اقتدار کے نشے میں اخلاقیات کا قتل!

کیا منوہر لال کھٹر کے کشمیری لڑکیوں سے متعلق دیئے گئے بیان پر بی جے پی کی خواتین رہنما پارٹی سیاست کو ترجیح دیں گی یا صنف نازک کے لئے سماج کو ذہنیت بدلنے کے لئے مجبور کریں گی؟

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

نواب علی اختر

جموں و کشمیر سے دفعہ 370 ہٹانے اور مرکز کے زیر انتظام صوبہ بنائے جانے کی قواعد کے بعد چہار سو پائی جانے والی بے چینی کے درمیان ایک طرف جہاں ملک کے وزیراعظم نریندر مودی اوران کی سرکار کے وزراء لگاتار جموں و کشمیر اور وہاں کے شہریوں کو مرکزی دھارے میں لانے اور مکمل طور پر ملک سے جوڑنے کے نام پر ریاست کے شہریوں سے جذباتی اپیل کر رہے ہیں وہیں ان کی اپنی ہی پارٹی کے لیڈر سرعام ’جنت ارضی‘ کی بہو بیٹیوں کے لئے تنگ ذہنیت کا مظاہرہ کرنے سے باز نہیں آ رہے ہیں۔ ایسے موقع پر جب کشمیری عوام کے ساتھ ہمدردی اورسنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے، بی جے پی کے لیڈر اقتدار کے نشے میں قابل اعتراض بیان بازی کرکے اخلاقیات کا قتل کرنے پرآمادہ ہیں۔ اناؤ عصمت دری معاملے پرجس کے کلیدی ملزم بی جے پی ممبراسمبلی جیل رسید کیے جاچکے ہیں، حکمراں پارٹی کی نیت سب پرعیاں ہوچکی ہے مگر یہی رویہ اب جموں و کشمیرکی بیٹیوں کے ساتھ اختیار کرنے کے لئے اکسایا جارہا ہے۔

حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) اترپردیش کے مظفر نگر سے ممبر اسمبلی وکرم سینی کا کشمیری لڑکیوں پر دیئے گئے قابل اعتراض بیان سے اٹھا طوفان ابھی تھما بھی نہیں تھا کہ ہریانہ کے وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر کشمیر کی لڑکیوں کو لے کر متنازعہ بیان دے کر انتہائی غیرذمہ داری کا ثبوت دیتے نظرآئے۔ منوہر لال کھٹر نے ایک پروگرام میں کہا کہ ہم اب کشمیری بہو لا سکتے ہیں۔ کھٹر نے کہا کہ ہمارے دھن کھڑ (ہریانہ کے وزیر زراعت اوم پرکاش دھن کھڑ) جی کہتے تھے کہ بہار سے کنوارے ہریانوی لڑکوں کے لئے لڑکیاں لائیں گے، آج کل لوگ کہنے لگے ہیں کہ اب کشمیر کا راستہ صاف ہو گیا ہے، کشمیر سے لڑکی لائیں گے۔


غور کرنے والی بات ہے کہ وزیراعلیٰ کھٹر یہ باتیں کسی خفیہ مقام پر نہیں بلکہ ’بیٹی بچاو-بیٹی پڑھاو‘ مہم کی مبینہ کامیابی کا جشن منانے کے لئے فریدآباد میں منعقدہ پروگرام میں بول رہے تھے جس میں مرد و خواتین کے ساتھ اسکولی بچیاں بھی کثیر تعداد میں موجود تھیں۔ اتنا ہی نہیں ان قابل اعتراض الفاظ کو بولتے وقت منوہر لال کھٹر ہنسے بھی، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ مذاق کی باتیں الگ ہیں لیکن اگر معاشرے میں ریشو ٹھیک بیٹھے گا تو توازن ٹھیک ہوگا۔

بی جے پی حکومت والے ہریانہ میں سیکس ریشو سب سے کم ہے، اسے سدھار کی بجائے وزیراعلیٰ کھٹر کشمیر سے لڑکیاں لانے کی بات کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے ان کے وزیر اوپی دھن کھڑ بہار سے لڑکیاں لانے کی بات کرتے تھے۔ ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی کے لیڈروں کے لئے لڑکیاں اورخواتین ایک جائداد کی طرح ہیں جسے جب اور جیسے چاہا استعمال کرلیا یا جو سمجھ میں آیا کہہ دیا۔ کھٹر کے بیان ’دفعہ 370 کے منسوخ ہونے سے کشمیر سے لڑکیوں کو شادی کے لئے لایا جاسکتا ہے‘ پر ملک بھر سے سخت الفاظ میں ردعمل کا اظہار کیا جارہا ہے۔


قومی خواتین کمیشن کی صدر ریکھا شرما نے کہا کہ کھٹر سے اس معاملے میں یقینی طور پر وضاحت طلب کی جائے گی۔ شرما نے ٹوئٹ کیا کہ ان کا تصور خواتین پر، ان کے رنگ اور ان کے چہرے پر کیوں سمٹ جاتا ہے؟ وہ خواتین کے بارے میں ایسا کیسے بول دیتے ہیں؟ لوگ انہیں اقتدار کیوں سونپ دیتے ہیں؟ میں یقینی طور پر ان سے وضاحت پیش کرنے کے لئے کہوں گی۔ وہیں دہلی خواتین کمیشن کی صدر سواتی مالیوال نے تو کھٹر کو سڑک چھاپ رومیو تک قرار دے دیا۔ سواتی مالیوال نے کہا کہ منوہر لال کھٹر کو اپنے بیان پر شرم آنی چاہیے۔ وزیر اعلیٰ سڑک چھاپ رومیو کی زبان بول رہے ہیں۔

کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے کھٹر کے بیان کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی برسوں کی تربیت سے لوگوں کا دماغ کیسے کمزور اور ناکارہ ہوجاتا ہے۔ راہل گاندھی نے وزیر اعلیٰ کے اس بیان پر ٹوئٹ کیا کہ کشمیری خواتین کے سلسلے میں ہریانہ کے وزیر اعلیٰ کھٹر نے نفرت آمیز بیان دیا ہے۔ خواتین کوئی جائیداد نہیں ہیں جس پر مرد اپنا حق سمجھیں۔


اس سے پہلے مودی حکومت کے پہلے دور میں وزیر اور موجودہ راجیہ سبھا ممبر پارلیمنٹ وجے گوئل نے ایک پوسٹر ٹوئٹ کیا تھا۔ اس پوسٹر میں لکھا کہ دفعہ 370 کا جانا تیرا مسکرانا۔ پوسٹر میں وزیراعظم مودی اور امت شاہ کے علاوہ شیاما پرساد مکھرجی بھی نظر آ رہے ہیں۔ اس پوسٹر میں ایک لڑکی مسکرا رہی ہے جو کہ کشمیری لباس میں نظر آرہی ہے۔ مذکورہ بیانات تو یہی اشارہ کرتے ہیں کہ بی جے پی لیڈروں کو کشمیریوں کی ممکنہ خوشحالی کی ذرا بھی فکرنہیں ہے انہیں تواس بات کی خوشی ہے کہ اب وہ کشمیر کی لڑکی لاسکیں گے۔ ایسے لیڈروں کواس بات کا دھیان رکھنا چاہیے کوئی بھی رشتہ قائم ہونے سے پہلے بھروسہ جیتنا ضروری ہوتا ہے ورنہ زندگی جہنم بن جایا کرتی ہے۔

اس سے پہلے بی جے پی کے ہی اتر پردیش کے مظفرنگر ضلع کے رکن اسمبلی وکرم سینی نے ایسا ہی بیان دیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ آرٹیکل 370 کو ختم کرنے سے پارٹی کے کارکن کافی پرجوش ہیں، جوکنوارے ہیں،ان کی شادی وہیں کرا دیں گے۔ سینی نے کہا کہ ملک کے مسلمانوں کو خوش ہونا چاہیے کہ وہ اب بغیرکسی ڈر کے ’گوری‘ کشمیری لڑکیوں سے شادی کرسکتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ بی جے پی کے کنوارے لیڈر بھی اب کشمیر جاکر وہاں پلاٹ خرید سکتے ہیں اور شادی کرسکتے ہیں۔


خواتین کے حوالے سے بی جے پی کے سینئرلیڈروں کی اس قابل اعتراض بیان بازی پرمودی کابینہ کی خاتون وزیر اسمرتی ایرانی اور نرملا سیتا رمن کی خاموشی سینکڑوں سوال کھڑے کر رہی ہے وہ بھی تب جب چند روزقبل ہی پارلیمنٹ میں لوک سبھا کی صدارت کر رہیں بی جے پی ایم پی پر سماجوادی پارٹی کے رکن اعظم خاں کے مبینہ قابل اعتراض بیان پرجم کر ہنگامہ کیا گیا تھا۔ اس معاملے میں بی جے پی کی خواتین اراکین پارلیمنٹ کے ساتھ ہی اپوزیشن اراکین نے بھی خواتین کے تئیں اپنے احترام کا اعادہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ قابل اعتراض بیان ہرگز قبول نہیں کیے جائیں گے۔ ایسی صورت میں مودی کابینہ کی خواتین کیسی رائے دیں گی؟ آخر وہ چپ کیوں ہیں؟۔ بی جے پی کی تمام بڑی خواتین لیڈر اناؤ معاملے پر بھی چپ تھیں اور اب وہ کھٹر کے کشمیری لڑکیوں سے متعلق دیئے گئے بیان پر بھی خاموش ہیں۔

کیا بی جے پی کی خواتین رہنما اس حساس معاملے میں بھی پارٹی سیاست کو ترجیح دیں گی یا صنف نازک کے لئے سماج کو اپنی ذہنیت بدلنے کے لئے مجبور کریں گی؟ میں تو یہی کہوں گا کہ اعظم خاں ہوں یا کھٹر، سینی ہوں یا دھن کھڑ، ان سب کو باور کرانا چاہیے کہ خواتین کے لئے اپنی سوچ بدلیں اور ان کا احترام کریں بصورت دیگرسماج میں ان کا بائیکاٹ کیا جانا چاہیے۔ جہاں تک کشمیرسے دفعہ 370 ہٹانے کی بات ہے تواس پرجشن منانے سے پہلے اس فیصلے کا احتساب کیا جانا چاہیے، دفعہ 370 ہٹانے کے سلسلے میں تاویلیں پیش کی جا رہی ہیں، وہ کہاں تک درست ہیں اور کیا ان کے اس فیصلے سے مقامی شہری خوش ہیں یاوہ خود کو ٹھگا محسوس کر رہے ہیں۔


کسی بھی حکومت کی کامیابی کا اندازہ اس کے عوام کے ردعمل سے لگایا جاتا ہے جب کہ حکمراں طبقے کے علاوہ کشمیر معاملے میں اب تک کسی فریق نے حکومت کے فیصلے کی تعریف نہیں کی، یہاں تک کہ این ڈی اے اتحادی بھی اپنی حکومت کے فیصلے پرانگلی اٹھا رہے ہیں۔ بہرحال مودی حکومت نے جو کیا ہے اس کے کئی معنیٰ ہوسکتے ہیں لیکن فی الوقت کشمیرکے شہریوں میں اعتماد بحالی حکومت کے لئے سب سے بڑاچیلنج ہے اور یہ وقت کی ضرورت بھی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 11 Aug 2019, 8:10 PM