راہل نے گجرات الیکشن میں مودی کو پانی پلا دیا
اس میں کوئی شک نہیں کہ راہل گاندھی کی شخصیت میں انقلابی تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ انھوں نے جس شائستگی اور تہذیبی وقار کے ساتھ الیکشن لڑا وہ نہ صرف قابل قدر ہے بلکہ لائق تقلید بھی ہے۔
گجرات کے اسمبلی انتخابات کے دوران اور ان کے نتائج کے بعد سیاسی اور صحافتی حلقوں میں جو مباحثے جاری تھے ان کا شور اب رفتہ رفتہ مدھم ہونے لگا ہے۔ اب مطلع کسی قدر صاف ہو گیا ہے اور بہت سی چیزیں واضح انداز میں نظر آنے لگی ہیں۔ ان انتخابات اور ان کے نتائج نے بہت سی صورتیں تشکیل کی ہیں جن میں کچھ واضح ہیں تو کچھ غیر واضح ہیں۔ ان انتخابات کے پیغام پر بھی بحث ہو رہی ہے۔ یہ بحث بی جے پی اور کانگریس دونوں کو مرکز میں رکھ کر کی جا رہی ہے۔ لیکن دو شخصیات سب سے زیادہ مرکز بحث بنی ہوئی ہیں۔ ایک نریندر مودی کی شخصیت اور دوسری راہل گاندھی کی شخصیت۔ ان انتخابات میں دونوں کی شخصیتیں Transform ہوئی ہیں یعنی ان میں تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ لیکن دونوں کی تبدیلی میں بنیادی فرق ہے۔ اول الذکر میں منفی تبدیلی واقع ہوئی ہے اور ثانی الذکر میں مثبت۔ ان دونوں تبدیلیوں کو بڑے غور سے دیکھا جا رہا ہے۔
پہلے تھوڑی سی گفتگو مودی کی شخصیت کے بارے میں۔ سینئر صحافی ونود دُوا نے ایک بڑی اچھی بات کہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’پردھان سیوک اب پرچار سیوک بن گئے ہیں‘‘۔ یعنی ان کا کام اب یہی رہ گیا ہے کہ جس اسٹیٹ میں الیکشن ہو ں وہاں وہ اپنی پوری سرکاری مشینری لے جا کر بٹھا دیں اور خود بھی جا کر بیٹھ جائیں اور کسی بھی قیمت پر بی جے پی کو فتحیاب کرانے کی کوشش کریں۔ گجرات چونکہ ان کا اپنا گڑھ ہے اس لیے وہاں ان کا وقار داؤ پر لگا ہوا تھا۔ لہٰذا انھوں نے 34 ریلیاں کر ڈالیں۔ یوں تو وہ الیکشن جیتنے کے لیے کسی کے بھی خلاف بیان دے سکتے ہیں اور کسی پر بھی الزام تراشی کر سکتے ہیں اور کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ لیکن گجرات الیکشن میں انھوں نے کسی بھی حد تک جانے کی اپنی روش کو مزید ڈھلان پر چھوڑ دیا ہے۔ یعنی وہ ابھی اور بھی نچلی سطح تک جا سکتے ہیں، اس بارے میں انھیں کوئی عار نہیں ہے۔
الیکشن کے دوران انھوں نے اپنی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے ایک ایسا سنگین الزام لگا دیا جو سیاسی اخلاقیات کے دامن پر ایک بدنما داغ بن گیا ہے اور اس پر ان سے، ان کی حکومت سے اور ان کی پارٹی سے کوئی جواب نہیں بن پڑ رہا ہے۔ انھوں نے سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ، سابق نائب صدر حامد انصاری، سابق ہائی کمشنر شرت سبھروال، سابق فوجی سربراہ جنرل دیپک کپور ، سابق سفارکار سلمان حیدر اور دوسرے کئی افراد پر یہ الزام لگا دیا کہ یہ لوگ ان کے خلاف پاکستان کے ساتھ ساز باز کر رہے تھے۔ اس کی تفصیلات منظر عام پرموجود ہیں لہٰذا اس پر زیادہ کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ البتہ ایک سوال کیا جا سکتا ہے کہ اگر ہندوستان کے خلاف پاکستان کے ساتھ مل کر کوئی سازش کی جا رہی تھی تو ان لوگوں کے خلاف کیس کیوں نہیں درج کیا جاتا۔ ان کو گرفتار کیوں نہیں کیا جاتا۔ معمولی معمولی باتوں پر تو کیس درج کر دیا جاتا ہے اور گرفتاریاں ہو جاتی ہیں، یہ تو بہت سنگین معاملہ ہے۔ یہی بات کانگریس لیڈران پارلیمنٹ میں اٹھا رہے ہیں لیکن مودی اینڈ کمپنی کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بھی مودی نے بہت سی ایسی باتیں کہی ہیں جو وزیر اعظم کے منصب کو داغدار کرتی ہیں۔ یہ تمام باتیں پبلک میں موجود ہیں۔ اس الیکشن میں ان کی اُس شخصیت پر مزید نکھار آگیا ہے جو منفی سیاست سے عبارت ہے۔ ابھی آگے اور بھی ریاستوں میں الیکشن ہونے والے ہیں دیکھیے وہاں وہ کہاں تک جاتے ہیں۔
لیکن اس الیکشن میں جو بات سب سے زیادہ واضح انداز میں ابھر کر سامنے آئی ہے وہ کانگریس صدر راہل گاندھی سے متعلق ہے۔ بلا شبہ اور بلا خوف تردید یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اس الیکشن میں ایک نئے راہل دیکھنے کو ملے ہیں۔ گجرات کے سیاسی افق سے ایک نئے راہل طلوع ہوئے ہیں جو سابقہ راہل سے الگ ہیں۔ یہ وہ راہل نہیں ہیں جو 2014 کے پارلیمانی انتخابات میں دیکھنے کو ملے تھے یا یو پی اسمبلی انتخابات میں نظر آتے تھے۔ یہ وہ راہل بھی نہیں ہیں جو اُس سے پہلے کے انتخابات میں دکھائی دیتے تھے۔ یہ وہ راہل بھی نہیں ہیں جن کا بی جے پی والے پپو کہہ کر مذاق اڑایا کرتے تھے۔ یہ وہ راہل بھی نہیں ہیں جن کا ذکر نریندر مودی استہزائیہ انداز میں کیا کرتے تھے۔ یہ وہ راہل بھی نہیں ہیں جن کو مودی اپنے سامنے ایک سیاسی بچہ سمجھتے تھے۔ یہ وہ راہل بھی نہیں ہیں جن کو بی جے پی کے ترجمان بار بار ہدف بناتے رہے ہیں۔ اس راہل کی امیج ان تمام امیجوں سے الگ ہے۔ ان کے اندر ایک پختگی آگئی ہے۔ سنجیدہ تو وہ پہلے سے ہی تھے مگر اب اس سنجیدگی میں کافی اضافہ ہو گیا ہے۔ اب وہ بہت سنبھل سنبھل کر بولتے ہیں اور جو بولتے ہیں اس میں بڑا وزن ہوتا ہے۔
ان کی باتیں اب ملک کے تمام طبقات کے لوگ سن رہے ہیں۔ خواہ وہ سیاست داں ہوں یا عوام، تاجر طبقات ہوں یا ملازمت پیشہ افراد، کسان ہوں یا اسٹوڈنٹس۔ یہاں تک کہ اب تو بی جے پی والے بھی بہت سنبھل سنبھل کر ان کے بارے میں بول رہے ہیں۔ خود نریندر مودی میں اب اتنی جرأت نہیں ہے کہ وہ راہل کا اسی طرح مذاق اڑائیں جس طرح وہ پہلے اڑایا کرتے تھے۔ انھیں بھی اب سمجھ میں آنے لگا ہے کہ اس سیاست داں کو جسے وہ نو آموز اور ناتجربہ کار سمجھنے کی غلطی کر رہے تھے، نظر انداز کرنے کی حماقت نہیں کرنی چاہیے۔
یہ کہنے میں کوئی جھجک نہیں کہ راہل گاندھی نے گجرات الیکشن میں مودی کو پانی پلا دیا۔ مودی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ جیتیں تو کیسے جیتیں۔ انھوں نے ایک تو منی شنکر ایئر کو پکڑ لیا اور یہاں تک کہہ دیا کہ ان کے خلاف پاکستان میں انھوں نے سپاری دی ہے۔ حالانکہ اس معاملے میں وہ منی شنکر کے خلاف کیس درج کرا سکتے تھے لیکن نہیں کرایا۔ اس لیے کہ یہ بات ہی بے بنیاد تھی۔ دوسرے انھوں نے پاکستان کے ساتھ مل کر سازش رچنے کا الزام لگا دیا۔ تیسرے انھوں نے اور ان کے حواریوں نے گجرات کے ترقی ماڈل کو چھوڑ کر ہندوتو اکو ایک ہتھیار بنا لیا۔ ارون جیٹلی کی یہ بات تو بہت ہی خطرناک ہے کہ جب ایک اصلی ہندوتو ادی پارٹی موجود ہے تو لوگ نقلی ہندوتوا پارٹی کا ساتھ کیوں دیں گے۔ مذہبی خطوط پر لوگوں کو تقسیم کیا گیا۔ ایسی بہت سی چالیں چلی گئیں جو سیاسی اور انتخابی اخلاقیات کے یکسر منافی ہیں۔ ایک بات اور کہ الیکشن کمیشن نے بھی بی جے پی کا ساتھ دیا۔
بہر حال بات ہو رہی تھی راہل گاندھی کی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ راہل گاندھی کی شخصیت میں انقلابی تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ انھوں نے جس شائستگی اور تہذیبی وقار کے ساتھ الیکشن لڑا وہ نہ صرف قابل قدر ہے بلکہ لائق تقلید بھی ہے۔ انتخابی نتائج آنے کے بعد انھوں نے اس شائستگی کے لیے اپنے کارکنوں کا شکریہ بھی ادا کیا۔ اس الیکشن نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ جب گجرات میں مودی کو ٹکر دی جا سکتی ہے اور انھیں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے تو پھر دوسری ریاستوں میں کیوں نہیں کیا جا سکتا۔ اس الیکشن نے یہ بات بھی ثابت کی ہے کہ اگر کانگریس کے دوسرے لیڈران بھی اسی طرح محنت کریں جیسی محنت راہل گاندھی نے کی ہے یا کرتے ہیں تو بی جے پی اور مودی کو ہرانا کوئی بہت مشکل نہیں ہوگا۔ راہل کی کوششوں سے یہ بھی اندازہ ہوا کہ یہ بات بالکل بے بنیاد ہے کہ مودی کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ راہل بلا شبہ ایک متبادل بن کر ابھرے ہیں۔ یہ بات صرف ہم نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ بڑے بڑے سیاسی پنڈت بھی کہہ رہے ہیں۔ ان کا بھی یہی خیال ہے کہ مودی کو اگر کوئی چیلنج دے سکتا ہے تو وہ راہل گاندھی ہی ہیں۔ ان میں سے بعض کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ راہل گاندھی اگلے وزیر اعظم ہیں۔ اس اجمالی تجزیے کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ گجرات کے سیاسی افق سے ایک ایسا سورج طلوع ہوا ہے جو پہلے کبھی نہیں طلوع ہوا تھا۔ یہ سورج یقیناً راہل گاندھی ہیں کوئی دوسرا نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ راہل کی شخصیت میں جو خوشگوار تبدیلی آئی ہے اس کو وہ نہ صرف برقرار رکھیں بلکہ اس کی چمک دمک میں اور اضافہ کریں۔
اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 20 Dec 2017, 9:56 PM