تو کیا سیاسی پنڈت بھی ووٹروں کی اُمیدوں کو سمجھنے میں ناکام رہے...
ہماری سیاست، ہمارا نظریہ، تحریک آزادی کی ہماری وراثت... ان سب پر سوال اٹھائے گئے تھے۔ کیا ہم ان سوالوں کو ووٹروں تک پہنچانے میں کامیاب ہوئے؟ کیا ہم ان حملوں کے خلاف عوام کو کھڑا کر پائے؟
کیا ایک ایسا بڑا گروپ تیار ہو گیا ہے جو لوگوں کی امیدوں، حالات کے تجزیہ اور حکومت کی کارگزاریوں پر رد عمل کی بنیاد پر کسی انتخاب کے نتائج کی ایک ممکنہ تصویر پیش کرتا ہے، لیکن اس کا ووٹڑوں کے فیصلوں سے کوئی رشتہ نہیں ہوتا؟
لوک سبھا کے انتخابی نتائج کو لے کر اتنا امکان تو ضرور ظاہر کیا جا رہا تھا کہ برسراقتدار پارٹیوں کو اگلی بار حکومت بنانے میں دقت پیش آ سکتی ہے۔ اس طرح کے امکانات کی ٹھوس وجہ بھی رہی ہے کہ 2014 میں نریندر مودی کی قیادت میں جب حکومت بنی تھی اور اس دوران انتخابی تشہیر میں جو اچھے دن اور ڈیولپمنٹ کے وعدوں کے پورا نہیں کرنے کو لے کر شکایتیں کی گئیں بلکہ حکومت کے کام کے طریقوں کو لے کر بھی تنقیدیں کی گئیں۔
2019 کے لوک سبھا الیکشن کے نتیجے سامنے ہیں۔ اس بار ماحول 2014 کے پارلیمانی انتخابات جیسا نہیں تھا۔ لوگوں میں کافی غصہ تھا۔ جس قدر کسان اور مزدور دہلی اور ملک کے دیگر شہروں کی سڑکوں پر اترے، ویسا گزشتہ 20 سالوں میں کبھی نہیں دیکھا گیا۔ اب یہ ایک سچائی ہے کہ بے روزگاری کس قدر بڑھی اور نوٹ بندی اور جی ایس ٹی نے معیشت کو کتنا برباد کیا۔ اگر ہم ڈیولپمنٹ کے پیمانوں کو دیکھیں تو حکومت کے اعداد و شمار دیگر ذرائع سے حاصل اعداد و شمار سے میل نہیں کھاتے۔
اقلیتوں کے معاملے میں ہم نے ان پر ایک کے بعد ایک حملے کے واقعات دیکھے۔ اور ہم نے جمہوریت کے اداروں پر بھی لگاتار حملے دیکھے۔ حکومت کے کام، حکومت کے پروگراموں سے بڑھ کر جمہوریت، پارلیمانی نظام، آزادی کی تحریک کی وراثت کو لے کر بھی فکر ظاہر کیا گیا۔ اقتدار کے سنٹرلائزیشن کو یقینی کرنے والے یہ ادارے تقریباً منہدم ہونے کے دہانے پر پہنچ گئے۔ لوگوں نے تو یہاں تک کہنا شروع کر دیا کہ مودی ہی پارٹی ہیں، مودی ہی ملک ہیں اور انھوں نے اسے ثابت بھی کر دیا۔
اہم بات یہ ہے کہ کیا لوگوں نے ان باتوں کی حمایت میں ووٹ ڈالے ہیں؟ گزشتہ بار 31 فیصد ووٹ ملے تھے جو کل آبادی کا تقریباً 12 فیصد ہوتا ہے یا ووٹنگ کرنے کی اہل آبادی کا 17 فیصد ہوتا ہے۔ اس بار اس میں بڑا اضافہ دکھائی دے رہا ہے۔ لیکن سیٹوں کی تعداد زیادہ اہم ہے۔
ہماری سیاست، ہمارا نظریہ، تحریک آزادی کی ہماری وراثت، ان پر جو سوال اٹھائے گئے تھے، کیا ہم ان سوالوں کو ووٹروں تک پہنچانے میں کامیاب ہوئے؟ کیا ہم ایک ساتھ کھڑے ہونے اور ان حملوں کے خلاف لڑنے کے لیے عوام کو راضی کر پائے؟
2019 میں خود نریندر مودی کی قیادت میں چلی انتخابی تشہیر کے دوران ان سب باتوں کا کوئی تذکرہ کرنے کی بھی ضرورت نہیں محسوس کی گئی۔ اگر مودی کے الفاظ میں کہیں تو یہی کہا جائے گا کہ سیاسی پنڈتوں نے انتخابی نتائج کو لے کر اپنا تجزیہ پیش کرنے کے لیے جو بھی طریقہ اختیار کیا وہ سبھی ناکام ثابت ہو گئے ہیں۔ ان کے مطابق 21ویں صدی کی اُمیدوں کو سمجھنے میں سیاسی پنڈتوں نے غلطی کر دی ہے۔
ان نتیجوں کا تجزیہ کیا اس طرح کیا جانا چاہیے کہ لوگوں کو روزگار، معاشی بحران، بڑھتی غریبی اور دوسری طرف دو چار خاندانوں کے درمیان امیری سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے؟ پارلیمانی سیاست میں ان نتائج کے مدنظر پہلی بات تو یہ ہے کہ ووٹر حکومت اور کسی نظریہ پر متفق نہیں ہے تو لازمی طور پر وہ اپوزیشن کے ساتھ نہیں ہو سکتا ہے۔ یو پی کے ضمنی انتخابات کی مثال لیجیے۔ کیرانہ، گورکھپور اور پھول پور میں یہ دیکھا گیا کہ اگر اپوزیشن ان ایشوز پر متحد ہو کر لڑتا ہے تو ان کی ہار یقینی ہوتی ہے۔ کوئی بھی بڑا لیڈر ان سیٹوں پر تشہیر کرنے نہیں گیا تھا۔
وزیر اعلیٰ اور نائب وزیر اعلیٰ کو ان سیٹوں پر شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ہماری تاریخ میں یہ ایک دلچسپ مثال تھی کیونکہ اپوزیشن ایشوز پر متحد ہو گیا تھا۔ لیکن جب اپوزیشن کو یہ لگتا ہے کہ حکومت مخالف کوئی بھی ووٹ اپنے آپ ہی بغیر کسی کوشش کے ان کے حصے میں پہنچ جائے گا تو اس حالت میں پارلیمانی سیاست کا اپوزیشن مر جاتا ہے اور اقتدار اور اس کی مشینری کی کامیابی یقینی ہو جاتی ہے، بھلے ہی وہ کتنی بھی طرح کی شکایتوں کی مار برداشت کر رہی ہو۔
1990 میں اتر پردیش میں ایس پی-بی ایس پی اتحاد اس وقت بنا تھا جب رام مندر تحریک اپنے عروج پر تھی۔ وہ کامیاب رہا اور انھوں نے وہاں حکومت بنائی۔ لیکن اس بار وہی ایس پی-بی ایس پی اتحاد ناکام ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ وہ اسی قسم کی ٹکر دینے میں ناکام رہے۔ مغربی بنگال میں بھی یہی کہانی ہے۔ قبل میں لیفٹ کے ذریعہ چلائے جا رہی اور مبینہ طور سے ایک ترقی پذیر ریاست میں اپوزیشن فرقہ وارانہ سیاست کے خلاف لڑنے میں ناکام رہی۔
یہ ایشوز کی بنیاد پر (نہ کہ فرقہ وارانہ بنیاد پر) ووٹروں کو بیدار کر کے متحد کرنے میں ناکامی ہے۔ ہمیں اس سیاسی ناکامی کا سامنا کرنے کی ضرورت ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 27 May 2019, 2:10 PM