بی جے پی رہنماؤں کی ’ہیٹ اسپیچ‘ سیاسَت... سہیل انجم
سی ایم یوگی نے سی اے اے کی مخالفت کرنے والوں کو برا بھلا کہتے ہوئے کہا کہ مرد تو گھروں میں سو رہے ہیں رضائی اوڑھ کر اور اپنی عورتوں کو چوراہوں پر بٹھا دیا ہے۔ ان کے اس بیان کی شدید مذمت ہو رہی ہے
عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ بچے جب آپس میں کوئی مقابلے کا کھیل کھیلتے ہیں تو جو بچہ بار بار ہارتا ہے وہ جھنجھلا جاتا ہے اور گالی گلوج پر اتر آتا ہے۔ بالکل یہی کیفیت بی جے پی کے بہت سے رہنماؤں کی بھی ہے۔ وہ جب بھی دیکھتے ہیں کہ سنجیدہ گفتگو میں اپنی بات نہیں کہہ پاتے یا ان کے پاس کوئی مدلل بات نہیں ہوتی تو وہ بدزبانی پر اتر آتے ہیں۔ ماضی میں اس کا مشاہدہ بار بار کیا گیا ہے اور اب ایک بار پھر کیا جا رہا ہے۔
جب سے سی اے اے، این پی آر اور این آر سی کے خلاف ملک گیر احتجاج کا آغاز ہوا ہے بی جے پی کے کئی رہنماؤں پر بوکھلاہٹ طاری ہو گئی ہے۔ چونکہ وہ کسی بھی سوال کا دلائل کے ساتھ جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اس لیے مغلظات بکنے لگے ہیں۔ مظاہرین کو پاکستانی اور دہشت گرد بتانے لگے ہیں۔ چونکہ ان مظاہروں میں اکثریت خواتین کی ہے بلکہ قیادت انھی کے ہاتھوں میں ہے اس لیے وہ عورتوں کی شان میں گستاخیاں بھی کرنے لگے ہیں۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ حالیہ دنوں میں کس نے کیا کیا کہا ہے۔ کرناٹک کے وزیر سیاحت و ثقافت سی ٹی روی کا کہنا ہے کہ اگر ہندووں نے اپنے صبر کا دامن چھوڑ دیا تو گودھرا فسادات جیسے واقعات اور بھی ہو سکتے ہیں۔ انھوں نے یہ دھمکی کس تناظر میں دی ہے یہ واضح نہیں ہے لیکن ان کا یہ بیان میڈیا میں خوب آیا ہے۔
اتر پردیش میں بی جے پی کے ایک لیڈر رگھو راج پرساد سنگھ نے بارہ جنوری کو ایک بیان میں کہا کہ صرف ایک فیصد لوگ ہی سی اے اے کی مخالفت کر رہے ہیں۔ وہ ہندوستان میں رہتے ہیں، ہمارے ٹیکس کے پیسے سے کھاتے ہیں اور پھر لیڈروں کے خلاف مردہ باد کا نعرہ لگاتے ہیں۔ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے خلاف نعرہ بازی ناقابل قبول ہے۔ جو لوگ وزیر اعظم مودی اور وزیر اعلیٰ یوگی کے خلاف نعرے لگائیں گے میں ان کو زندہ زمین میں گاڑ دوں گا۔
کرناٹک کے بیلاری ضلع میں بی جے پی کے ایک ایم ایل اے جی سوم شیکھر ریڈی نے کہا کہ ہم 80 فیصد ہیں اور تم لوگ (جو سی اے اے کی مخالفت کر رہے ہیں) 17 فیصد ہو۔ ذرا سوچو کہ اگر ہم لوگ تمھارے پیچھے پڑ جائیں تو تم لوگوں کا کیا حشر ہوگا۔
مغربی بنگال کے بی جے پی صدر دلیپ گھوش دو اور دو قدم آگے چلے گئے۔ انھوں نے بارہ جنوری کو نادیا ضلع میں ایک تقریر میں مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی پر نکتہ چینی کی اور کہا کہ جو لوگ سی اے اے مخالف ریلی میں سرکاری املاک کو نقصان پہنچا رہے ہیں ان پر گولی کیوں نہیں چلواتیں۔ انھوں نے کہا کہ اترپردیش اور آسام میں بی جے پی کی حکومتوں نے ان مظاہروں میں سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے والوں کو کتوں کی طرح گولی ماری ہے۔
اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ بھی بد زبانی میں کسی سے پیچھے نہیں رہتے۔ ان کا مغلظات بکنے اور خاص طور پر مسلمانوں کو گالیاں دینے کا ٹریک ریکارڈ ہے۔ انھوں نے بحیثیت ایم پی گورکھپور میں جانے کتنی بار مسلمانوں کو گالیاں اور دھمکیاں دیں۔ اپنی تنظیم کے بینر سے ہندووں کو اشتعال دلایا اور فسادات کے لیے اکسایا۔ ان کے خلاف مقدمہ بھی قائم کیا گیا۔ لیکن جب وہ یو پی کے وزیر اعلیٰ بنائے گئے تو سب سے پہلے اپنے خلاف مقدمات کو ختم کروا دیا۔
انھوں نے پھر مسلمانوں کے خلاف بیان بازی کی ہے۔ ان کا یہ بیان خواتین کی شان میں گستاخی سے کم نہیں ہے۔ انھوں نے سی اے اے کی مخالفت کرنے والوں کو برا بھلا کہتے ہوئے کہا کہ مرد تو گھروں میں سو رہے ہیں رضائی اوڑھ کر اور انھوں نے اپنی عورتوں کو چوراہوں پر بٹھا دیا ہے۔ ان کے اس بیان کی شدید مذمت کی جا رہی ہے اور خواتین کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والی بعض تنظیموں نے اس بیان کی مذمت کی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ خواتین کے قومی کمیشن میں یوگی کے خلاف شکایت کی جائے اور عورتوں کی بے عزتی کرنے پر ان کے خلاف مقدمہ قائم کیا جائے۔ کمیشن کو از خود نوٹس لے کر کارروائی کرنی چاہیے۔
دہلی میں اس وقت اسمبلی انتخاب کی مہم چل رہی ہے۔ اس موقع پر بھی بد زبانی کا مقابلہ چل رہا ہے۔ اس میں پیش پیش ہیں ماڈل ٹاؤن سے بی جے پی کے امیدوار کپل مشرا۔ وہ اس سے قبل عام آدمی پارٹی کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے تھے۔ انھیں وزیر بھی بنایا گیا تھا۔ لیکن پھر پارٹی مخالف سرگرمیوں کی وجہ سے انھیں پارٹی سے نکال دیا گیا۔
اپنی انتخابی مہم کے دوران انھوں نے ٹوئٹر پر لکھا کہ آٹھ فروری کو دہلی کی سڑکوں پر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان مقابلہ ہوگا۔ یاد رہے کہ آٹھ فروری کو ووٹ ڈالے جائیں گے۔ ان کے اس بیان پر زبردست قسم کا تنازعہ پیدا ہوا اور الیکشن کمیشن نے کارروائی کرتے ہوئے ان پر 48 گھنٹے تک پرچار کرنے پر پابندی عاید کر دی۔
انھوں نے شاہین باغ میں دھرنے پر بیٹھی خواتین کے خلاف بھی بیان بازی کی اور جو لوگ سی اے اے کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں ان کو پاکستانی اور دہشت گرد قرار دیا۔ ان کے اس بیان پر بھی ان کی شدید الفاظ میں مذمت کی جا رہی ہے۔ ان سے پوچھا جا رہا ہے کہ جو لوگ حکومت کے کسی فیصلے کی مخالفت کر رہے ہیں وہ پاکستانی اور دہشت گرد کیسے ہو گئے۔ شاہین باغ میں اتنا بڑا ہندوستان کا نقشہ لگا ہوا ہے۔ جگہ جگہ ترنگا لہرا رہا ہے۔ امبیڈکر کی تصویریں لگی ہوئی ہیں۔ گاندھی جی کی لگی ہوئی ہیں۔ آئین کی تمہید پڑھی جا رہی ہے تو وہ لوگ کیسے پاکستانی اور دہشت گرد ہو گئے۔
در اصل پاکستان سے بی جے پی والوں کو بڑی محبت ہے۔ جبھی تو وزیر اعظم مودی سے لے کر تمام چھٹ بھیا لیڈروں تک سب پاکستان کی مالا جپتے ہیں۔ پاکستان کے خلاف عوام کے دلوں میں اتنی نفرت بھر دی گئی ہے کہ اس کا نام لیتے ہی لوگ اس کو برا بھلا کہنے لگتے ہیں۔ اور جب ایک طبقے کو اور خاص طور پر مسلمانوں کو پاکستان حامی یا پاکستانی بتانے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف ایک نفرت انگیز ماحول بن جائے۔
جب ایسا ہوگا تو سارا ہندو ووٹ انھیں کو مل جائے گا۔ وزیر اعظم مودی بھی یہی کرتے رہے ہیں اور دوسرے لیڈر بھی۔ انھی لوگوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اب کپل مشرا بھی مسلمانوں کو پاکستانی کہنے لگے ہیں۔ اسے کہتے ہیں کہ مینڈکی کو بھی زکام ہو گیا۔
یہ تو چند مثالیں تھیں ورنہ اگر ہم غور کریں تو بی جے پی کے متعدد لیڈروں نے سیاسی ماحول کو بالکل پراگندہ کر دیا ہے۔ بی جے پی میں ایسے جانے کتنے لیڈر ہیں جن کو صاف ستھری زبان بولنے میں تکلیف ہوتی ہے۔ البتہ گالم گلوج کرنے میں ان کی زبانیں خوب چلتی ہیں۔ ماحول کو خراب اور نفرت انگیز بنانے میں ایسے لیڈروں کا بڑا رول ہے۔ ایسے لوگوں کے خلاف تو کارروائی ہونی چاہیے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کون کارروائی کرے گا۔ سیاں بھئے کوتوال تو ڈر کاہے کا۔ جب مودی جی ہی بعض اوقات ایسی زبان بولنے لگتے ہیں تو پھر ان لوگوں سے کیا شکوہ اور ان کے خلاف کیا کارروائی ہوگی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 26 Jan 2020, 9:11 PM