ریت میں سر چھپانے سے خطرہ نہیں ٹَل جاتا پردھان سیوک جی!... اعظم شہاب
گودی میڈیا ملک میں مسلمانوں کو کرونا وائرس پھیلانے کا ذمہ دار قرار دے رہی ہے، لیکن کرونا کو اس سے قطعی دلچسپی نہیں ہے کہ کون ہندو ہے اور کون مسلمان۔ اس لیے مودی جی آگے بڑھیے اور ملک کو سہارا دیجیے۔
بہت ممکن ہے کہ جب آپ تک یہ تحریر پہونچے توملک ’لائیٹ آف، کینڈل آن‘ کا ایونٹ مناچکا ہو۔ کرونا وائرس کے اس قہر زدہ ماحول میں یہ ضروری بھی تھا کہ اپنے اپنے گھروں میں مقید لوگوں کے لیے کچھ تفریح کا سامان کیا جائے سو ہمارے پردھان سیوک نے یہ موقع فراہم کر دیا۔ 22 مارچ کی تالیوں و تھالیوں کی توضیح میں ابھی تک الجھی ہوئی عوام کے لیے اب کئی ہفتوں کی خوراک مل گئی ہے کہ وہ قومی میڈیا پر اس کے ضروری اور انتہائی ضروری بحث سے لطف اندوز ہو۔ سوشل میڈیا و نیوز چینلوں پرتالیوں اور تھالیوں کو جس طرح کچھ مہارتھی قسم کے لوگ ’دھوونی وگیان‘ قرار دیتے نہیں تھک رہے تھے، اسی طرح اس قندیل جلاؤ ایونٹ کو بھی ’پرکاش وگیان‘ قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان تمام وگیانوں اور وگیانیوں کی موجودگی کے باوجود کرونا وائرس سے متاثرین کی تعداد ساڑھے تین ہزارتک پہنچنے کو ہے۔
جو لوگ اسے پرکاش وگیان قرار دے رہے ہیں، ان سے بس پوچھنا یہ ہے کہ کیا کرونا کی آمد سے قبل ملک اندھیرے میں غرق تھا کہ چراغ کی روشنی سے وہ خوف زدہ ہوکر بھاگ جائے گا؟ کیا مودی جی کے اس پرکاش وگیان سے چین، اٹلی، اسپین اور سب سے بڑھ کر مودی جی کے پرم متر محترم ٹرمپ صاحب واقف نہیں ہیں کہ وہ اسے اپنے یہاں بھی آزمائیں؟ کیونکہ یہ لوگ ہم سے زیادہ کرونا سے متاثر ہیں۔ یہ کون سا وگیان ہے کہ اپنے گھروں کی لائٹ بجھا کر چراغ جلایا جائے؟ روشنی تو بہر حال روشنی ہوتی ہے، چاہے وہ بجلی کی ہو یا چراغ کی۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو دیوالی کے موقع پر الکٹرک چراغوں سے ہمارے گلی محلے نہ سجتے۔
کہا جا رہا ہے کہ ان چراغوں کی روشنی سے ایسی توانائی خارج ہوتی ہے جو ہمارے اطراف کے ماحول میں موجود منفی اثرات کو زائل کردے گی۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ دعویٰ کتنا درست ہے، البتہ میں یہ ضرور جانتا ہوں اور اس کا شاہد بھی ہوں کہ میرے پڑوس میں ایک شرماجی رہتے ہیں جن کی اہلیہ روزآنہ شام کو اپنی دہلیز پر دیا جلاتی ہیں۔ مجھے یہاں آکر چار سال ہونے کو ہیں، ان چار سالوں میں مجھے ان کے دیے کا اس کے علاوہ کوئی مثبت پہلو نہیں نظر نہیں آیا کہ شرمائین جی کی ساری توانائی بچوں پر چیخنے چلانے اور مارنے وبھگانے میں ہی صرف ہوتی ہے۔ اگر قندیل روشن کرنے کی تقریب سے ملک کو واقعتاً کوئی فائدہ ہوسکتا ہے تو وہ میرے نزدیک 9 منٹ تک صرف ہونے والی بجلی کی تھوڑی بچت ہے۔ لیکن اس بجلی بچت کے ’مثبت پہلو‘ کے خطرے سے مہاراشٹر کے وزیر توانائی ڈاکٹر نتن راؤت یہ کہتے ہوئے آگاہ کرچکے ہیں کہ ’ گِریڈ میں اچانک بجلی کی کمی یا زیادتی کے سبب فریکوینسی کے فیل ہوجانے کا امکان ہے‘۔
اب پردھان سیوک جی ذرا کچھ باتیں آپ سے اس یقین کے ساتھ یہ آپ تک نہیں پہنچ پائیں گی۔ آپ کی اپیل پر 22 مارچ کو پورے ملک نے تالیاں بجائیں، تھالیاں بجائیں، گھنٹیاں بجائیں یہاں تک کہ شنکھ تک بجائے لیکن ان سب کے حاصل کو اگر ’گھنٹا‘ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ آپ نے پہلے جنتا کرفیو کی اپیل کی تھی لیکن آپ کی ہی ریاست گجرات میں اس کا جشن سڑکوں پر گربہ کھیل کر منایا گیا۔ یہ کون سا جنتا کرفیو تھا پردھان سیوک جی اور یہ کون سی اپیل تھی کہ جس میں خوشی میں آپ کی ہی ریاست کے لوگ آپے سے باہر ہوگئے؟ سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ ملک کے عوام کو اتنا بیوقوف کیوں سمجھتے ہیں۔ آپ کی اپیل پر تو ملک کے عوام تالیاں اور تھالیاں پیٹ دیتی ہے لیکن آپ کا جو کام ہے وہ کرنے کے بجائے آپ لوگوں سے دیے جلوا رہے ہیں۔
آپ نے کرونا سے لڑنے والے جن ڈاکٹروں کو شکریہ کہنے کے لیے تالیاں وتھالیاں بجوائی تھیں، کیا ان کی بھی کچھ خبر ہے آپ کو؟ آج پورے ملک میں جو ڈاکٹر کرونا وائرس سے ہراول دستے کے طور پر لڑ رہے ہیں، جو میڈیکل اسٹاف رات دن مریضوں کو صحتیاب کرنے کی کوشش کررہا ہے، آج اس کے پاس پی پی ای یعنی کہ Personal protective equipment تک نہیں ہے۔ کرونا وائرس کی جانچ کے لیے جو ٹیسٹنگ کِٹ ہونی چاہیے اس کی شدید قلت ہے۔ آپ کے حکومت کے ساتھی اور بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے آپ سے چار لاکھ ٹیسٹنگ کِٹ کا مطالبہ کیا تھا، انہیں صرف دو ہزار دی گئی ہیں۔ کرونا کے مریضوں کے لیے جن وینٹی لیٹر کی ضرورت ہوتی ہے وہ مارچ کے دوسرے ہفتے تک آپ کی حکومت ایکسپورٹ کرتی رہی ہے۔ آج پورے ملک میں کرونا کے مریضوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور وینٹی لیٹر کی سخت قلت ہے۔ کیرالا کے وزیراعلیٰ نے کرونا سے لڑنے کے لیے بیس ہزار کروڑ روپیے کا فنڈ مختص کیا ہے اورآپ کی توجہ بیس ہزار کروڑ روپے کا پارلیمنٹ ہاؤس بنانے پر ہے۔
کیا آپ کو خبر ہے کہ جو عوام آپ کی ایک اپیل پر اپنے عقل کے دروازے بند کرکے لبیک کہہ دیتی ہے اسے عام دنوں میں دس روپیے میں ملنے والے ماسک کی قیمت پچاس روپیے تک دینی پڑ رہی ہے۔ سو ملی لیٹر کے سینیٹائزر کی بوتل حاصل کرنے کے لیے دو سے تین سور روپیے دینے پڑ رہے ہیں۔ ہینڈ واش کی بوتل بازار میں کہیں دستیاب نہیں ہے۔ شہروں میں پھنسنے والے مزدوروں تک مفت میں راشن پہنچانے کی بات تو کی جا رہی ہے لیکن وہ کہاں کہاں پھنسے ہوئے ہیں، اس کے بارے میں حکومتوں کے پاس کوئی ٹھوس جواب نہیں ہے۔ لاک ڈاؤن کے سبب دہلی و ممبئی جیسے بڑے شہروں میں پھنسے ہوئے مزدور جب پیدل اپنے اپنے وطن کے لیے نکل کھڑے ہوئے تو آپ کو بغیر تیاری کے لاک ڈاؤن کی سنگینی کا اندازہ ہوا۔ اور جب آپ اس کا کوئی حل نہیں نکال سکے تو کرونا جیسے سیکولر وائرس کو بھی ٹوپی پہنوا کر مسلمان بنا دیا؟ کیا یہی کسی مستحکم حکومت کی کسی وبائی بیماری سے نمٹنے کا عزم وحوصلہ ہے جس کا آپ نے مظاہرہ کیا؟
پردھان سیوک جی! یہ وقت بھی گزر جائے گا۔ لوگوں نے آپ کے کہنے پر تالیاں وتھالیاں بجائیں، قندیلیں جلائیں۔ اگر آپ کہیں گے تو کل یہی عوام چوبیس گھنٹے لنگوٹ باندھ کر بھی رہ لے گی کیونکہ یہ رشیوں، منیوں کا وگیان ہے۔ لیکن آپ بھی ذرا سوچیے کہ یہ وقت ان ٹوٹکوں کو آزمانے یا ان وگیانوں کی حقیقت جاننے کا نہیں ہے۔ ریت میں سرچھپانے سے خطرہ نہیں ٹل جاتا۔ یہ وقت ملک کو راحت پہنچانے اور کرونا کے خطرے سے باہر نکالنے کا ہے۔ آپ کی میڈیا تبلیغی جماعت کے نام پر پورے ملک میں مسلمانوں کو کرونا وائرس پھیلانے کا ذمہ دار قرار دے رہی ہے، لیکن کرونا وائرس کو اس سے قطعی دلچسپی نہیں ہے کہ کون ہندو ہے اور کون مسلمان۔ اس لیے آگے بڑھیے اور ملک کو سہارا دیجیے۔ ملک کو کرونا سے لڑنے کے لیے کم ازکم پانچ لاکھ کروڑ روپیوں کی ضرورت ہے۔ آج ملک کی تمام ریاستیں اپنے اپنے طور پر کرونا کی اس وبا سے لڑ رہی ہیں، اس میں آپ کی حصہ داری کیا ہے، سوائے ایک لاکھ سترہزار کروڑ کے؟
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 05 Apr 2020, 9:11 PM