شری شری کے ناکام دورے سے تنازعہ بڑھا
ایودھیا مسئلہ کو حل کرنے کی جو کوشش از خود شری شری روی شنکر نے کئی سال پہلے شروع کی تھی اب دوبارہ شروع ہوچکی ہے۔ مگر اشارے یہ مل رہے ہیں کہ سلجھنے کے بجائے ایودھیا کی گتھی مزید الجھ گئی ہے۔خود یو پی کے وزیر اعلی نے بھی واضح کیا ہے کہ اب گفت و شنید کے مرحلے میں کافی دیر ہو چکی ہے اس لئے کسی فارمولے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس طرح سے یوگی نے پہلے ہی ایک جھٹکا شری شری کو دے دیا۔
شری شری روی شنکرعالمی شہرت اور مقبولیت کے روحانی گرو کہے جاتے ہیں اور کروڑوں افراد ان کے بھکت ہیں اور ان کی بڑی قدر و منزلت ہے۔ یو پی کی راجدھانی لکھنو اور ایودھیا کے دوروں کے دوران شری شری خود ہی ایک متنازعہ شخصیت بن کر ابھرے ہیں۔ اب ان کی ثالثی پر انہی کے فرقے کے افراد بہ معنی سادھو-سنتوں کا اعتبار نہیں ہے۔ شری شری نے اپنی مخالفت کو بھانپ لیا ہے اور خود انھوں نے بھی ہتھیار ڈال دیئے ہیں۔ انھوں نے یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ میرے پاس کوئی سمجھوتے کا فارمولہ نہیں ہے لیکن بات چیت بیٹھ کر ہو تو حل کرنے کے دروازے کھلیں گے۔
ایودھیا کے گرم اور سرگرم سادھو-سانتوں میں سے ایک ہیں ڈاکٹر رام ولاس ویدانتی جو بابری مسجد کی مسماری کے ملزمان میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے شری شری کے اس معاملہ میں کود پڑنے پر ہی سوالات کی بوچھار کردی ہے۔ان کے مطابق شری شری غیر سرکاری تنظیموں کے روح رواں ہیں اور بیرون ملک سے فنڈ لاتے ہیں۔ان کے پاس بہت سے پیسے ہیں اور انہوں نے تحقیقات سے بچنے کے لئے اس مسئلہ میں چھلانگ لگا دی اور کہہ دیا ’’جیل ہم گئے، لاٹھیاں ہم نے کھائیں اور مسئلہ حل کرنے کوئی دوسرا پھاند پڑا ہے۔‘‘
ہندوؤں کی جانب سے نرموہی اکھاڑا جو رام جنم بھومی کے مقدمہ میں ایک فریق ہے اسک ے ذمہ دار اور نریندر گری کا صاف صاف کہنا ہے کہ شری شری نوٹنکی کر رہے ہیں۔ان کو اپنے کام سے کام رکھنا چاہئے۔ اب جبکہ مسئلہ لب بام ہے ان کی کسی بھی نئی پہل کو قبول نہیں کیا جائے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ مقدمہ میں جو فریقین نہیں ہیں ان کو اعتماد میں لیا جا رہا ہے، مثلا شیعہ وقف بورڈ اس پورے منظر نامہ میں کہیں نہیں ہے اور اس کو سرکار،پارٹی اور میڈیا کیوں اتنی توجہ دے رہا ہے۔جبکہ سنی سنٹرل وقف بورڈ اس مسئلہ میں پارٹی ہے اور اس کے ذمہ داران سے گفتگو نہیں کی جارہی ہے۔ادھرآل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ذمہ داروں نے شری شری سے جاکر ملاقات و مذاکرات کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ ذاتی طور سے وہ ملاقات کر سکتے ہیں مگر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا جو موقف ہے اسی پر ڈٹے رہیں گے۔
سنی سینٹرل وقف بورڈ: سنی سینٹرل وقف بورڈ کا یہ دعوی ہے کہ وہاں بابری مسجد تھی۔ مسلمانوں کی اس املاک پر زبردستی قبضہ کیا گیا اور ان کو نماز و عبادت سے روکا گیا،بعد میں اس مسجد کو6 دسمبر کو مسمار کردیا گیا۔اس لئے مسلمانوں کو اسی جگہ مسجد تعمیر کرانے کی اجازت دی جائے۔
مجموعی طور سے مسلمانوں کا ہر طبقہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی بات کر رہا ہے اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے موقف کو دہرا رہا ہے۔
شری شری کا دورہ ناکام ہو گیا ہے،مسلمانوں اور سادھو۔سنتوں کے ایک گروہ نے انکی کوشش کی مخالفت کی ہے۔لیکن یہ سوال ابھی بھی جواب طلب ہے کہ آخر شری شری کی بھاگ دوڑ کس کے اشارے پر ہو رہی ہے؟ کیا وزیر اعظم اس کوشش کے پس پشت ہیں یا خود شری شری اپنے کسی مفاد کی خاطر سرکار کو خوش کرنا چاہتے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔