الیکشن 2019: کچھ ایسے بدحواس ہوئے آندھیوں سے لوگ...سید خرم رضا

نریندر مودی نے 2014 لوک سبھا انتخابات میں خوب وعدے کیے تھے لیکن پانچ سال بعد حقیقت یہ ہے کہ لوگ خود کو چھَلا ہوا محسوس کر رہے ہیں اور وہ اپنی پانچ سال پہلے کی گئی غلطی کی تلافی کرنا چاہتے ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

سید خرم رضا

سال 2014 کے عام انتخابات کے بعد مختلف ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں جس طرح بی جے پی کو کامیابی ملی تھی اس کے بعد پورے ملک میں دو تاثر پیدا ہو گئے تھے۔ ایک تاثر یہ پیدا ہوا تھا کہ مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد ملک میں ایک بڑا انقلاب آنے والا ہے اور ملک اب ترقی کی ان اونچائیوں پر جائے گا جہاں وہ کبھی نہیں گیا تھا۔ دوسرا تاثر یہ تھا کہ اب بی جے پی کی فتح کے کارواں کو روکنا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے۔

آزادی کے بعد سال 2014میں یہ پہلی مرتبہ ہوا کہ غیر کانگریس پارٹی کو عام انتخابات میں مکمل اکثریت ملی اور کانگریس پچاس سے کم سیٹوں پر سمٹ گئی۔ آزادی کے بعد قومی سیاست میں یہ بڑی تبدیلی تھی جس کی کئی وجوہات تھیں۔ ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ نئی نسل کے لئے آزادی کی جدو جہد میں کردار ادا کرنے والے سیاسی رہنما اور پارٹیاں اب کوئی اہمیت نہیں رکھتیں بلکہ ان کی ترجیحات پوری طرح نئی اور بدلی ہوئی ہیں ۔ انتخابات میں سوشل میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا کا کردار سیاسی رہنماؤں اور ان کے کاموں سے زیادہ بڑا ہو گیا ہے ۔ اس کے ساتھ منموہن سنگھ کی دس سالہ حکومت سے بے وجہ کی ناراضگی اور بدعنوانی کے بینر تلے سنگھ اور اس کے ہم خیال ساتھی میدان میں اتر گئے تھے جن میں بابا رام دیو، شری شری روی شنکر، انا ہزارے، اروند کیجریوال وغیرہ نے پورے ملک میں ایک ایسا ماحول بنا دیا تھا کہ کانگریس کو اقتدار سے بے دخل کرتے ہی ملک میں ترقی اور خوشحالی کا راج ہوگا۔ آج پانچ سال بعد 2019 میں عوام کو احساس ہو گیا ہے کہ جو انہوں نے سوچا تھا وہ سب غلط ثابت ہوا اور ان کے امیدوں کے خواب چکنا چور ہو گئے۔

دوسرا تاثر جو بنا تھا کہ بی جے پی کے فتح کے کارواں کو کوئی روک نہیں سکتا۔ اس پر مہاراشٹر، ہریانہ اور کئی چھوٹی ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے نتائج نے اس پر مہر ضرور لگائی مگر اس تاثر کو پہلی ضرب دہلی کے 2015 کے اسمبلی انتخابات میں لگی جب مودی اور شاہ کی قیادت والی بی جے پی کو محض تین سیٹیں ملیں اور عوام نے ستر میں 67 سیٹیں عام آدمی پارٹی کو دیں۔ اس کے بعد بہار میں جھٹکا لگا جہاں پھر بی جے پی نے چوری سے اپنی اتحادی حکومت قائم کر لی ۔ اتر پردیش سے بی جے پی کو پھر سہارا ملا اور اسمبلی انتخابات میں زبردست کامیابی ملی۔ لیکن اتر پردیش کے ضمنی انتخابات میں زبردست شکست کا سامنا کرنا پڑا اور خاص طور سے وزیر اعلی کے حلقہ گورکھپور سے جس طرح بی جے پی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا وہ سیدھا پیغام تھا کہ مودی اور بی جے پی ناقابل تسخیر نہیں ہیں ۔ اس کے بعد کرناٹک ، پھر تین ہندی ریاستوں میں جس طرح بی جے پی کی حکومتوں کو بے دخل کر کے کانگریس برسراقتدار آئی تو اس نے اس بات پر مہر لگا دی کہ مودی دیگر رہنماؤں کی طرح ہی ہیں جو کبھی بھی ہار سکتے ہیں ۔

آج یہ دونوں ہی تاثر پوری طرح ٹوٹ چکے ہیں کہ کانگریس کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے بعد ملک بڑی ترقی کرے گا اور یہ کہ مودی اور بی جے پی نا قابل تسخیر ہیں ۔ پانچ سال بعد حقیقت یہ ہے کہ لوگ خود کو چھلا ہوا محسوس کر رہے ہیں اور وہ اپنی پانچ سال پہلے کی گئی غلطی کی تلافی کرنا چاہتے ہیں ۔ اس موقع پر ایک شعر یاد آ رہا ہے ۔

کچھ ایسے بدحواس ہوئے آندھیوں سے لوگ

جو پیڑ کھوکھلے تھے انہیں سے لپٹ گئے

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔