آئیے، یوپی میں اپوزیشن کی شکست کے 5 اہم اسباب پر ڈالتے ہیں نظر
تجزیہ کار مانتے ہیں کہ اکھلیش یادو عام ووٹرس اور عوام سے سیدھے جڑنے میں کامیاب رہے، لیکن وہ بی جے پی کی طاقتور انتخابی مشینری اور مودی-یوگی-امت شاہ کی تریمورتی کی کرشمائی اپیل کی کاٹ نہیں نکال سکے۔
بہت زور لگایا، زوردار انتخابی تشہیر کی، ریلیوں اور روڈ شو میں بے شمار بھیڑ بھی جمع ہوئی اور بی جے پی کی ناکامیوں کو بھی لوگوں کے سامنے رکھا۔ لوگوں نے اس پر حامی بھی بھری، لیکن سماجوادی پارٹی کی قیادت میں اپوزیشن کی یہ پالیسی اور تمام کوششیں اتر پردیش میں بی جے پی کی فتح روکنے میں ناکام ثابت ہوئی۔ اس طرح اتر پردیش کے راستے ہندوستان کی سیاست میں تبدیلی لانے اور بھگوا پارٹی کو اقتدار سے بے دخل کرنے کا ایک اور موقع اپوزیشن کے ہاتھ سے نکل گیا۔
1985 سے ہی اتر پردیش میں ووٹر ہر اسمبلی انتخاب میں تبدیلی کے لیے ووٹ دیتے رہے ہیں۔ بھلے ہی وہ ملائم سنگھ یادو ہوں، مایاوتی ہوں یا کوئی اور، یوپی کے ووٹر نے لگاتار دو بار کسی بھی پارٹی کو اقتدار میں آنے کا موقع نہیں دیا ہے۔ لیکن یوگی حکومت نے یہ کر دکھایا اور اس متھ کو توڑ دیا۔ بی جے پی 2017 کے بعد ایک بار پھر اتر پردیش میں حکومت بنانے جا رہی ہے۔ اب تک جو نتیجے اور رجحانات سامنے آئے ہیں، اس سے دو باتیں واضح ہوتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ اپوزیشن عام لوگوں کے ذہن میں اپنی جگہ بنانے اور ان کے جذبات سمجھنے میں ناکام رہی، اور دوسرا یہ کہ ہندو بیلٹ میں ہندتوا کی سیاست کا کوئی ٹھوس متبادل لوگوں کے سامنے نہیں رکھ پائی۔ موٹے طور پر 5 اسباب کا تجزیہ کرتے ہیں جن سے غالباً صاف ہو پائے کہ آخر زبردست بے روزگاری، مہنگائی، کسانوں کی تحریک اور دیگر اہم ایشوز کے باوجود اپوزیشن کیوں ناکام رہا۔
1. کسان تحریک رہی بے اثر
کیا یوپی کے انتخابی نتائج کو کسان تحریک کی ناکامی کہا جائے گا؟ بہت سے لوگ ایسا ہی کہیں گے۔ جس تحریک کو گزشتہ 8-7سال میں بی جے پی کے خلاف سب سے بڑی سماجی تحریک تصور کیا جا رہا تھا، وہی کسان تحریک ان انتخابات میں کوئی بھی اثر ڈالنے میں ناکام رہی۔ کسانوں نے سنیوکت کسان مورچہ کے بینر تلے سال بھر سے زیادہ عرصہ تک تحریک چلائی اور ملک و بیرون ملک میں یہ تحریک سرخی بھی بنی، لیکن اپوزیشن کے لیے کسان ووٹوں کی فصل اگانے میں ناکام ثابت ہوئے۔ کسان تحریک کا ایک اہم چہرہ رہے سوراج انڈیا کے لیڈر یوگیندر یادو کہتے ہیں ’’ہم نے پچ تیار کر دی تھی، لیکن ہم کھلاڑی نہیں تھے۔‘‘
2. اپوزیشن کے ووٹوں کی تقسیم
انتخابی نتائج بی جے پی کے حق میں جانے کی دوسری وجہ اپوزیشن کے حصے میں گئے ووٹوں کی تقسیم ہے۔ اس نے اپوزیشن کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ مغربی اتر پردیش میں بی ایس پی اور اویسی کی اے آئی ایم آئی ایم نے 66 مسلم امیدوار میدان میں اتار دیے۔ ظاہر ہے اس سے سیکولر ووٹوں میں تقسیم ہونی ہی تھی۔ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ اس سے ووٹر کے ذہن میں کشمکش کی حالت پیدا ہوئی اور بی ایس پی کا کٹر ووٹ بی جے پی کے حصے میں چلا گیا۔ نتیجہ اپوزیشن کی شکست کی صورت میں سامنے آیا۔
3. آر ایس ایس کی برابری کی کوئی تنظیم کسی کے پاس نہیں
تجزیہ کار مانتے ہیں کہ اکھلیش یادو عام ووٹرس اور عوام سے سیدھے جڑنے میں کامیاب رہے، لیکن وہ بی جے پی کی طاقتور انتخابی مشینری اور مودی-یوگی-امت شاہ کی تریمورتی کی کرشمائی اپیل کی کاٹ نہیں نکال سکے۔ اس کے ساتھ ہی بی جے پی کی مادری تنظیم آر ایس ایس جیسی تنظیمی طاقت بھی ان کے پاس نہیں تھی۔ حالانکہ چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ اتحاد کر اکھلیش یادو نے تنظیم کی کمزوری کو دور کرنے کی کوشش ضرور کی، لیکن بی جے پی کے خلاف پیدا بے اطمینانی کو وہ ووٹوں میں بدلنے میں ناکام ہو گئے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ’’گھر گھر مہم کے دوران آر ایس ایس کارکنان نے تقریباً ہر گھر پر دستک دی، یوگی حکومت کے فلاحی منصوبوں کے فائدے شمار کرائے، اور یہی بی جے پی کے حق میں کام کر گیا۔‘‘
4. غیر یادو او بی سی پھر بی جے پی کے ساتھ
یوپی میں یادووں کے علاوہ سبھی او بی سی ذاتیں بی جے پی کے ساتھ رہیں، یہ تو نتائج سے واضح ہو گیا۔ بی جے پی نے غیر یادو او بی سی اور غیر جاٹو ووٹوں کا ایک فارمولہ تیار کیا اور اسے کامیابی لائق بنایا۔ بی جے پی کے حق میں یہی فارمولہ 2014، 2017 اور 2019 کے انتخاب میں بھی کام آیا تھا۔
5. ہندوتوا سیاست کی کوئی کاٹ نہیں
اپوزیشن کے پاس بی جے پی کی ہندوتوا سیاست کا کوئی متبادل ہے ہی نہیں۔ حالانکہ اپوزیشن نے بے روزگاری، کووڈ کے دوران ہوئی اموات اور بدانتظامی، بے روزگاری، ملازمتیں جانے، لاک ڈاؤن جیسے اہم ایشوز کی اہمیت لوگوں کے سامنے رکھی، لیکن ہندوتوا کے اثردار پالیسی کے سامنے سارے ایشوز بونے ثابت ہوئے۔ ویسے امت شاہ نے اتر پردیش انتخاب میں تشہیر کی شروعات مغربی اتر پردیش کے کیرانہ سے کی تھی۔ اس دوران حجاب کا بھی تنازعہ سامنے آیا۔ ان سب سے ہندوتوا کی سیاست کو ہوا ملی اور اس کے سامنے اپوزیشن کی ساری پالیسی منہدم ہو کر رہ گئی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔