رام مندر کے نام پر پھر کھیلی جائے گی نفرت کی ہولی... ظفر آغا
پورے ملک کو سنہ 2019 کے چناؤ سے قبل ایک بار پھر ہندو-مسلم نفرت کی آگ میں جھونکنے کی کوشش ہو رہی ہے تاکہ اس نفرت کی آگ میں عوام کی پریشانیوں سے جڑے تمام سوالات جل کر بھسم ہو جائیں۔
پھر وہی بابری مسجد-رام مندر کی تکرار۔ جی ہاں، 27 ستمبر کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد فوراً یہ شور شروع ہو گیا کہ رام مندر تعمیر کا راستہ اب کھل گیا۔ حالانکہ سپریم کورٹ کے تازہ ترین فیصلے کا رام مندر تعمیر سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس فیصلے کا تعلق محض اس سوال سے تھا کہ آیا اسلام میں مسجد نماز کا ایک اٹوٹ جز ہے کہ نہیں! اس معاملے پر یہ بحث ہونی تھی کہ آیا اس سوال کے جواب کے لیے یہ معاملہ سپریم کورٹ کی آئینی بنچ کو بھیجا جائے کہ نہیں۔ سپریم کورٹ نے اس معاملے میں یہ فیصلہ سنایا کہ اسے آئینی بنچ کے سامنے نہیں بھیجا جائے گا۔ اسی کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ نے یہ بھی واضح کر دیا کہ بابری مسجد ملکیت معاملے کا جو برسہا برس پرانا مقدمہ ہے اس کی سنوائی 29 اکتوبر سے سپریم کورٹ میں شروع ہو جائے گی۔ لیکن سبرامنیم سوامی اور وشو ہندو پریشد کے افراد نے فوراً یہ شور مچانا شروع کر دیا کہ ایودھیا میں بابری مسجد کے جائے مقام پر اب مندر تعمیر کا راستہ کھل گیا۔ جب کہ ایسا قطعی نہیں ہوا ہے۔ بابری مسجد معاملے کا جو پرانا مقدمہ تھا وہ ابھی بھی ویسے ہی برقرار ہے اور اس معاملے میں سپریم کورٹ 29 اکتوبر سے سنوائی شروع کرے گا۔
لیکن سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد دو اہم سوال پیدا ہو گئے ہیں۔ اولاً تو یہ کہ یہ مسجد نماز کا جز ہے کہ نہیں آخر یہ معاملہ کیسے کھڑا ہو گیا! اس سے بھی اہم دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا سنگھ پریوار نے جیسے 1992 میں بابری مسجد ڈھا دی تھی ویسے ہی اب سنگھ پریوار جلد ہی رام مندر تعمیر کا کام شروع تو نہیں کر دے گا!
مسجد اسلام میں نماز کا اٹوٹ حصہ ہے کہ نہیں، یہ سوال 1994 میں جب مسجد انہدام کے بعد نرسمہا راؤ حکومت نے مسجد کی زمین کو گورنمنٹ کے اختیار میں لے لیا تھا، اس وقت پیدا ہوا تھا۔ ایک فاروقی نام کے شخص نے حکومت کے اس فیصلے پر اپیل کر حکومت کے اس قدم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ اس سلسلے میں جو فیصلہ آیا اس میں سپریم کورٹ نے ایک جملہ یہ بھی کہا کہ مسجد نماز کے لیے لازمی نہیں ہے کیونکہ نماز کہیں بھی پڑھی جا سکتی ہے۔ اس لیے حکومت وقت اگر چاہے تو مسجد کی زمین بھی اپنے اختیار میں لے سکتی ہے۔ اس معاملے کی سنوائی پھر سے سپریم کورٹ میں ہوئی اور کورٹ نے اس پر یہ فیصلہ صادر کر دیا کہ اب دوبارہ اس ایشو پر بحث کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ دو ججوں کا فیصلہ یہی تھا، جب کہ جسٹس نظیر کی رائے یہ تھی کہ نہیں، سپریم کورٹ کی آئینی بنچ کو اس معاملے پر پھر سے اپنا فیصلہ دینا چاہیے۔ الغرض اب سپریم کورٹ میں مسجد-نماز کے رشتہ پر بحث نہیں ہوگی۔
لیکن دوسرا سوال سیاسی ہے اور بہت اہم ہے۔ وہ یہ ہے کہ آیا اگلے لوک سبھا چناؤ سے قبل سنگھ پریوار ایودھیا میں رام مندر تعمیر کا کام شروع کر دے گا! اس بات کا واضح امکان نظر آ رہا ہے کہ وشو ہندو پریشد 2019 کے لوک سبھا چناؤ سے قبل رام مندر تحریک کو کسی صورت میں پھر تیز کر دے۔ اس کے بہت اہم سیاسی وجوہات ہیں۔ دراصل مودی حکومت اپنے پچھلے چار سالہ دور میں پوری طرح ناکام ہو چکی ہے۔ مودی کے تمام وعدے جھوٹے ثابت ہو چکے ہیں۔ ملک سخت معاشی بدحالی کا شکار ہے۔ نوجوانوں کو روزگار میسر نہیں۔ جن کے پاس روزگار تھا ان میں سے کروڑوں نوٹ بندی کے بعد بے روزگار ہو گئے۔ ملک کا کسان بدحالی کا شکار ہے۔ دیہاتوں میں معاشی بدحالی پھیل چکی ہے۔ حکومت کی مار سے پریشان کسان آئے دن حکومت کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کر رہا ہے۔ وہ چھوٹے کاروبار جو نوٹ بندی کے وقت بند ہوئے تھے، ان میں سے لاکھوں اب بھی بند پڑے ہیں۔ تاجروں سے اگر بات کرو تو وہ یہی کہتے ہیں کہ بازار مندی کا شکار ہے۔ دوسری طرف ملک میں سماجی سطح پر مسلم اور دلتوں کے ساتھ دوسرے درجے کے شہری جیسا سلوک ہو رہا ہے۔ مسلمان موب لنچنگ جیسے سخت حالات کا شکار ہے تو دلتوں پر گاؤں گاؤں اعلیٰ ذاتوں کا قہر برپا ہے۔ دلت اور مسلم آپس میں مل کر 40-35 فیصد ووٹ بینک ہو سکتا ہے۔ مودی حکومت کے لیے یہ انتہائی پریشان کن بات ہے۔
اس صورت حال میں مودی کو دوبارہ وزیر اعظم بنایا جائے تو کیسے بنایا جائے۔ سنگھ پریوار کے سامنے سب سے اہم سوال یہی ہے! نریندر مودی خود یہ اعلان کر چکے ہیں کہ وہ سنہ 2024 تک اس ملک کے وزیر اعظم رہیں گے۔ لیکن ملک کے جو معاشی اور سماجی حالات ہیں ان حالات میں مودی کے لیے پھر سے برسراقتدار آنا بہت ہی مشکل نظر آتا ہے۔ لیکن سنگھ اور مودی اس بات پر اٹل ہیں کہ مودی ہی ملک کے اگلے وزیر اعظم پھر ہوں گے۔ اب اس ٹارگیٹ کو حاصل کرنے کا محض ایک ہی راستہ بچتا ہے، اور وہ یہ کہ پورے ملک کو سنہ 2019 کے چناؤ سے قبل ایک بار پھر ہندو-مسلم نفرت کی آگ میں جھونک دو کیونکہ اس نفرت کی آگ میں عوام کی پریشانیوں سے جڑے تمام سوالات جل کر بھسم ہو جائیں گے۔ نہ تو کسان کسان رہے گا، نہ ہی دلت دلت بچے گا، اور نہ نوجوانوں کو بے روزگاری کا سوال ستائے گا۔ بس وہ رام مندر کے نام پر مسلمان کی نفرت میں ہندو بن جائے گا اور سب کو مودی پھر سے ہندو مسیحا نظر آئے گا اور وہ مندر کے نام پر بی جے پی کو سنہ 2019 میں ’تھینک یو‘ ووٹ ڈال دے گا۔ اور اس طرح مودی پھر سے وزیر اعظم بن سکتے ہیں اور سنگھ کا ہندو راشٹر کا خواب شرمندۂ تعمیر ہو سکتا ہے۔
کم از کم مجھے اب یہ اندیشہ ہے کہ اکتوبر-نومبر میں ایک بار پھر ’مندر وہیں بنائیں گے‘ جیسے نعروں کے شور میں ڈوب سکتا ہے تاکہ 2019 کا لوک سبھا چناؤ نفرت کی سیاست کے نام ہو سکے۔ اگر ایسا ہوا تو پھر ہندوستان آنے والے برسوں میں کیا رخ اختیار کرے یہ کہنا ابھی مشکل ہے۔ لیکن رافیل معاملے میں پھنسے مودی کے پاس فی الحال نفرت کی سیاست کے سوائے کامیابی کا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ اور اس کا فی الحال سب سے آسان نسخہ رام مندر تعمیر ہی نظر آ رہا ہے۔ اس لیے سنہ 2019 کے چناؤ سے قبل رام مندر تحریک کا زور پکڑنا لازمی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 28 Sep 2018, 7:07 PM