بدتر حکمرانی کے 4 سال: مودی حکومت میں دلتوں کا مین اسٹریم میں آنا ناممکن

بی جے پی حکومت میں دلتوں کے ساتھ تفریق ہو رہی ہے، بدتر صورت حال یہ ہے کہ انہیں وقار کے ساتھ جینے اور اپنی روزی روٹی چلانے سے روکا جا رہا ہے۔

مطالبات کو لے کر مظاہرہ کرتے دلت نوجوان
مطالبات کو لے کر مظاہرہ کرتے دلت نوجوان
user

سجاتا آنندن

ممبئی بی جے پی کے دفتر میں پارٹی کے ایک سینئر لیڈر کی بیٹی، جو ان کے معاون کے طور پر کام کرتی ہے، دلتوں کا ذکر ہونے پر اپنی ناک سکوڑ لیتی ہے، اسے ان کی تکلیفوں سے کوئی ہمدردی نہیں ہے اور وہ مانتی ہے کہ ان کے بارے میں بحث کرنا فضول ہے۔

حالانکہ، جدید دور میں آپ ان کو ساتھ لئے بغیر سیاست میں نہیں رہ سکتے ہیں، اپنی سوچ سے اس کےاتفاق کی تصدیق ہونے پر وہ نرمی سے کہتی ہیں ، ’’وہ ہمارے لئے اچار کی طرح ایک اضافی ڈش ہے، کھانے کو پیٹ کے نیچے اتارنے کے لیے آپ کھانے کے ساتھ ایک ذرا سے اچار کی ضرورت پڑتی ہے، لیکن وہ کبھی اہم کھانا نہیں بن سکتا ہے‘‘حیران کرنے کے لئے یہ رویہ کافی نہیں تھا ،تو وہ اور واضح الفاظ میں کہتی ہیں،’’پارٹی دفتر میں ان سے بات چیت کرنے تک تو ٹھیک ہے، لیکن ہماری ثقافت اتنی مختلف ہے کہ ہم گھر میں ان کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے ہیں۔

جب یہ واضح کرنے کے لئے کہا گیا کہ کس طرح سے ایک ہندو کی تہذیب دوسرے ہندو سے مختلف ہو سکتی ہے تو وہ حیرت میں پڑ گئی، اس کے پا س اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔ اگر یہ آر ایس ایس کے نظریہ میں ڈوبے کسی غیر سیاسی شخص کی سوچ ہے تو اس بات میں کوئی حیرانگی نہیں ہونی چاہئے کہ بی جے پی کی حکمرانی کے دوران دلتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے۔ گئو رکشا تو اس امتیاز کا محض ایک پہلو ہے۔ مودی حکومت میں تو ان کو عزت کے ساتھ زندگی گزارنے ٍاور اپنا روزگار چلانے سے بھی روکا جا رہا ہے۔

2016 میں گجرات کے اونا میں مردہ گائے کا چمڑہ اتار رہے کچھ دلت نوجوانوں کو ایک گاڑی سے باندھ کر شہر میں پریڈ کرانے کے واقعہ کا مودی حکومت کے لئے جو نتیجہ سامنے آیا وہ یہ تھا کہ اس واقعہ نے نہ صرف اس سماج میں قیادت کا رخ تبدیل کر دیا بلکہ ہندوستان بھر میں بیداری کا ماحول پیدا ہوا۔ اس واقعہ کے فوری نتیجہ کے تحت دلتوں نے کم از کم گجرات میں جانوروں کی لاشیں اٹھانے سے انکار کرتے ہوئے انتظامیہ کو سکتہ میں لا دیا۔ گاؤں میں اعلیٰ ذات کے لوگوں کو یہ احساس ہوا کہ وہ ان کی خدمات کے بغیر نہیں رہ سکتے تو ناگپور واقع آر ایس ایس کے دفتر سے یہ حکم جاری ہوا کہ دلتوں کو ان کا روایتی کام کرتے وقت نہ مارا جائے۔ ساتھ ہی اگر اونا جیسا کوئی واقعہ دوبارہ پیش آئے تو سوشل میڈیا پر ویڈیو پوسٹ نہ کریں۔ اس سے واضح ہے کہ انہیں ہجوم کی طرف سے دلتوں کے قتل کئے جانے کے مقابلہ میں اپنی شبیہ کی زیادہ فکر ہے۔ آر ایس ایس یا مودی حکومت کی طرف سے دلتوں کے خلاف اعلیٰ ذاتوں کے امتیازی سلوک کے مدے پر بات کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔

لیکن مودی حکومت میں دلتوں کے لئے صرف گاؤں کی سطح پر یا ان کے روایتی پیشہ کے تعلق سے ہی امتیاز نہیں کیا جارہا ہے بلکہ بات اس سے کہیں آگے نکل چکی ہے۔ اونا واقعہ سے ایک سال قبل حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی کے ایک دلت تحقیق کے طالب علم روہت ویمولا نے یونیورسٹی میں اعلیٰ ذاتوں کے امتیازی سلوک سے آجز آکراپنے ہاسٹل میں خود کشی کر لی۔ اس معاملہ کو سنجیدگی سے لینے کے بجائے حکومت کی ساری کوشش یہ ثابت کرنے کی تھی کہ وہ دلت ہی نہیں تھا۔ اس کی موت کے بعد اس کے خاندان کا استحصال اس حد تک بڑھ گیا کہ کچھ مہینوں بعد اس کی ماں نے بودھ مذہب اختیار کر لیا۔ تاکہ وہ ان اعلیٰ ذاتوں سے بچ سکیں جن کی توجہ ان کے بیٹے کو انصاف دلانے سے زیادہ اس بات پر تھی کہ وہ اپنے حالات سے فائدہ اٹھا نے کی کوشش کر رہی ہیں۔

بامبے یونیورسٹی کے شعبہ سماجیات میں پروفیسر رمیش کامبلے کا ہمیشہ سے یہ خیال رہا ہے کہ آئین میں موجود مساوات کے نظریہ کے تئیں دکھاوا تو ہر سیاسی جماعت نے کیا لیکن حقیقت میں ہندوستان کی کسی سیاسی جماعت نے اس نظریہ کی پاسداری نہیں کی ۔ کچھ ہفتہ قبل بی جے پی کے اندر دلت ارکان پارلیمنٹ کی بغاوت کو دیکھ کر یہ محسوس ہوا کہ دلتوں کے لئے جو نام نہاد عزت تھی مودی حکومت میں وہ بھی ختم ہو گئی ہے۔

ڈاکٹر بی آر امبیڈکر اور بہوجن مہاسنگھ کے صدر پرکاش امبیڈکر کے مطابق ایسا آر ایس ایس کی وجہ سے ہو رہا ہے جو ابھی تک دلت سماج کو مہتر اور خدمت گزار بنائے رکھنا چاہتی ہے اور یہ سمجھانے سے قاصر ہے کہ آئینی ضمانت کے 70 سالوں میں حقیقت میں دلتوں کو اپنی پیدائش سے اوپر اٹھنے، روایتی زنجیروں کو توڑنے اور خود کو مظالم سے بچانے کے قابل انہیں بنایا ہے۔ جگنیش میوانی جیسے دلت رہنما اپنے سماج کے لئے آواز اٹھا رہے ہیں، اس لئے گجرات اور مرکزی حکومت کی آنکھ کی کرکری بنے ہوئے ہیں۔

اس بات سے صاف ہے کہ کس طرح مہاراشٹر کے پونے کے نزدیک بھیما کورےگاؤں میں پیشوا کی فوج پر جیت کا 200 سالہ جشن منا رہے دلتوں کو اعلیٰ ذات کےلوگوں نے اکسایا اور ان پر حملہ بول دیا۔ بعد میں یہ حملہ آور بی جے پی کارکنان اور مفکر نکلے۔ حکومت کی طرف سے اس واقعہ کے سرکردہ سازش کرنے والے سمبھا جی بھیڑے کو بعد میں سیکورٹی فراہم کر نا اور گزشتہ سال پدم اعزاز کے لئے ان کے نام کی سفارش کرنا ، دلتوں کو ان کی فتح، ان کے ہیرو، ان کے وقار اور دیگر طبقات کے ساتھ ان کے پرامن بقائے باہمی کا جشن منانے سے انکار کرنے کے خطرناک سازشوں پر یقین دلاتا ہے۔

جیسا کہ ثابت ہو گیا ہے کہ ان بی جے پی مفکرین کی کوشش مرہٹوں اور دلتوں کے درمیان دراڑ پیدا کرنا تھی ۔ اس کے باوجود جیسا کہ بی جے پی مفکرین چاہتے تھے یہ واقعات دونوں کے بیچ تلخی کو پوری طرح ذاتیاتی جھگڑے میں تبدیل کرنے کے لئے کافی نہیں تھے۔ ان کے خلاف ثبوت ہونے کے باوجود وہ سبھی آزاد گھوم رہے ہیں۔

اگلے لوک سبھا انتخابات سے ایک سال پہلے بی جے پی کے دلت ممبران پارلیمنٹ کی طرف سےاپنی پارٹی کو لے کر نظر ثانی کرنی شروع کرنے سے کم از کم دلت سماج کے سامنے یہ واضح ہو گیا ہے کہ موجودہ حکومت میں انہیں سیاسی طور پر کوئی بنیادی تحفظ یا ضمانت حاصل نہیں ہے، سماجی طور پر بات کریں تو وہ آزادی کے بعد کسی بھی حکومت سے بدترصورت حال میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔