گھوسی کی جیت ’انڈیا اتحاد‘ کے لیے ایک اہم پیغام
گھوسی میں دلت ووٹرس جس طرح بڑی تعداد میں سماجوادی پارٹی کے ساتھ آئے، اسے سماجوادی پارٹی کی حمایت سے زیادہ بی جے پی سے اس کی ناراضگی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
ضمنی اسمبلی انتخابات بھلے ہی 6 ریاستوں کی 7 اسمبلی سیٹوں کے لیے ہوئے ہوں، لیکن نظریں اتر پردیش کے گھوسی اسمبلی سیٹ پر سب سے زیادہ مرکوز تھیں اور اس کے کئی اسباب ہیں۔ یہ ضمنی انتخاب بی جے پی کی مرکزی قیادت، خصوصاً وزیر داخلہ امت شاہ کے لیے وقار کی جنگ تھی۔ اسے شاہ اور یوگی آدتیہ ناتھ کے درمیان نااتفاقی کے آئینے میں دیکھا جا رہا تھا اور اِنڈیا بمقابلہ این ڈی اے کی لڑائی کے پہلے امتحان کی شکل میں بھی۔ لیکن ہوا کیا، اور کیا رہا گھوسی کا حساب کتاب! اب جب بی جے پی کو زبردست شکست ملی ہے تو نتائج کی نئی طرح سے تشخیص فطری ہے۔ ضمنی انتخاب کے ساتھ ساتھ صوبے کے ضلع پنچایت ضمنی انتخابات میں لکھنؤ، مرزا پور، جالون، بہیڑی میں بھی سماجوادی پارٹی کی جیت نے کئی اہم پیغامات دیے ہیں۔
کئی بار انتخابی میدان کی اصل بساط نتائج کے بعد سمجھ میں آتی ہے۔ گھوسی میں بھی ایسا ہوا۔ دراصل یہاں جیت کی بنیاد اسی دن پڑ چکی تھی جب گھوسی کے لیے سماجوادی پارٹی کے امیدوار کا فیصلہ ہوا تھا۔ اکھلیش یادو نے شاید پہلی بار لکھنؤ میں کوئی ایسی میٹنگ بلائی تھی جس میں گھوسی حلقہ اور مئو کے بھی کچھ مقامی لیڈر شامل تھے۔ میٹنگ میں امیدوار کے انتخاب پر بات ہوئی، سدھاکر سنگھ کا نام آیا۔ اعلیٰ ذات کے امیدوار سے لے کر کئی دیگر طرح کی رائے کے باوجود اکثریت کی بنیاد پر مقامی پسند کو اکھلیش نے ترجیح دی اور نتائج سامنے ہیں۔ کہیں سے بھی امیدوار لا کر تھوپ دینے کے دور میں مئو کے نتیجہ کا یہ بھی ایک بڑا پیغام ہے۔
گھوسی اس لیے بھی خاص تھا کہ بی جے پی نے اپنے انداز میں ’توڑ پھوڑ‘ کر سماجوادی پارٹی کے ٹکٹ پر جیتے دارا سنگھ چوہان کو انہی کی جیتی اس سیٹ سے لڑانے کا فیصلہ کیا جو کبھی بھی روایتی طور سے مقبول نہیں رہے اور 1996 سے اب تک 9 بار پارٹی بدل کر ہر پارٹی کا چکر لگا چکے تھے۔ ان کا یہی پارٹی بدلنا، عدم استحکام، عوام سے دوری، مئو کے لیے باہری ہونا اور اس بار اعلیٰ قیادت کے ’آشیرواد‘ کے ساتھ بی جے پی میں لوٹنے کے بعد پیدا انا ان کی مصیبت بن گیا۔
اس کے برعکس سماجوادی پارٹی کے سدھاکر سنگھ کی ذاتی شبیہ، گھوسی ہی نہیں پورے مئو میں مشہور ’نیم کے پیڑ ترے والے نیتا جی‘ کی پہچان اور لگاتار موجودگی ان کے لیے پارٹی اور ذات سے اوپر جا کر مددگار ثابت ہوئی۔ سماجوادی پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے بھی گزشتہ غلطیوں سے سبق لیتے ہوئے اپنی پوری طاقت لگانے میں کسر نہیں چھوڑی اور اپنی روایتی سیٹ کو نہ صرف بچایا، بلکہ مزید مضبوط کر لیا۔
لیکن یہ سوچنا ضروری ہے کہ دارا کی شکست اور سدھاکر کی شاندار جیت میں اکھلیش یادو کے پی ڈی اے فارمولے کو سہرا دینے والے کہیں غلطی تو نہیں کر رہے۔ انتخاب کے پہلے یا جیتنے کے بعد بھی اگر اکھلیش یادو یہ حوالہ دیتے بھی ہیں تو زمینی سچ یہی رہے گا کہ انھوں نے یا ان کے کسی بڑے لیڈر نے انتخاب کے دوران کبھی کم از کم گھوسی میں اس فارمولے کا تذکرہ بھی نہیں کیا۔ مقامی حساب کتاب کو ٹھیک سے سمجھنے والے منوج سنگھ اس فارمولے کی ہوا کا بھی علاقے میں نہ پہنچنا جیت کی بڑی وجہ مانتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ گھوسی جیسے کاسٹ فارمولے اور امیدوار (سدھاکر سنگھ) کے تئیں ہر طرح سے ماحول موافق ہونے کے باوجود تنہا یہ فارمولہ الٹا پڑ سکتا تھا۔
حال کے کچھ انتخابات کے پولرائزیشن کو دھیان سے دیکھیں تو کم از کم سماجوادی پارٹی کو ذات اور سماج کی حدیں توڑ کر ایسی حمایت کم ہی نظر آتی ہے۔ 2019 کے انتخاب میں تو بی جے پی کو سماجوادی پارٹی کا روایتی یادو اور بی ایس پی کا جاٹو ووٹ بھی اچھے سے مل گیا تھا، اور نتائج اس کی تصدیق بھی کرتے ہیں۔ لیکن 2022 میں یوپی کے اسمبلی انتخابات کے نتائج نے جب جھٹکا دیا تو پارٹیاں بھی سنبھلیں، اور ووٹر کا دل بھی۔ پہلے کھتولی اور اب گھوسی نے پارٹیوں سے لے کر عوام (ووٹر) کے دل تک بننے والے ایکا کی ایک نئی زمین بھی دی ہے اور امکان بھی۔ کھتولی نے اگر مغربی اتر پردیش میں اکھلیش یادو-جینت چودھری کی جوڑی کو بی جے پی کے دبدبہ کی کاٹ کا فارمولہ دیا تو گھوسی کی عوام نے اِنڈیا اتحاد کو پوروانچل میں آگے کی لڑائی کا فارمولہ تھما دیا ہے۔ مین پوری ضمنی انتخاب کا نتیجہ تو گھوسی کی لڑائی کا نقطہ آغاز بھی ہے، دونوں کے درمیان توازن بنانے کا فارمولہ بھی۔
راجبھر کی سیاست کو لگا دھچکا:
ان انتخابی نتائج نے اوم پرکاش راجبھر کی سیاست کو زوردار دھچکا دیا ہے، جو خود کو پوروانچل کے بڑے علاقے میں اپنے نام نہاد دبدبہ کے داؤ کے سہارے کچھ بڑا حاصل کرنا چاہ رہے تھے۔ بی جے پی کے ساتھ جانے کے بعد وہ جس طرح ’پوروانچل میں جو ہم چاہیں گے وہی ہوگا‘ کی ہوا بناتے نظر آ رہے تھے، اس ریزلٹ نے اس کی ہوا نکال دی ہے۔ راجبھر کو لے کر شروع ہوئے حملے اور شکست کے بعد این ڈی اے میں مچی افرا تفری اسے وسعت دے رہے ہیں۔
پوری کابینہ اتارنے کے باوجود کیوں ہاری بی جے پی؟
ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ سارے اندازے، خصوصاً برسراقتدار طبقہ (بی جے پی) کا اندازہ غلط ثابت ہوا۔ گھوسی نے بار بار خود کو تول مول کے سہارے آگے رکھنے والی جماعت کو بھی جھٹکا دیا۔ زمینی حقیقت یہی ہے کہ سماجوادی پارٹی یہاں اپنی روایتی پکڑ اور مقامی حساب کتاب کے مطابق پالیسی کے سہارے آگے نکل گئی اور بی جے پی قیادت تکبر کی حد تک اپنے حد سے زیادہ اعتماد میں حالات کو پہچان ہی نہیں پایا۔ ورنہ دو دو نائب وزرائے اعلیٰ کے ساتھ پوری کابینہ کا وہاں طویل ڈیرا ڈالنا اس حد تک تو بے کار نہ جاتا۔
ایک غلط فہمی ٹوٹی:
ماننے والے کہتے ہیں کہ بی ایس پی چیف مایاوتی کا رخ بہت صاف نہ ہونے کے سبب دلت ووٹ تقسیم ہوئے اور بی جے پی کے ساتھ ہی سماجوادی پارٹی کو بھی ملے، لیکن زمینی سچ کچھ الگ ہے۔ دراصل یہ شاید مایاوتی کا سوچا سمجھا داؤ تھا کہ اس بار انھوں نے امیدوار تو نہیں ہی اتارا (بی ایس پی ویسے بھی ضمنی انتخاب عموماً نہیں لڑتی)، کسی بھی طرف نہ جانے کا ایسا اشارہ دیا جس سے ان کا ووٹر کچھ سوچنے کو مجبور ہوا۔ مایاوتی کی حالیہ سالوں کی سیاست اقتدار کے ساتھ جانے کی رہی ہے، اور وہ اسے اس بار بھی صاف کر چکی تھیں۔ لیکن ووٹرس کے دو دن قبل کی ان کی میڈیا بریفنگ نے کچھ ایسے حالات بنائے کہ دلت ووٹر کھل کر اور بڑی تعداد میں سماجوادی پارٹی کے ساتھ آ گیا۔ اسے سماجوادی پارٹی کو حمایت سے زیادہ بی جے پی سے اس کی ناراضگی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، جو آگے بھی بی جے پی کے لیے مصیبت بن سکتی ہے۔ کیونکہ دلت سماج کا بڑا طبقہ اب بی جے پی (اس کی نظر میں) دھیرے دھیرے کھلتی اصلیت کا اندازہ کرنے لگا ہے اور یہ سب اسے بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر کے بنائے آئین کو بدلنے کی کوشش اور ’ہم دلت ہیں تو استحصال ہی ہوگا‘ جیسی سوچ کا حقیقت سمجھ میں آنے کے سبب بھی ہوا ہے۔
یہ غلط فہمی بھی ٹوٹی:
اس انتخاب نے یہ ’غلط فہمی‘ یا ’سچ‘ کو توڑنے کا کام بھی کیا کہ یادو اور دلت ایک ساتھ آ ہی نہیں سکتے، اور یہ بھی کہ مسلم ووٹر الجھن میں ہوتا ہے اور اس کے ووٹ تقسیم ہو جاتے ہیں اور جس کا فائدہ بی جے پی کو ملتا ہے۔ ایسے میں سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا یہ ’یادو اور دلت‘ یا ’مسلم اور یادو‘ کا فارمولہ آگے بھی اسی طرح اور اسی سمت میں چلے گا۔ اس کا جواب گھوسی کے ہی ایک ووٹر شتروگھن لال کے اس بیان سے نکالا جا سکتا ہے کہ ’’جب اقتدار سے ناراضگی، عوام کے پریشان ہونے میں تبدیل ہو جائے تو ایسے ہی نتائج اور ایسے ہی تال میل سامنے آتے ہیں، جسے سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ شتروگھن بڑی آسانی سے ’ناراض‘ اور ’پریشان‘ کا فرق سمجھا دیتے ہیں۔ سچ ہے کہ حال کے دنوں میں بی جے پی کے اندر سے نہ بھی سہی، تو اس کی حمایت میں نظر آنے والوں کی ایک بڑی جماعت ایسی سامنے آئی ہے جو ’ہندو-مسلم‘ کے نام پر تقسیم بڑھانے، ساون کے بہانے نان ویج یا مٹن مرغ کی دکانیں بند کرا کر ایک طبقے کی معیشت پر چوٹ کرنے، جہاں تہاں منمانے ڈھنگ سے بلڈوزر چلانے اور سب سے زیادہ ’واٹس ایپ یونیورسٹی‘ کے ذریعہ پھیلائے جانے والے زہر سے پریشان ہیں۔
یوگی بنام شاہ کا معاملہ کیا ہے؟
کہا تو یہ بھی جا رہا ہے کہ تنہا گھوسی ضمنی انتخاب سے یوگی آدتیہ ناتھ نے کئی نشانے سادھ لیے۔ سب جانتے ہیں کہ بی جے پی سے نکلے دارا چوہان 2022 میں سماجوادی پارٹی کے ٹکٹ پر انتخاب لڑ کر گھوسی سے اسمبلی کے لیے منتخب ہوئے تھے، لیکن محض ڈیڑھ سال بعد ہی امت شاہ کی پیش قدمی پر، یوگی کی خواہش نہ ہونے کے باوجود پالا بدل کر جس طرح بی جے پی میں شامل ہوئے، وہ یوگی آدتیہ ناتھ کو پسند نہیں آیا تھا۔ دارا اور اوم پرکاش راجبھر، دونوں دہلی میں سیدھے امت شاہ سے ملاقات کے بعد بی جے پی میں شامل ہوئے تھے۔ یوگی تبھی سے ان کو کنارے لگانے کی کوشش میں تھے۔ منوج سنگھ کہتے ہیں کہ یوگی نے اس شکست سے کئی نشانے لگائے ہیں۔ ایک تو دارا چوہان کی جیت پر ان کو (مرکز کے وعدے کے مطابق) کابینہ کی سیٹ دینی پڑتی، دوسرے ایک اور سیٹ کا انتظام دارا کو ’جتانے کا سہرا‘ اپنے سر باندھنے کو تیار بیٹھے اوم پرکاش راجبھر کے لیے بھی کرنا پڑتا۔ ماہرین سمجھتے ہیں کہ یوگی نے گھوسی میں ’فری اینڈ فیئر‘ انتخاب کرانے کی ہدایت دے کر بھی یہ کام آسان کیا۔ انتخاب جیتنے کے بعد سدھاکر سنگھ نے جس طرح انتظامیہ کو ’فری اینڈ فیئر‘ ووٹنگ کرنے کے لیے مبارکباد دی، اس کے بھی کچھ مطلب ہیں۔
گھوسی نے یہ بھی یاد دلایا ہے کہ 2012 میں جامع سیاست کے جس قطب پر کام کر کے سماجوادی پارٹی نے زبردست اکثریت والی جیت حاصل کی تھی، اور بعد میں اسی جامع سیاست سے دور ہونا اسے کس طرح بھاری پڑا۔ حالانکہ پہلے مین پوری لوک سبھا کے لیے ضمنی انتخاب اور اب گھوسی میں سماجوادی پارٹی اس غلطی کی اصلاح کرتی ہوئی دکھائی دی۔ یہ بھی دکھائی دیا ہے کہ اکھلیش ’نئی ہوا ہے، نئی سپا (سماجوادی پارٹی) ہے‘ کا خواب اب جا کر شرمندۂ تعبیر کرتے نظر آئے ہیں، جو انھوں نے 2022 کے انتخابات سے پہلے ایک نعرے کی شکل میں دیا تھا۔ یہ بھی کہ اکھلیش اب سننے لگے ہیں، پیغام سمجھنے لگے ہیں۔
اور آخر میں...
زمینی حقیقت یہی ہے کہ گھوسی میں نہ انڈیا بمقابلہ این ڈی اے کی لڑائی تھی، اور نہ سماجوادی پارٹی اور بی جے پی کی۔ شروع سے آخر تک یہ سدھاکر بمقابلہ دارا، مقبول بمقابلہ عوام سے دوری، مقامی بمقابلہ باہری کی لڑائی بنی رہی اور انتخابی دنوں میں پارٹیوں کی جیسی بھی پالیسی نظر آئی ہو، ووٹنگ کے دوران عوام کے ذریعہ اختیار کی گئی پالیسی ہی نتیجہ خیز ثابت ہوئی۔ اس نے تمام دباؤ، خوف اور دھمکی باوجود گلیاں اور راستے بدلتے ہوئے بوتھ کا راستہ طے کیا اور نتائج نہ صرف امید افزا دیے بلکہ علیحدگی کی سیاست کو بری طرح شکست دے دی۔ مین پوری کے بعد گھوسی کے اس انتخاب نے اپوزیشن کے ساتھ ہی برسراقتدار طبقہ کو بھی اپنی اب تک ’جانچی پرکھی‘ پالیسی کو ایک بار الٹ پلٹ کر دیکھنے کو تو مجبور کیا ہی ہے، اپوزیشن کو انڈیا اتحاد آگے لے جانے کا ایک مضبوط فارمولہ بھی دے دیا ہے۔ یہاں نسلی بندھن توڑ کر ہوئی ووٹنگ اور اعلیٰ ذاتوں سے ملے بھاری ووٹ نے اکھلیش یادو کو اپنے پی ڈی اے (پسماندہ، دلت، اقلیت) فارمولے پر سنجیدگی سے از سر نو غور کا موقع بھی دیا ہے، کہ اگر یہ فارمولہ گھوسی پہنچا ہوتا تو نتائج بدلتے دیر نہیں لگتی، اور یہ بھی کہ بقیہ پوروانچل کا ایکویشن گھوسی سے بہت الگ نہیں ہے۔ نشان زد کرنے کی بات یہ بھی ہے کہ شاید یہ زمین پر موجود ہونے اور مقامی لوگوں سے لگاتار رابطہ کا نتیجہ ہی تھا کہ اکھلیش یا ان کے کسی چھوٹے بڑے لیڈر نے بھی پوری انتخابی تشہیر کے دوران ایک بار بھی ’پی ڈی اے‘ کا نام اپنی زبان سے لینے کی ضرورت نہیں سمجھی۔
بدلی ہوئی سمجھداری کا ایک اشارہ یہ بھی ہے کہ انتخاب میں بھلے ہی انڈیا اور این ڈی اے نہ دیکھا اور نہ سنا گیا ہو، نتائج آنے کے بعد اکھلیش یادو نے جس طرح سوشل میڈیا پر ’انڈیا ٹیم‘ کو مبارکباد دی، وہ اتحاد کی آگے کی سمت کے تئیں پراعتماد کرنے والا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔