راجستھان حکومت گرانے کے لیے مہاراشٹر بی جے پی کی فنڈنگ؟... اعظم شہاب
مہاراشٹر کانگریس کے ترجمان کا الزام ہے کہ راجستھان میں کانگریسی ممبران اسمبلی کو خریدنے کے لیے مہاراشٹر کے بی جے پی لیڈران نے ممبئی کے کاروباریوں اور بلڈروں سے پانچ سو کروڑ روپے جمع کیے
راجستھان کی حکومت کو گرانے کے لیے مہاراشٹر بی جے پی نے 500 کروڑ روپئے کی فنڈنگ کی ہے۔ یہ دعویٰ ہے مہاراشٹر کانگریس کمیٹی کے جنرل سکریٹری سچن ساونت کا جنہوں نے اس کی شکایت ریاستی وزیر داخلہ انیل دیشمکھ سے بھی کی ہے اور انیل دیشمکھ جس کی تفتیش کرا رہے ہیں۔ ساونت کے اس الزام پر بی جے پی کی جانب سے مکمل خاموشی ہے جس کا مطلب یہی ہے کہ اس الزام میں کسی نہ کسی حد تک سچائی ضرور ہے۔ خبر تو یہ بھی ہے کہ یہ پانچ سو کروڑ روپئے ممبئی کے جن بلڈروں وکاروباریوں نے ’دان‘ کیے ہیں، ان کی نشاندہی بھی ہوچکی ہے۔
لیکن اب اس طرح کی خبریں سامنے آنے پر کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے کیونکہ اب بازار سیاست میں یہ کھیل، خرید وفروخت، وفاداریاں یا یہ کہیے کہ ایمان تک کو خریدنے کی کوشش کوئی معیوب بات نہیں رہ گئی ہے، بلکہ گزشتہ 6 سالوں سے یہ ایک سیاسی مہارت بن چکی ہے کہ مخالف خیمے کو اجاڑا جائے، بھلے ہی وہ دستوری وجمہوری اصولوں پر قائم ہو۔ بی جے پی کے جنرل سکریٹری رام مادھو اسے امت شاہ کا نام دیتے ہیں جبکہ بی جے پی کے عام لوگ اسے چانکیہ نیتی کہتے ہیں۔ لیکن معلوم نہیں کیوں جب اسی چانکیہ نیتی کا استعمال راجستھان کانگریس نے کرتے ہوئے اپنے سکوں کو بکھرنے سے بچالیا تو بی جے پی کے پیٹ میں زوروں سے مروڑ شروع ہوگیا، کیونکہ بی جے پی اس مہارت پر صرف اپنا کاپی رائٹ سمجھتی ہے۔
کرناٹک میں جب کانگریس اور جی ڈی ایس کی حکومت گرائی گئی تھی تو اس وقت مہاراشٹر میں بی جے پی کی ہی حکومت تھی۔ کرناٹک میں کانگریسی ممبرانِ اسمبلی کو اغواء کرکے ممبئی ہی لایا گیا تھا، جہاں وہ حکومت کے مہمان تھے۔ جس ہوٹل میں انہیں ٹھہرایا گیا تھا اسے حکومت نے پولیس چھاؤنی بنا دیا تھا تاکہ کوئی ان سے ملاقات تک نہ کرسکے۔ کانگریس کے کئی مقامی لیڈروں نے یہ کوشش کی ان سے ملاقات کریں تو انہیں ہوٹل کے اندر تک داخل ہونے سے روک دیا گیا تھا۔ فون پر بات کرنے کی کوشش کی خبر آئی تو معلوم یہ ہوا تھا کہ ان کے فون تک ان کے پاس نہیں ہیں۔ اس پر مہاراشٹر بی جے پی کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جاتا رہا کہ وہ اپنی مرضی سے یہاں آکر ٹھہرے ہوئے ہیں اور حکومت پروٹو کول کے مطابق ان کی حفاظت کر رہی ہے۔ جبکہ اسی مہمان نوازی کے دوران مہاراشٹر کے ایک سینئر بی جے پی وزیر کی رہائش گاہ پر ان کی میٹنگیں بھی ہو رہی تھیں۔ اس لیے راجستھان کی حکومت گرانے کے لیے مہاراشٹر بی جے پی کے لیڈران کے تعاون سے کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیے۔
راجستھان میں بی جے پی نے کانگریسی ممبرانِ اسمبلی کو خریدنے کی کوشش کی، انہیں پیسوں سے لے کر وزارت تک کی لالچ دی، لیکن بی جے پی کو اس پر کوئی افسوس نہیں ہے۔ اسے کوئی ندامت نہیں کہ وہ رنگے ہاتھوں پکڑی گئی اور ایک منتخب شدہ جمہوری حکومت کو گرانے کی سازش رچی۔ البتہ اسے تکلیف اس بات کی ہے کہ خرید و فروخت کے لیے اس کے لوگوں نے فون پر جو بات چیت کی وہ ٹیپ کیوں کرلی گئی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بی جے پی والے اس پرناگن ڈانس کر رہے ہیں۔ وہ سی بی آئی جانچ کا مطالبہ کر رہے ہیں، کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ سی بی آئی کی جانچ سے ہی انہیں مطلوبہ نتائج حاصل ہوسکتے ہیں۔ وگرنہ راجستھان کی ایس اوجی اور اے سی بی نے تو اپنی ابتدائی جانچ سے اس سازش میں بی جے پی کے راست طور پر ملوث ہونے کو بے نقاب کر دیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کسی کا فون ٹیپ کرنا غیرقانونی وغیراخلاقی ہے تو پھر کسی منتخب شدہ جمہوری حکومت کو گرانے کے لیے اس کے ممبران کو خریدنا، انہیں دھمکانا، انہیں بغاوت پر آمادہ کرنا کیا قانونی واخلاقی قرار پائے گا؟
مہاراشٹر میں بی جے پی کے طریقہ کار کے بارے میں کچھ عرض کرنے سے قبل ہم تھوڑا سا آموختہ دوہرا لیتے ہیں۔ عین اسمبلی الیکشن سے قبل جب ریاست میں راج ٹھاکرے کی پارٹی کے بارے میں یہ خبر آنے لگی تھی کہ وہ این سی پی کے ساتھ الائنس کرنے والی ہے تو پھر اچانک ایک دن معلوم ہوا کہ راج ٹھاکرے ایک مالی بدعنوانی میں ملوث ہیں اور ای ڈی کے ذریعے ان کی تفتیش ہونے والی ہے۔ ریاست کے لشکر فڑنویس نامی میڈیا نے خبردی کہ کوہ نور مل کی خریداری میں بدعنوانی ہوئی ہے اور راج ٹھاکرے اس میں شراکت دار ہیں۔ جبکہ جس شراکت داری کی بات کی جارہی تھی، راج ٹھاکرے اس سے عرصہ پہلے خود کو علیحدہ کرچکے تھے۔ اس کے باوجود ای ڈی کی جانب سے ان کی تفتیش ہوئی، گھنٹوں تک انہیں ای ڈی کے دفتر میں بٹھائے رکھا گیا۔ اس تفتیش کا نتیجہ یہ نکلا تھا کہ راج ٹھاکرے کی پارٹی کا این سی پی یا کانگریس سے کوئی اتحاد نہیں ہوا۔ اس کے بعد بھی بی جے پی کو یہ خوف لاحق رہا کہ ریاست کے عوام اسے مسترد کردے گی، اس لیے این سی پی وکانگریس کے لیڈران کی بی جے پی وشیوسینا میں ’میگابھرتی‘ کروائی گئی۔ لیکن ایک انتخابی جلسے میں شردپوار کی موسلادھار بارش کے دوران کی گئی تقریر نے بی جے پی کے تمام سپنوں پر پانی پھیر دیا اور جس پارٹی کو وہ دس سیٹوں تک سمیٹنے کا خواب دیکھ رہی تھی، وہ ہاف سنچری سے بھی 6 سیٹ آگے تک پہنچ گئی۔
اب یہی طریقہ کار راجستھان میں بھی دہرایا جارہا ہے۔ ای ڈی اور انکم ٹیکس کے چھاپے ان لوگوں کے یہاں پچھلے 6 دن پہلے سے ہی شروع ہوچکے ہیں جو کسی نہ کسی طور پر اشوک گہلوت کے قریبی یا کانگریس کے بہی خواہ سمجھے جاتے ہیں۔ یعنی گویا بی جے پی اپنے پیسے اورمرکزی حکومت کے خالص دستوری اختیارات کو کانگریسی حکومتوں کو کمزور کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ پیسوں اور اختیارات کا یہی استعمال کئی شمالی ریاستوں سمیت کرناٹک و ایم پی میں ہوا اور اب راجستھان میں ہو رہا ہے۔ دراصل یہی آپریشن لوٹس ہے اور یہی بی جے پی کی چانکیہ نیتی ہے۔ پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مہاراشٹر بی جے پی کے جو لیڈران راجستھان کی حکومت گرانے کے لیے فنڈنگ کرسکتے ہیں وہ خود مہاراشٹر میں کانگریس کی حکومت کیوں نہیں گرا دیتے ہیں؟ تو اس کا جواب نہایت آسان ہے اور وہ یہ ہے کہ یہاں شردپوار کی گرفت کے آگے وہ بے بس ہیں۔ ابتداء میں انہوں نے کچھ کوششیں ضرور کیں، لیکن وہ ایک ایکسرسائز سے آگے نہیں بڑھ سکیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں ہے کہ بی جے پی یہاں خاموش بیٹھی ہے۔ رات دن وہ اپنی اس چانکیہ نیتی کو عملی جامہ پہنانے میں مصروف ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ حکومت گرانے کے ڈرامے کا مہورت مہاراشٹر میں کب نکلتا ہے۔البتہ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ مہاراشٹر میں بی جے پی کے جنازے سے کم نہیں ہوگا جس کا اندازہ بی جے پی والوں کو بھی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔