نریندر مودی کی مقبولیت کا گراف نچلی سطح پر... سہیل انجم
پی ایم نریندر مودی کی مقبولیت کا گراف بہت زیادہ نیچے آگیا ہے، مبصرین کا خیال ہے کہ معاملہ اتنا سنگین ہو گیا ہے کہ اب حکومت کی کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی۔ بہر حال آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔
گزشتہ سات برسوں میں شاید یہ پہلا موقع ہے جب بی جے پی میں اندرونی سطح پر زبردست اضطراب اور بے چینی پیدا ہوئی ہے اور اس بے چینی کی لہریں آر ایس ایس کے سمندر میں بھی محسوس کی جا رہی ہیں۔ خاص طور پر اترپردیش اور بعض دیگر ریاستوں میں جو اٹھا پٹخ چل رہی ہے اس نے آر ایس ایس کے بڑے رہنماوں کو بھی شدید کرب میں مبتلا کر دیا ہے۔ جس طرح وزیر اعظم نریندر مودی اور اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یو گی آدتیہ ناتھ کے درمیان جاری اعصابی جنگ میڈیا میں چھائی ہوئی ہے اس نے اس کی موجودہ حالت کو طشت از بام کر دیا ہے۔
اگرچہ یوگی آدتیہ ناتھ کو دہلی بلا کر اور وزیر اعظم مودی، وزیر داخلہ امت شاہ اور بی جے پی صدر جے پی نڈا سے ملاقات اور بات چیت کروائی گئی لیکن اندرونی ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ مشق کوئی بہت زیادہ کامیاب نہیں ہوئی ہے۔ بظاہر سطح آب پر سکون ہے لیکن اندر ہی اندر ناراضگی اور بداعتمادی کی لہریں ہلچل مچا رہی ہیں اور اگر عنقریب کوئی بڑا واقعہ ظہور پذیر ہو جائے تو تعجب نہیں ہونا چاہیے۔ حالانکہ میڈیا کے توسط سے یہ بتانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہو گیا ہے اور اب کسی کو کسی سے کوئی گلہ نہیں ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔
اترپردیش کے علاوہ مغربی بنگال کی صورت حال سے بھی بی جے پی اور آر ایس ایس مضطرب ہیں۔ وہ بنگال میں ہونے والی شرمناک شکست ابھی تک ہضم نہیں کر پا رہے ہیں۔ حکومت کی جانب سے بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کو پریشان کرنے کی کوششیں تو ہو رہی ہیں لیکن وہ کوششیں اس لیے کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو پا رہی ہیں کیونکہ ممتا بنرجی بھی ترکی بہ ترکی جواب دے رہی ہیں اور دہلی کی ہر چال کو اپنے جوابی حملوں سے ناکام بنا رہی ہیں۔ بی جے پی کے نائب صدر مکل رائے کی ٹی ایم سی میں واپسی اور بہت سے بی جے پی لیڈروں کی ممکنہ واپسی نے بی جے پی اور آر ایس ایس کے اندر ایک کھلبلی مچا رکھی ہے۔
وزیر اعظم مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ اگر چہ سیاسی چالیں چلنے میں ماہر ہیں اور اپنے مقصد کی حصولیابی کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں لیکن مختلف محاذوں پر مودی حکومت کی ناکامیوں اور حکومت سے عوام کے بہت بڑے طبقے کی ناراضگی نے ان کے اوسان خطا کر دیئے ہیں۔ مودی حکومت کا پہلا پانچ سالہ دور تو بی جے پی کے اعتبار سے بہت کامیاب رہا۔ حالانکہ غیر جانبدار تجزیہ کاروں، مبصروں اور عالمی مشاہدین کے مطابق اس دور میں بھی حکومت کی بہت سی پالیسیوں اور اقدامات سے عوام میں ناراضگی تھی لیکن پھر بھی عوام کو یہ امید تھی کہ حکومت کچھ اچھے کام کرے گی تاہم دوسرے دور کے دو سال انتہائی ناکامی سے عبارت ہیں۔
کورونا وبا سے جس طرح حکومت نے نمٹنے کی کوشش کی اور اس کے اقدامات یا اس کی بے عملی نے جس طرح عوام کو مصیبتوں میں مبتلا کیا اس نے عوام میں حکومت سے ناراضگی کے گراف کو بہت زیادہ اونچا کر دیا ہے۔ عوام کی ناراضگی کا گراف جتنا اونچا ہوتا جا رہا ہے وزیر اعظم مودی کی مقبولیت کا گراف اتنا ہی نیچے گرتا جا رہا ہے۔ اب تو صورت حال یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ عوام کی اکثریت مودی کے متبادل کی تلاش میں ہے۔ حالانکہ عوام کے سامنے سب سے بڑا متبادل کانگریس ہے۔ لیکن بی جے پی اور آر ایس ایس نے اس کے خلاف پروپیگنڈہ مہم چلا کر عوام کے دلوں کو مسموم کر دیا ہے۔ انھوں نے کانگریس کے خلاف عوام کے ذہنوں میں جو زہر بھرا ہے اس کو نکالنے کی ضرورت ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ کانگریس کی قیادت اس زہر کو نکالنے میں کامیاب ہو جائے گی۔
جہاں تک کورونا سے نمٹنے کا سوال ہے تو عوام کے ایک بہت بڑے طبقے کا خیال ہے کہ حکومت کورونا وبا پر قابو پانے میں ناکام رہی ہے۔ عالمی رہنماؤں کی مقبولیت کا سروے کرنے والی ایک امریکی ایجنسی ’’مارننگ کنسلٹ‘‘ کی تازہ رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم مودی کی مقبولیت میں 22 پوائنٹ کی گرواٹ آئی ہے۔ دوسری طرف حکومت اور بی جے پی کی جانب سے لوگوں کو یہ بتانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ مودی کی مقبولیت کا گراف اب بھی اونچا ہے اور مودی اب بھی ملک کے سب سے مقبول وزیر اعظم ہیں۔
اسی دوران نیوز چینل اے بی وی پی اور سی ووٹر نے بھی ایک سروے کیا ہے۔ اس میں بھی مودی کی مقبولیت میں کمی دکھائی گئی ہے۔ اس سروے کے مطابق 31 فیصد رائے دہندگان کا کہنا ہے کہ وہ مودی حکومت کے سات برسوں کی کارکردگی سے مطمئن ہیں لیکن 37 فیصد کا کہنا ہے کہ وہ بالکل مطمئن نہیں ہیں۔ جبکہ 28 فیصد ایسے ہیں جو جزوی طور پر متفق اور جزوی طور پر ناراض ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ جو 28 فیصد لوگ ہیں یہ مودی حکومت کے خلاف بھی جا سکتے ہیں۔ لہٰذا ان کو 31 فیصد میں شمار کرنے کے بجائے 37 فیصد میں شمار کرنا چاہیے۔ 28 فیصد چھوٹی تعداد نہیں ہے۔ ایک دو فیصد کے ادھر سے ادھر ہو جانے سے نتیجے پر زبردست اثر پڑتا ہے۔ یہاں تو معاملہ 28 فیصد کا ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ حکومت جس طرح کورونا وبا پر قابو پانے میں ناکام ہے اس کے پیش نظر سمجھا جا سکتا ہے کہ اس فیصد میں ابھی اور اضافہ ہوگا۔ خیال رہے کہ پارلیمانی انتخابات میں مودی کو 38 فیصد ووٹ ملے تھے۔ ا س لحاظ سے ان کی مقبولیت میں کافی کمی آئی ہے۔
سی ووٹر کا کہنا ہے کہ یہ سروے یکم جنوری سے 28 مئی 2021 کے درمیان 543 لوک سبھا حلقوں میں ایک لاکھ 39 ہزار افراد سے پوچھے گئے سوالوں پر مبنی ہے۔ حالانکہ حکومت نے میڈیا کو اپنا غلام بنا رکھا ہے اور اس حکومت میں سروے اپنے حساب سے کرائے جاتے ہیں۔ اس کے باوجود اے بی وی پی کا سروے حکومت کی کارکردگی کی پول کھولنے کے لیے کافی ہے۔ اے بی وی پی بھی حکومت کا قصیدہ پڑھتا رہتا ہے اور ظاہر ہے حکومت نے اس سروے پر بھی اپنے اثرات ڈالنے کی کوشش کی ہوگی۔ لیکن اس کے باوجود یہ سروے حقیقت سے کافی قریب نظر آتا ہے۔
سیاسی مبصرین کا تو یہاں تک خیال ہے کہ تقریباً 70 فیصد لوگ مودی حکومت سے ناراض ہیں۔ گزشتہ دنوں اترپردیش میں جو پنچایت انتخابات ہوئے ان کے نتائج نے ثابت کر دیا کہ حکومت سے لوگ کس قدر ناراض ہیں۔ ان نتائج نے حکومت کے ہوش اڑا دیئے۔ اسی لیے اس نے بلاک پرمکھوں اور ضلع پنچایت صدور کے انتخابات کو ٹال دیا۔ دہلی کے اشارے پر یو پی حکومت کی کوشش ہے کہ کسی بھی طرح اور کوئی بھی حربہ اختیار کرکے بلاک پرکھوں اور ضلع پنچایت کے صدور کے عہدوں پر اپنے لوگوں کو فائز کیا جائے۔ لوگوں کا خیال ہے کہ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے حکومت کچھ بھی کر سکتی ہے۔
بہرحال مبصرین کا یہاں تک کہنا ہے کہ اگر آج پارلیمانی انتخابات ہوں تو مودی حکومت کو 30 فیصد سے بھی کم ووٹ ملیں گے۔ اس سروے رپورٹ کے مطابق 41.1 فیصد رائے دہندگان کا کہنا ہے کہ کورونا وبا مودی حکومت کی پہلی بڑی ناکامی ہے۔ 23.1 فیصد کا کہنا ہے کہ زرعی قوانین دوسری بڑی ناکامی ہے۔ ساٹھ فیصد کا خیال ہے کہ کورونا وبا کے دوران انتخابات نہیں کرائے جانے چاہئیں تھے۔ 52 فیصد کے خیال میں حکومت نے لاک ڈاون کے دوران غریبوں کی مدد نہیں کی۔ 55 فیصد کا خیال ہے کہ کورونا وبا میں کمبھ میلہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔
اس طرح اگر حکومت کے حامی اس نیوز چینل کے سروے کے نتائج پر غور کریں تو پائیں گے کہ جہاں ایک طرف وزیر اعظم نریندر مودی کی مقبولیت کا گراف بہت زیادہ نیچے آگیا ہے وہیں حکومت کی کارکردگی سے بھی عوام کی ناراضگی بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ حکومت اس ناراضگی کو کم کرنے کی کوشش کرے گی لیکن مبصرین کا خیال ہے کہ معاملہ اتنا سنگین ہو گیا ہے کہ اب حکومت کی کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی۔ بہر حال آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔