مہاراشٹر: گلے پڑ کر آشیرواد!
اجیت پوار کا گروپ شرد پوار سے آشیرواد ملنے کا دعویٰ کر رہا ہے، لیکن مراٹھی روزنامہ ’سکال‘ کے حالیہ سروے میں عوام شرد پوار کے ہی ساتھ ہے۔
تہذیب و روادی کے دور میں ایک محاورہ ’گلے کا ہار‘ ہوا کرتا تھا جس سے مراد زبردستی کسی کے پیچھے پڑ جانا لیا جاتا تھا۔ موجودہ موقع پرستی کی سیاست میں یہ محاورہ تبدیل ہوکراب ’گلے پڑنا‘ ہو چکا ہے، جس کا مظاہرہ گزشتہ دنوں مہاراشٹر کے ممبئی میں ہوا۔ دراصل ہوا یوں کہ این سی پی کا وہ باغی گروپ جو شرد پوار کو چھوڑ کر شندے و فڑنویس سے ہاتھ ملاتے ہوئے حکومت میں شامل ہو گیا ہے، اچانک جا کر شرد پوار کے پیروں پر گر پڑا۔ دلچسپ بات یہ رہی کہ یہ ملاقات بغیر کسی پیشگی اطلاع کے تھی اور شرد پوار کے قریبی لوگ بھی اس سے لاعلم تھے۔ لیکن نیوز چینل والوں کو اس کی اطلاع قبل از وقت ہو چکی تھی۔ یہی وجہ رہی کہ نیوز چینل والے اپنے اپنے کیمروں کے ساتھ جائے ملاقات کے باہر ان کے منتظر رہے۔ گویا انہیں کسی خاص مقصد کے تحت پہلے سے تعینات کیا گیا ہو۔
لیکن یہ خاص مقصد تھوڑی ہی دیر میں واضح ہو گیا کہ جب میڈیا کے سامنے اجیت پوار کے گروپ نے یہ اعلان کیا کہ وہ شرد پوار سے آشیرواد لینے گیا تھا۔ غالباً اس کے ’آشیرواد لینے‘ کی خبر کے ذریعے شرد پوار کے حامیوں میں یہ تذبذب پیدا کرنا مقصود تھا کہ اجیت پوار و دیگر کی بغاوت کے پسِ پشت شرد پوار کی رضا مندی شامل ہے۔ یہاں یہ بات ملحوظ رہے کہ مہاراشٹر میں آشیرواد کو حمایت کا ہم معنی سمجھا جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح موب لنچنگ و نفرت انگیز بیان بازیوں کے معاملے میں پردھان سیوک کی خاموشی کو ان کی منظوری سمجھی جاتی ہے۔ میڈیا سے بات کرتے ہوئے اجیت پوار نے و پرفل پٹیل نے کہا کہ ’ہم نے پیر پکڑ کر شرد پوار صاحب کا آشیرواد لیا اور ہم بغیر کسی اطلاع کے ان سے ملنے آئے تھے۔ ہم نے پوار صاحب سے گزارش کی کہ این سی پی ایک ساتھ رہے اور مضبوطی سے آگے بڑھے، لیکن انہوں نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا‘۔
لیکن اس ملاقات کے ابھی 12 گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے کہ شرد پوار نے یہ واضح کر دیا کہ انہوں نے اجیت پوار اور ان کے گروپ کو کوئی آشیرواد نہیں دیا ہے۔ شرد پوار نے کہا کہ ’این سی پی کسی بھی حالت میں بی جے پی کی حمایت نہیں کر سکتی۔ بی جے پی تقسیم کی سیاست کرتی ہے جو این سی پی کے نظریے سے قطعاً خلاف ہے، اس لیے حکومت کے ساتھ شامل ہونے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا‘۔ کہا تھا اجیت پوار کا گروپ شرد پوار سے آشیرواد لینے کا دعوی کر رہا تھا اور کہاں یہ کہ شرد پوار نے کسی بھی طرح کے آشیرواد دینے سے صاف انکار کر دیا۔ یہ صورت حال دیکھ کر 1987 میں ڈائریکٹر وجئے ریڈی کی فلم ’جواب ہم دیں گے‘ کا وہ منظر یاد آ جاتا ہے جس میں قادر خان کلکٹر کے دفتر میں بڑے طمطراق سے داخل ہوتے ہیں اور جا کر اس کے قدموں میں گر پڑتے ہیں اور کام کرنے کے وعدے پر ہی اس کے پیر چھوڑتے ہیں۔ اب اگر آٹھ سے دس لوگ ایک ساتھ جا کر کسی بوڑھے شخص کا پیر پکڑ لیں تو اس کی حالت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
اسی گروپ میں ایک لیڈر چھگن بھجبل ہیں جنہیں خوراک و رسد کی وزارت ملی ہے۔ انہوں نے شرد پوار کے قدموں میں گرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارا خیال رکھئے اور ہمیں آشیرواد دیجئے‘۔ اب بھلا ان موقع پرستوں اور ای ڈی و سی بی آئی سے وحشت زدہ لوگوں کو کون سمجھائے کہ کسی کے پیروں میں گر کر معافی تو مانگی جا سکتی ہے، آشیرواد نہیں لیا جا سکتا۔ آشیرواد لینے کے لیے ویسا ’کرم‘ بھی ہونا چاہئے۔ جبکہ یہ تمام لوگ بغاوت کے بعد نہ صرف پارٹی پر قبضے کی باتیں کرتے رہے بلکہ شرد پوار کو للکارتے بھی رہے۔ اب بھلاایسی صورت میں یہ کیسے ممکن تھا کہ شرد پوار اپنی پیٹھ میں چھرا گھونپنے والوں کو معاف کرتے ہوئے آشیرواد بھی دے دیں، سو ہوا بھی وہی کہ شرد پوار نے اجیت پوار گروپ کے دعووں کی صاف طور پر تردید کر دی۔ انہوں نے اس امکان سے بھی انکار کر دیا کہ این سی پی کسی بھی حالت میں بی جے پی کی حمایت کر سکتی ہے۔ شرد پوار کے بیان کے بعد اس باغی گروپ کی خفت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔
بہرحال یہ معاملہ تو شرد پوار کے وفاداروں میں تذبذب پیدا کرنے کے لیے تھا، جس پر شرد پوار نے اپنے بیان سے فل اسٹاپ لگا دیا۔ مگر جس مقصد کے تحت بی جے پی نے اجیت پوار سے بغاوت کرائی تھی وہ مقصد بھی حاصل ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے۔ مراٹھی روزنامہ ’سکال‘، مراٹھی نیوز چینل ’سام‘ اور مراٹھی ویب نیوز ’سرکارنامہ‘ نے اسی طرح کا ایک مشترکہ سروے کیا ہے جس طرح ڈیڑھ ماہ قبل کیا تھا۔ ڈیڑھ ماہ قبل کے سروے میں یہ نتیجہ پیش کیا گیا تھا کہ اگر فی الوقت ریاست میں انتخابات ہو جائیں تو ایم وی اے کی حکومت دوبارہ بن سکتی ہے۔ اس سروے میں بی جے پی سب سے بڑی پارٹی تھی مگر اکثریت ایم وی اے کو مل رہی تھی۔ اس ڈیڑھ ماہ قبل والے سروے کے وقت چونکہ اجیت پوار کی بغاوت نہیں ہوئی تھی، اس لیے ریاست کی سیاسی حالت مختلف تھی۔ اب اجیت پوار کی بغاوت کے بعد دوبارہ سروے کیا گیا ہے، جس کے نتیجے گزشتہ کے نتیجوں سے ملتے جلتے ہیں۔
15 جولائی 2023 کو آئے اس سروے میں ریاست کے تمام اسمبلی حلقوں میں سے 74 ہزار 330 لوگوں کی رائے لی گئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس سروے کا سیمپل سائز کافی بڑا ہے۔ اس سروے میں لوگوں سے سوال کیا گیا کہ آنے والے اسمبلی انتخابات میں آپ کس پارٹی کو منتخب کریں گے؟ تو 26 اعشاریہ 8 فیصد لوگوں نے بی جے پی کو ووٹ دے کر سب سے بڑی پارٹی بنایا۔ لیکن اسی کے ساتھ بی جے پی کے ساتھ جو پارٹیاں ہیں، بشمول شندے کی شیو سینا اور اجیت پوار کی این سی پی، تو انہیں بالترتیب 4 اعشاریہ 9 اور 5 اعشاریہ 7 فیصد لوگوں نے پسند کیا۔ گویا بی جے پی، شندے و اجیت پوار کو کل ملا کر 37.4 فیصد لوگوں نے پسند کیا ہے۔ بی جے پی کے ساتھ اگر مزید چند ایک چھوٹی موٹی پارٹیوں کو شامل کر لیا جائے تو الیکشن کے عین وقت پر اپنے موقف کا اعلان کرتی ہیں تو بھی یہ فیصد 40 سے آگے نہیں جا سکے گا۔
اس کے برخلاف ایم وی اے کی پسندیدگی کی بات کریں تو صرف کانگریس، شیوسینا یو بی ٹی اور این سی پی کو 46.7 فیصد لوگوں نے ووٹ دیا ہے۔ کانگریس کو لوگوں نے 19.1 فیصد، شیوسینا یو بی ٹی کو 12.7 جبکہ شردپوار کی این سی پی کو 14.9 فیصد لوگوں نے پسند کیا ہے۔ ان میں وہ چھوٹی چھوٹی پارٹیاں شامل نہیں ہیں جو ایم وی اے کے ساتھ ہوتی ہیں اور جو 2 سے 4 فیصد ووٹ حاصل کرتی ہیں۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اجیت پوار کی شرد پوار سے بغاوت کے بعد بھی ایم وی اے کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ فڑنویس نے این سی پی کو توڑنے کا مقصد بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایم وی اے کو کمزور کرنے کے لیے ایسا کیا گیا ہے، لیکن ’سکال‘ کے اس سروے سے فڑنویس اپنے مقصد میں بری طرح ناکام ہوتے نظر آتے ہیں۔ ایسی صورت میں اگر پیر پکڑ کر اجیت پوار کا گروپ شرد پوار سے آشیرواد لینے کا دعویٰ کرے تو اس کی سچائی کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں ہوگا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔