ڈری سہمی حکومت کا پارلیمانی اجلاس کے انعقاد سے فرار... سہیل انجم
حکومت صاف صاف کیوں نہیں کہتی کہ وہ متنازع زرعی قوانین پر بحث کرانے کے لیے تیار نہیں، اس لیے وہ سرمائی اجلاس نہیں بلا سکتی۔ جب وہ ہر بات کھلم کھلا کرتی ہے تو یہ بات بھی کرے۔
مرکز کی این ڈی اے حکومت بظاہر یہ دکھانے کی کوشش کرتی ہے کہ وہ ایک بہت مضبوط حکومت ہے۔ وہ کسی سے خوف زدہ نہیں۔ وہ کسی بھی بحث سے بھاگتی نہیں۔ وہ عوام کی ہمدرد حکومت ہے۔ وہ غریبوں، مزدوروں اور دبے کچلے طبقات کی حکومت ہے۔ لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ یہ حکومت بظاہر تو بہت مضبوط ہے لیکن حقیقتاً اندر سے بہت ڈری سہمی اور خوف زدہ ہے۔ اسے انتہائی کمزور ہوتے ہوئے اپوزیشن سے بھی ڈر لگتا ہے اور عوامی ناراضگی سے بھی خوف آتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اس کا اظہار نہیں کرتی لیکن اس کے فیصلے اس کی گواہی دے دیتے ہیں۔
اب یہی دیکھیے کہ اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کسانوں کا احتجاج ہے۔ حالانکہ کچھ دنوں قبل تک کورونا سب سے بڑا مسئلہ تھا۔ لیکن اب کورونا کا زور ٹوٹ گیا ہے اور اس کی شدت بہت حد تک کم ہو گئی ہے۔ جب بھی کوئی بڑا مسئلہ سامنے آتا ہے تو حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ یا تو از خود اسے حل کرے اور اگر ایسا نہیں کر سکتی تو اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ صلاح و مشورہ کرے اور مسئلے کا کوئی حل نکالے۔ اور اگر عوام کا کوئی طبقہ حکومت کے کسی فیصلے سے مطمئن نہیں ہے اور وہ سڑکوں پر اترا ہوا ہے تو حکومت اس طبقے کے نمائندوں سے مل کر ان کی شکایات جاننے کی کوشش کرے اور پھر ان کو دور کرے۔ جمہوریت میں یہی ہوتا ہے اور جمہوری حکومت کو اسی لیے عوام کی حکومت کہا جاتا ہے۔
پارلیمانی جمہوریت میں پارلیمانی اجلاسوں کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ ان اجلاسوں میں سب سے بڑا کام تو قوانین سازی ہوتا ہے لیکن ایک بڑا کام یہ بھی ہوتا ہے کہ اگر کوئی عوامی مسئلے ہے تو اس پر ایوان کے اندر بحث کی جاتی ہے اور اس کے تمام پہلووں کو سامنے لا کر کوئی حل نکالا جاتا ہے۔ جیسا کہ ذکر کیا گیا کہ اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ حکومت کے ذریعے انتہائی عجلت میں منظور کیے جانے والے تین متنازع زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کا احتجاج ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان قوانین کی مدد سے زرعی شعبے پر کارپوریٹ اداروں کا قبضہ ہو جائے گا۔ لہٰذا ان کا مطالبہ ہے کہ حکومت ان قوانین کو واپس لے۔
حکومت اس کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ قوانین کسانوں کے مفاد میں بنائے گئے ہیں اور ان کو واپس لینے کا کوئی سوال ہی نہیں ہے۔ اس معاملے پر جس طرح کسانوں کے نمائندوں سے لچک دار انداز میں حکومت کو بات کرنی چاہیے وہ اس طرح سے نہیں کر رہی ہے۔ جو چھ ادوار کی بات چیت ہوئی ہے اس میں حکومت نے کسی لچک کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اسی لیے وہ ناکام ہو گئی۔ ایسے میں اس بات کی ضرورت تھی کہ پارلیمنٹ کے اجلاس میں اس پر بحث کرائی جاتی۔ پارلیمنٹ کے تین اجلاس ہوتے ہیں۔ پہلا بجٹ اجلاس جو جنور ی کے اواخر سے مارچ کے اوائل تک چلتا ہے۔ دوسرا مانسون اجلاس جو جولائی سے اگست تک چلتا ہے اور تیسرا سرمائی اجلاس جو نومبر اور دسمبر میں بلایا جاتا ہے۔
یہ وقت سرمائی اجلاس کا ہے۔ کانگریس کے رہنما ادھیر رنجن چودھری نے پارلیمانی امور کے وزیر پرہلاد جوشی کو ایک مکتوب لکھ کر سرمائی اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا۔ لیکن پارلیمانی وزیر نے اس کے جواب میں کہا کہ امسال سرمائی اجلاس نہیں ہوگا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ چونکہ اس وقت کورونا کی وبا چل رہی ہے اس لیے اگر ایسے میں اجلاس طلب کیا گیا تو اس سے بہت خطرات پیدا ہو سکتے ہیں۔ حکومت کی اس دلیل کو اپوزیشن پارٹیوں نے مسترد کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب کورونا کی وبا کا زور ٹوٹ گیا ہے لہٰذا اجلاس بلانے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ اور پھر حکومت نے مانسون اجلاس تو بلایا ہی تھا۔ حالانکہ اس وقت کورونا کی وبا اپنے عروج پر تھی۔ اور قابل ذکر ہے کہ اسی اجلاس میں حکومت نے ستمبر ماہ میں تینوں متنازع قوانین منظور کیے تھے۔
دراصل حکومت بہانہ بازی کرکے کسانوں کے مسائل پر بحث سے بچنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ہندوستان میں کورونا کا عروج ستمبر میں آیا تھا جو کہ گزر چکا ہے۔ دہلی میں بھی کورونا کی تیسری لہر ختم ہو گئی ہے اور اب حالات رفتہ رفتہ معمول پر آرہے ہیں۔ اس کے باوجود حکومت اجلاس بلانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس کو ڈر ہے کہ اگر اجلاس بلایا گیا تو اپوزیشن حکومت کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دے گا۔ جو بحث ہوگی وہ پورے ملک میں سنی جائے گی اور زرعی قوانین کی منظوری میں حکومت نے جس اڑیل رویے کا مظاہرہ کیا تھا وہ بھی سب کے سامنے آجائے گا۔ یاد رہے کہ جب یہ بل ایوان میں پیش کیے گئے تھے تو اپوزیشن کی جانب سے جلد بازی میں انھیں منظور نہ کیے جانے اور انھیں پارلیمنٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے حوالے کیے جانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ لیکن حکومت نے ایک نہیں سنی اور اس نے اپوزیشن کی باتوں کو درکنار کرکے انھیں صوتی ووٹوں سے منظور کرا لیا تھا۔
جہاں تک حکومت کی جانب سے کورونا کے بہانے کی با ت ہے تو ایک تو یہ سچائی سب کے سامنے ہے کہ کورونا کی وبا اب ختم ہو رہی ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ کورونا کے دور میں ہی کئی ریاستوں میں انتخابات ہوئے۔ لیکن وہاں کورونا کچھ نہیں بگاڑ سکا۔ بہار میں ہزاروں ہزار کی بھیڑ میں وزیر اعظم مودی اور دوسرے لیڈروں نے تقریریں کیں۔ نہ تو وہاں سماجی فاصلے کا کوئی خیال رکھا گیا نہ ہی کورونا سے متعلق احتیاطی تدابیر ہی اختیار کی گئیں۔ کیا اس وقت کورونا نہیں تھا۔
اس کے بعد حیدرآباد میں میونسپل کارپوریشن کا انتخاب ہوا جہاں امت شاہ نے روڈ شو کیا۔ کیا وہاں کورونا نہیں تھا۔ اور اب امت شاہ مغربی بنگال میں ریلیاں اور جلسے کر رہے ہیں۔ کیا وہاں کورونا نہیں ہے۔ الیکشن ہو سکتا ہے اور نیتا لوگ ہزاروں کے مجمع میں تقریریں کر سکتے ہیں اور ان جلسوں میں کورونا گائڈ لائن کی دھجیاں اڑائی جاسکتی ہیں لیکن پارلیمانی اجلاس نہیں ہو سکتا۔
یہ بھی پڑھیں : سنبھل جاؤ مسلمانوں، مصیبت!... نواب علی اختر
حالانکہ دوسرے کئی ملکوں میں کورونا کے عروج کے زمانے میں پارلیمنٹ کا اجلاس بلایا گیا۔ خود ہندوستان میں سارے کام ہو رہے ہیں۔ کون سا ایسا کام ہے جو نہیں ہو رہا ہے۔ خود کسانوں کا اتنا بڑا احتجاج ہو رہا ہے۔ کیا وہاں کورونا نہیں ہے۔ وزیر اعظم کسان احتجاج کو ناکام بنانے کے لیے دوسرے شہروں میں جا کر نام نہاد کسانوں سے خطاب کر رہے ہیں کیا وہاں کورونا نہیں ہے۔ کورونا صرف دہلی میں ہے اور وہ بھی صرف پارلیمنٹ کی بلڈنگ میں۔ یہ کیا تماشہ ہے۔ حکومت صاف صاف کیوں نہیں کہتی کہ وہ متنازع زرعی قوانین پر بحث کرانے کے لیے تیار نہیں ہے اس لیے وہ سرمائی اجلاس نہیں بلا سکتی۔ جب وہ ہر بات کھلم کھلا کرتی ہے تو یہ بات بھی کرے۔ لیکن نہیں۔ وہ ڈری ہوئی ہے۔ خوف زدہ ہے۔ اس کو معلوم ہے کہ اگر اس نے ایسا کہا تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ اس لیے وہ کورونا کا بہانہ بنا کر راہ فرار اختیار کر رہی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 20 Dec 2020, 9:58 PM