’ہندوتوا‘ نے ایک بار پھر بی جے پی کو فتح سے ہمکنار کیا!

ہندوتوا کےایجنڈے پر جس طرح بی جے پی آگے بڑھ رہی ہے اس کو ناکام بنانے کے لیے ایک کارگر حکمت عملی کی اشد ضرورت ہے۔ ایسا کر کے ہی ’ہندوتوا‘ جیسے مضبوط قلعہ کو مسمار کیا جا سکے گا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

علی حیدر

گجرات اور ہماچل پردیش کے اسمبلی انتخابات کے نتائج برآمد ہو چکے ہیں اور اس بات پربحث ومباحثہ ہو رہا ہے کہ گجرات میں اگر جی ایس ٹی اور نوٹ بندی سے عوام پریشان تھی تو بی جے پی فتحیاب کیسے ہوئی اور کیوں ہوئی؟ ایک بڑا سوال یہ بھی ہے کہ 22سال سے بی جے پی اقتدار میں ہے، اس کے خلاف شدید ناراضگی بھی ہے اور سونے پہ سہاگہ جی ایس ٹی اور نوٹ بندی جیسے مدے بھی پھن پھیلائے بی جے پی کو ڈسنے کے لئے تیار تھے تو بی جے پی کو اکثریت کیسے حاصل ہو گئی۔سبھی کہہ رہے تھے کہ عوام کی ناراضگی بھی عروج پر ہے ، سورت جیسے شہر سے اس طرح کی خبریں بھی آرہی تھیں کہ بی جے پی امیدوار وں کو انتخابی تشہیر تک نہیں کرنے دی جا رہی ہے ، وزیر اعظم نریند مودی کی انتخابی ریلیوں میں کر سیاں تک خالی ہونے کی خبریں سرخیاں بنیں، بی جے پی صدر امت شاہ کو سورت شہر کی کئی ریلیاں منسوخ تک کرنی پڑ گئیں، لوگوں کو پیسے اور فیکٹری مالکان کو حکم نامہ کے ذریعہ بھیڑ اکٹھا کرنے کے لیے احکامات بھی صادر کیے گئے، اس کے باوجود آخر ایسا کیا ہوا کہ سورت شہر کی ایک سیٹ چھوڑ کر سبھی بی جے پی کے حصے میں چلی گئیں!

اگر سورت شہر میں ہوئے گزشتہ دو تین مہینوں کے واقعات سے متعلق خبریں حقیقت پر مبنی تھیں تو بی جے پی کو یہاں 16 میں سے 15 سیٹیں ملنا حیرت سے کم نہیں ۔ شاید وہاں کی عوام بھی حیرت زدہ ہو ،اور ان کا سیدھا شک ای وی ایم مشین پر ہی جائے گا۔ شک ہو نا بھی چاہئے کہ جب بی جے پی مخالف ماحول نظر آ رہا ہے اور خبریں گشت کر رہی ہوں کہ اس بار بی جے پی کا سورت سے صفایا ہو نا طے ہے تو پھر ای وی ایم سے بی جے پی کے حق میں ووٹ نکلنا حیران کن ہوگا ہی۔ کون ہوگا جو اس بات سے فکر مند نہ ہوگا۔ یا پھر یہ سمجھا جائے کہ وہاں کی اکثریت عوام پر ہندوتوا کا بھوت سوار ہو گیا ہے اور آخر وقت میں اس کو صرف ہندوتوا ہی نظر آیا اور اسی سوچ کے مد نظر اس نے بی جے پی کو ووٹ دے دیا۔الیکشن کمیشن سے منسلک موجودہ اور سابق افسران جس طرح سے ای وی ایم پر اعتماد ظاہر کرنے والے بیانات دے رہے ہیں اس سے تو گجرات میں بی جے پی کی فتح کی اصل وجہ ’ہندوتوا‘ ہی معلوم ہو رہی ہے۔ اور اگر یہی سوچ آگے بھی جاری رہی تو پھر بی جے پی کو شکست دینا محال ہی نہیں ناممکن ہو جائے گا۔

2014سے جب سے بی جے پی نریند مودی کی قیادت میں مرکزی حکومت پر قابض ہو ئی ہے ہندوتوا کا بول بالا ہے ۔اب تو اکثر فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا پر اس طرح کی پوسٹ کی بھر مار ہو گئی ہے جس میں لکھا ہوتا ہے کہ ’’قسم ہےتمہیں ہندو ہونے کی اس پوسٹ کو اتنا شیئر کرو کہ ہر ہندو تک پہنچ جائے ‘‘۔ کچھ پوسٹ میں تواس سے بھی بڑھ کر لکھ دیتے ہیں، مثلاً’’ قسم ہے بھارت ماتا کی، قسم ہے تمہاری ماں کی، قسم ہے شری رام کی‘ ‘ وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح کے پوسٹ سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ لوگوں کے ذہنوں میں کس قدر زہر گھولا جا رہا ہےاورسیکولر ہندوؤں کو نام نہاد ہندوتوا کی طرف گامزن کر نے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

میں کل فیس بک پر ایک پوسٹ دیکھ رہا تھا کہ ایک شخص جس کے سر پرکالی ٹوپی جیسی کو ئی شئے ہے ، دیکھنے میں ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ وہ شخص جیسے مسلمان ہو جو ایک لنگوری بند ر کو بے دردی سے پیٹ رہا ہے۔ اس کو طرح طرح کی اذیتیں بھی پہنچا رہا ہے۔ اس پوسٹ پر اسی طرح کے کمنٹس آنے لگے جیسا کہ میں اوپر ذکر کر چکا ہوں ۔ مگر آج جب پھر میں فیس بک دیکھ رہا تھا تو پتہ چلا کہ اس شخص کا نام پون ہے جو کہ گرفتار ہو چکا ہے اس کے ساتھ میں دو نابالغ بچے بھی گرفتار ہوئے ہیں۔

آپ خود ہی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ شخص جوصرف نمائش کے لیے ٹوپی لگائے تھا تو نام نہاد ہندوتوا کےلوگوں نے اس کو صرف اس لئے برا بھلا کہنا شروع کر دیا کہ وہ مسلمانوں جیسا نظر آرہا تھا ، ایسے کئی معاملات اکثر سوشل میڈیا پر گردش کرتے رہتے ہیں۔ اس طرح کے پوسٹ سے ہمیں ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ ایسے پوسٹ کے ذریعہ مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کی کوشش کی جاتی ہے۔ جب اس طرح کی خبریں منظر عام پر لا ئی جائیں گی تو وہ ہندو جو ابھی تک سیکولر تھا ایسی پوسٹ سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ اگر یہ سلسلہ جاری و ساری رہتا ہے تو ہندوتوا کو فروغ ملنا ضروری ہے ، پھر اس کا نتیجہ وہی ہو گا جیسا کہ گجرات کے سورت و دیگر شہروں میں نظر آیا۔

لوگوں کو بھرم میں نہیں رہنا چا ہئے کہ ای وی ایم مشین میں گڑ بڑی ہے بلکہ ہندوتوا اپنے شبا ب پر ہے۔ جب تک رام مند رنہیں بن جاتا ہندوتوا میں اضافہ ہوتا رہے گا ۔ بی جے پی بھی جلد بازی میں نہیں ہے کیوں کہ اسے 2019 کا الیکشن اسی ہندوتوا ایجنڈے پر لڑنا ہے۔ بی جے پی کی مسلمانوں کے خلاف طرح طرح کی مکاریاں اور عیاریاں جاری ہیں اور یہ جاری رہے گا۔ یہ اسی طرح ہندوتوا کے ایجنڈے کو بڑھا تا رہے گا۔

گجرات الیکشن میں کانگریس کی حکمت عملی شروع میں تو کامیاب رہی کہ اس نے ہر ذات کے لوگوں کو اپنے ساتھ ملا کر رکھا۔ لیکن 22 سالوں سے گجرات میں ہندوتوا کی جڑیں جس قدر لوگوں کے اندر پیوست ہو چکی ہیں اور اس ایجنڈے پر جس طرح بی جے پی آگے بڑھ رہی ہے اس کو ناکام بنانے کے لیے ایک کارگر حکمت عملی کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسا کر کے ہی ’ہندوتوا‘ جیسے مضبوط قلعہ کو مسمار کیا جا سکے گا۔

اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔