حراست میں لیا گیا۔ کسان لیڈر سردانند راجلی کا کہنا تھا کہ وہ وزیر اعلیٰ سے یہ جاننا چاہتے تھے کہ کسان تحریک میں 750 کسانوں کی موت کا ذمہ دار کون ہے۔


ہسار کے نلوا حلقہ کے کیمری گاؤں میں وجئے سنکلپ ریلی میں تقریر کر رہے سابق وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر سے سوال پوچھنے پہنچے کسانوں کو بھی پولیس نے حراست میں لے لیا۔ علاوہ ازیں بروالا میں بی جے پی امیدوار رنجیت سنگھ چوٹالہ کے لیے ووٹ مانگنے گئے منوہر لال سے سوال پوچھنے آ رہے کسانوں کو بھی حراست میں لیا گیا۔ یہاں سنیوکت کسان مورچہ کے لیڈروں کا کہنا تھا کہ جو کسان بروالا منڈی گیہوں بیچنے آئے تھے، ان کو بھی پولیس نے گرفتار کر لیا۔ اس کا جواب وہ انتخاب میں ووٹ کی چوٹ سے دیں گے۔

ہسار لوک سبھا سیٹ سے بی جے پی امیدوار رنجیت سنگھ چوٹالا کی بھی مخالفت ہو رہی ہے۔ اگروہا کے گاؤں شیام سکھ میں کسانوں کی نعرہ بازی سے ان کے جلسہ میں ہنگامہ ہو گیا۔ رنجیت چوٹالا کو تقریر ادھوری چھوڑ کر جانا پڑا۔ اسی طرح کنوہ گاؤں میں مقامی لوگوں کی مخالفت کو دیکھتے ہوئے رنجیت سنگھ چوٹالہ پروگرام میں پہنچے ہی نہیں۔ گاؤں کولیری، شیام سکھ، کرمارا، اگروہا، سبرواس، ننگ تھلا وغیرہ میں بھی ان کی زبردست مخالفت ہو چکی ہے، جبکہ نارنوند میں بی جے پی الیکشن آفس میں کارکنان کی میٹنگ لینے سے پہلے کسانوں کو حراست میں لے لیا۔ رنجیت چوٹالا نے کسانوں کو ایک جگہ خالصتان حامی کہہ دیا۔


روہتک ہوک سبھا سے بی جے پی امیدوار اروند شرما کی بھی مخالفت ہو رہی ہے۔ کوسلی اسمبلی حلقہ کے گاؤں سدھرانا میں دیہی عوام نے ان سے کہا کہ رکن پارلیمنٹ محترم الیکشن جیتنے کے پانچ سال بعد دیدار کرا رہے ہیں! دیہی عوام کی نعرہ بازی کے سبب آخر کار اروند شرما کو وہاں سے واپس لوٹا پڑا۔ کوسلی اسمبلی حلقہ میں 74 ہزار 980 ووٹوں کی ملی لیڈ سے ہی اروند شرما کو محض 7 ہزار ووٹ سے جیت نصیب ہوئی تھی۔ روہتک کے گاؤں سیمان اور گاؤں بھینی سرجن (بڑالی) میں بھی ان کی زبردست مخالفت ہوئی۔ انھیں کسانوں نے سیاہ پرچم دکھائے۔ مخالفت کے سبب انھیں اپنی تقریر درمیان میں ہی چھوڑ کر واپس لوٹنا پڑا۔ سونی پت سے بی جے پی امیدوار موہن لال بڑولی کو روہنا گاؤں میں کسانوں نے سیاہ پرچم دکھائے۔ چوپال میں چل رہے پروگرام میں بھی ان کو حصہ لینے سے روکا گیا۔ اس سے پہلے جیند کے نند گڑھ گاؤں میں بھی ان کی مخالفت ہو چکی ہے۔ لوگوں نے ان کو وہاں بولنے تک نہیں دیا تھا۔

جے جے پی کی مشکلات کچھ زیادہ ہی بڑھی ہوئی ہیں۔ وجود کے بحران سے نبرد آزما پارٹی کو کسانوں کی مخالفت بہت مہنگی پڑتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ جے جے پی کے قومی صدر اجئے چوٹالہ بھیوانی کے بوانی کھیڑا حلقہ میں گاؤں کے دورے پر تھے۔ گاؤں کنگڑ میں زبردست مخالفت کے سبب جے جے پی سپریمو کو بالآخر واپس لوٹنا پڑا۔ کسانوں کا کہنا تھا کہ انھیں کنگڑ تو کیا، بوانی کھیڑا کے کسی بھی گاؤں میں نہیں گھسنے دیں گے۔


بھارتیہ کسان یونین کے ترجمان راکیش بینس نے نمائندہ سے خصوصی بات چیت میں کہا کہ کسانوں کی یہ مخالفت تو فطری ہے۔ حکومت نے جس طرح کسانوں پر لاٹھیاں برسائیں، آنسو گیس کے گولے داغے اور ایس ایل آر سے سیدھے فائرنگ کر نوجوان کسان کو موت کے گھاٹ اتارا، اس کے بعد تو اس مخالفت کا سامنا اسے کرنا ہی پڑے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔