بی جے پی کے خلاف سیاسی پولرائزیشن کی بنیاد ثابت ہوئی کولکاتا ریلی

کولکاتا میں منعقد ریلی نے اپوزیشن میں یکجہتی کا وہ احساس پیدا کر دیا ہے کہ بھلے خیالات میل نہ کھاتے ہوں پھر بھی آئندہ عام انتخابات میں بی جے پی کو شکست دینے کے لئے ایماندارنہ کوشش کریں گے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

اوما کانت لکھیڑا

ترنمول کانگریس کی قیادت میں کانگریس سمیت 22 سیاسی جماعتوں کے کئی اہم رہنماؤں کی شرکت سے کولکاتا بریگیڈ پریڈ میدان میں ہفتہ کو دن بھر چلی ریلی نے ملک بھر میں بی جے پی کے خلاف ایک بڑے سیاسی پولرائزیشن کی بنیاد ڈال دی ہے۔ بی جے پی کے خلاف اپوزیشن اتحاد کی اس ریلی کا اثر کئی ریاستوں میں پڑنا طے ہے، آنے والے دنوں میں امراوتی، دہلی، بہار، اتر پردیش اور باقی حصوں میں مهاگٹھ بندھن کی ریلیوں کا خاکہ تیار ہو گیا ہے۔

بی جے پی کے خلاف سیاسی پولرائزیشن کی بنیاد ثابت ہوئی کولکاتا ریلی

مغربی بنگال میں اندرونی سیاسی تضادات کے باوجود اس ریلی نے اپوزیشن کے باہمی اختلافات کو بھلا کر اس بات پر یکجہتی کا احساس پیدا کر دیا ہے کہ بھلے خیالات میل نہ کھاتے ہوں پھر بھی آئندہ عام انتخابات میں بی جے پی کو شکست دینے کے لئے ایماندارنہ کوشش ضرورکریں گے۔

گزشتہ روزہفتہ کو ممتا بنرجی نے اس بات کی پہل عوامی طور پر کر دی، سابق مرکزی وزیر خزانہ اور بی جے پی کے سینئر لیڈروں میں شمار رہے یشونت سنہا اور ارون شوری کی بی جے پی کے خلاف اپیل رہی، سب سے زیادہ دھماکے دار تقریر بی جے پی کے لوک سبھا ممبر پارلیمنٹ شتروگھن سنہا کی رہی۔ انہوں نے رافیل معاملے میں کانگریس صدر راہل گاندھی کے نعرے کے طرز پر کہہ دیا، "چوکیدار چور ہے۔"

یشونت سنہا نے اس بات پر زور دیا کہ پورے ملک میں بی جے پی امیدوار کے خلاف اپوزیشن کا مشترکہ امیدوار کھڑا کرنے پر اگر ایک رائے ہو جائے تو مرکز میں بی جے پی کے دوبارہ حکومت بنانے کے خوابوں کو چکناچور کیا جا سکتا ہے۔

بی جے پی کے خلاف سیاسی پولرائزیشن کی بنیاد ثابت ہوئی کولکاتا ریلی

آئندہ عام انتخابات میں اپوزیشن کے اتحاد کے لئے سب سے اہم فارمولا نیشنل کانفرنس کے صدر اور سابق وزیر اعلی فاروق عبداللہ نے دیا ہے، بقول ان کے بی جی پی کو شکست دینے اور انتخابات میں اس کے ہر امیدوار کے خلاف اپوزیشن کا مشترکہ امیدوار اتارنے کے لئے ہر ریاست میں ہر ذمہ دار اپوزیشن پارٹی کو قربانی کے احساس سے آگے آنا ہوگا، مثلاً عوامی مقبولیت کا دعوی ایک پارٹی کے پاس ہے اور دوسری اتحادی پارٹی کے پاس بی جے پی کو شکست دینے کی قوت رکھنے والا طاقتور امیدوار ہے تو ایسی صورت میں اس اپوزیشن جماعت کو قربانی کے نظریہ کے تحت کام کرنا ہوگا تاکہ بی جے پی کو اپوزیشن پارٹیوں کی سیاسی کمزوری کا فائدہ اٹھانے کا موقع ہاتھ نہ لگے۔

ریاستی اعداد و شمار کا حساب لگائیں تو بی جے پی کی پوری طاقت یوپی میں ہی لگنے والی ہے، حالانکہ ایس پی-بی ایس پی اور آر ایل ڈی کے درمیان سیٹوں پر رضامندی ہونے کے باوجود کانگریس ابھی اس اتحاد میں شامل نہیں ہے، کانگریس نے ریاست کی تمام 80 سیٹوں پر باقی دیگر اتحادیوں کے ساتھ الیکشن لڑنے کا اعلان کر دیا ہے، کئی سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اتر پردیش میں کانگریس کے اتحاد سے باہر رہنے سے بی جے پی کو براہ راست ٹکر دینے کی حکمت عملی کمزور پڑ سکتی ہے، جبکہ دوسرے تجزیہ کاروں کا یہ کہنا ہے کہ ایسی سیٹوں پر جہاں بی جے پی کا گہرا اثر ہے، وہاں بی جے پی کو بی ایس پی-ایس پی امیدوار نہیں بلکہ کانگریس کے بینر تلے ہی ٹکر دی جا سکتی ہے۔

بی جے پی کے خلاف سیاسی پولرائزیشن کی بنیاد ثابت ہوئی کولکاتا ریلی

پہلے بی جے پی کی حکمت عملی یہ تھی کہ یوپی میں اگر کم سیٹیں بھی ملیں گی تو ان سیٹوں کی تلافی شمال مشرقی ریاستوں سےہو جائے گی، لیکن شہری ترمیمی بل کی وجہ سے آسام ہی نہیں شمال مشرق کی دیگر ریاستوں میں بھی طوفان کھڑا ہو گیا ہے، اس بل میں پڑوسی ملکوں میں رہنے والے ہندو، سکھ، عیسائی، بدھ مت اور پارسی جیسے غیر مسلم شہریوں کو ہندوستانی شہریت کا قانون ہے۔

شمال مشرق کے سب سے بڑے صوبہ آسام میں غیر آسامی نژاد (جنہیں بنگلادیشی کہا جاتا ہے) کا معاملہ گزشتہ تین دہائیوں سے ایک بڑا سیاسی مسئلہ بنا ہوا ہے، بی جے پی کی اہم اتحادی آسام گن پریشد جوکہ غیر آسامی نژاد لوگوں کو ریاست سے باہر کرنے کی مانگ کو لے کر تحریک چلاتی رہی ہے، اس بل کی مخالفت میں بی جے پی سے ناطہ توڑ لیا ہے، اے جے پی، کانگریس سمیت شمال مشرق کی دیگر جماعتوں کا الزام ہے کہ اس قانون سے راجیو گاندھی اور آسام گن پریشد حکومت کے درمیان ہوئے تاریخی معاہدہ کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔

بی جے پی کے خلاف سیاسی پولرائزیشن کی بنیاد ثابت ہوئی کولکاتا ریلی

بی جے پی کے خلاف ریاستی اتحاد میں یوپی کے بعد 48 لوک سبھا سیٹوں والا مہاراشٹر سب سے اہم صوبہ ہے، وہاں کانگریس اور نیشنلسٹ کانگریس میں مل کر الیکشن لڑنے پر تقریباً اتفاق ہوچکا ہے، اس کے بعد بہار کی 40 سیٹیں ہیں جہاں آر جے ڈی، کانگریس اور بی جے پی سے ناطہ توڑ کر آئے اوپیندر کشواہا سمیت پسماندہ عوامی مقبولیت والے کچھ اور رہنماؤں نے مشترکہ محاذ بنا لیا ہے، کرناٹک، چھتیس گڑھ، مدھیہ پردیش، راجستھان اور پنجاب میں بھی کانگریس 2014 کے مقابلے کہیں زیادہ اچھی کارکردگی کی امید لگائے بیٹھی ہے، تمل ناڈو، آندھرا پردیش اور تلنگانہ میں بھی کانگریس بالترتیب، ڈی ایم کے اور تیلگودیشم پارٹی سے تال میل کرکے الیکشن لڑے گی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔