بیرون ملکی زمین پر مہنگی مہم جوئی!... آشیش رے

ہندوستانی سیکورٹی ایجنسیوں کے اعلیٰ افسران پر حکومت اسپانسرڈ اقدام نے حکمت عملی سے متعلق ملک کے مفادات کے لیے بڑا خطرہ پیدا کر دیا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>ہندوستان اور کناڈا کا پرچم</p></div>

ہندوستان اور کناڈا کا پرچم

user

آشیش رے

کناڈا نے گزشتہ دنوں نیوکلیائی بم جیسا ہی ’سفارتی دھماکہ‘ کر دیا۔ انگریزی اخبار ’واشنگٹن پوسٹ‘ کے مطابق کناڈائی افسران کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس اس بات کے پختہ ثبوت ہیں کہ کناڈا میں خالصتان حامی سکھوں پر نظر رکھنے اور ان پر حملے کو انجام دینے کا فرمان براہ راست مرکزی وزیر امت شاہ کی طرف سے آیا تھا۔ غور کرنے والی بات یہ بھی ہے کہ امت شاہ تبھی سے نریندر مودی کا داہنا ہاتھ رہے ہیں جب وہ گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے۔

14 اکتوبر کے شمارہ میں ’واشنگٹن پوسٹ‘ نے لکھا ہے کہ ’’کناڈائی افسران نے سنگاپور میں ہفتہ (12 اکتوبر) کو ہوئی ایک خفیہ میٹنگ میں ہندوستان کے قومی سیکورٹی مشیر (این ایس اے) اجیت ڈوبوال کے ساتھ امت شاہ کے حوالہ جات اور دیگر ثبوتوں کے بارے میں تفصیل پیش کی۔‘‘ مبینہ طور پر کناڈائی این ایس اے نے ڈوبوال کو بتایا تھا کہ کناڈا واقع ہندوستانی سفیر ہندوستان مخالف سکھوں کے بارے میں پتہ کر رہے تھے۔ اخبار ’نیویارک ٹائمز‘ کے مطابق اس کے لیے مخبروں کو پیسے دیے جا رہے تھے یا پھر لوگوں کو ڈرا دھمکا کر جانکاری نکالی جا رہی تھی۔ یہ معلومات مبینہ طور پر ہندوستان کی باہری جاسوسی ایجنسی را (ریسرچ اینڈ اینالیسس ونگ) سے شیئر کی جا رہی تھیں جو انھیں ختم کرنے کے لیے لارنس بشنوئی گروہ کا استعمال کر رہی تھی۔ لارنس بشنوئی حال ہی میں مہاراشٹر کے لیڈر بابا صدیقی کے قتل میں ہاتھ ہونے کے امکانات کی وجہ سے سرخیوں میں ہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے لکھا ہے کہ ’’ڈوبوال نے رد عمل ظاہر کرتے ہوئے یہ کہا کہ ہندوستان نجر کے قتل اور کناڈا میں کسی بھی دیگر تشدد سے کسی بھی طرح کے رشتوں سے انکار کرے گا، چاہے ثبوت کچھ بھی ہوں۔‘‘


غور طلب ہے کہ ڈوبوال کو خود نیویارک کی ایک عدالت نے گرپتونت سنگھ پنو کی شکایت کے سلسلے میں طلب کر رکھا ہے۔ پنو خالصتانی ہے جس کے قتل کی سازش گزشتہ سال امریکہ میں مبینہ طور پر ہندوستانی افسران کی ہدایت پر کی گئی تھی۔ ایک کناڈائی افسر کا حوالہ دیتے ہوئے ’نیویارک ٹائمز‘ نے بتایا کہ کم از کم مزید ایک قتل میں بشنوئی گروہ کا ہاتھ مانا جا رہا ہے۔ وہ ہے ونیپیگ واقع سکھ سکھدول سنگھ گل کا قتل۔ اس معاملے میں اب تک کسی کو حراست میں نہیں لیا گیا ہے۔

یہ دھیان میں رکھنے کی بات ہے کہ امت شاہ جب گجرات میں وزیر داخلہ تھے تو ان پر تین قتل کے الزامات لگے تھے اور انھیں کچھ مہینوں کے لیے حراست میں بھی رہنا پڑا تھا۔ حالانکہ 2014 میں مرکز میں بی جے پی کی حکومت بننے کے بعد اس معاملے کو متنازعہ طریقے سے بند کر دیا گیا۔ امت شاہ آج مرکزی وزیر داخلہ ہیں، اس لیے ان کا حلقہ اختیار داخلی امور تک محدود مانا جاتا ہے۔ ایسے میں بیرون ملکی آپریشن میں ان کا ہاتھ ہونے کا شبہ حیران کرتا ہے۔ بیرون ممالک میں ’آپریشن‘ عام طور پر باہری جاسوسی ایجنسیوں کے حلقہ اختیار میں آتا ہے۔ ویسے لارنس بشنوئی کو گجرات کی اعلیٰ سیکورٹی والی جیل میں رکھا گیا ہے اور اگر حکومت ہند واقعی میں بشنوئی گروہ کو اپنے اشارے پر نچا رہی  ہے تو یہ کام شاہ کی جانکاری اور منظوری کے بغیر نہیں ہو سکتا۔


یہ بات سبھی کو پتہ ہے کہ امت شاہ نے 2006 کے بعد سے کبھی بیرون ملک کا سفر نہیں کیا ہے۔ برطانیہ کے یونیورسل جوریڈکشن لاء کے تحت اگر امت شاہ کبھی بھی یونائٹیڈ کنگڈم (برطانیہ) جاتے ہیں تو ان کے خلاف گجرات میں وزیر رہتے ان کے مبینہ جرائم کے لیے مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔

ہندوستان اور کناڈا کے درمیان تنازعہ 13 ماہ پہلے اس وقت شروع ہوا جب کناڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے کہا کہ ان کے پاس وینکوور میں خالصتانی کارکن ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں ہندوستانی ایجنٹس کے شامل ہونے کے ثبوت ہیں۔ 14 اکتوبر کو انھوں نے کہا کہ آر سی ایم پی (رائل کینیڈین ماؤنٹیڈ پولیس) کے پاس اس بات کے واضح اور پختہ ثبوت ہیں کہ حکومت ہند کے ایجنٹ ایسی سرگرمیوں میں شامل رہے ہیں اور اب بھی شامل ہیں جو (کناڈا میں) پبلک سیکورٹی کے لیے ایک بڑا خطرہ پیدا کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’’آر سی ایم پی کے ذریعہ سامنے لائے گئے ثبوتوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے یہی نتیجہ نکلتا ہے: کناڈا میں پبلک سیکورٹی کے لیے خطرہ پیدا کرنے والی مجرمانہ سرگرمیوں کو روکنا ضروری ہے۔‘‘


ٹروڈو نے کہا کہ کناڈا کے لاء انفورسمنٹ ڈپارٹمنٹ نے اس معاملے میں ہندوستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کی کئی کوششیں کیں، لیکن اس کے لیے بار بار منع کر دیا گیا۔ انھوں نے اس معاملے میں ہندوستان سے تعاون کی اپیل کی۔ اس کے جواب میں ہندوستانی وزارت خارجہ نے ٹروڈو پر انتخابی فائدہ کے لیے کناڈائی سکھوں کو خوش کرنے کے ’سیاسی ایجنڈے‘ کو آگے بڑھانے کا الزام عائد کیا ہے۔

وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں گزشتہ ساڑھے دس سالوں میں اقوام متحدہ سیکورٹی کونسل (یو این ایس سی) میں ویٹو پاور والے پانچ مستقل ممالک کے ساتھ تال میل بڑھانے کا کام ان کے بھروسہ مند ساتھی ایس جئے شنکر کر رہے ہیں۔ تال میل بڑھانے کی یہ نام نہاد کوشش پہلے امریکہ کی طرف جھکی رہی؛ جب روس نے بازو مروڑوی تو اس کی طرف جھک گئی؛ جب فرانسیسیوں نے چکنی چپڑی سنائی تو اس کی طرف جھک گئی؛ البتہ انگریزوں کے بارے میں کچھ سوچا ہی نہیں گیا؛ اور پھر چین کی بے لگام معاشی و فوجی سبقت کے آگے سر بہ سجود ہو گئی۔ جیسے کہ اتنا ہی کافی نہیں تھا کہ کناڈا کو کم سمجھنے اور اس کے خود مختار حقوق کو ہلکے میں لے کر ہندوستان نے جو حکومت اسپانسرڈ مہم جوئی یا حماقت کی، وہ اس کے اپنے حکمت عملی پر مبنی مفادات کو ہی خطرے میں ڈال رہا ہے۔


’دی وائر‘ کے لیے کرن تھاپر کو دیے انٹرویو مین سابق ہندوستانی سفیر چنمے گریکھن کہتے ہیں کہ ’’ہندوستان نے کناڈا کے خلاف بے حد سخت بیان جاری کیا ہے جس میں وزیر اعظم ٹروڈو کے خلاف ذاتی الزامات لگائے گئے ہیں۔ وہیں امریکہ کے ذریعہ اٹھائے گئے پنو کے الزامات کے معاملے میں اس نے بہت سوچ سمجھ کر صبر کے ساتھ رد عمل دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کناڈا کو کمزور مانا جاتا ہے، جبکہ امریکہ ایک طاقت ملک ہے اور ہندوستان کو اس کے ساتھ باہمی تعاون کے طریقہ سے پیش آنا پڑتا ہے۔‘‘ اسی کے ساتھ گریکھان یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’یہ تنازعہ ہمارے لیے اچھا نہیں ہے اور حکومت کو اسے جتنی جلد ہو سکے نمٹانے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے... ورنہ ہندوستان کا وقار، احترام اور بھروسے کو ٹھیس پہنچے گی۔‘‘

ایسا لگتا ہے کہ ہندوستان کے لیے حکمت عملی بنانے والوں کو اس بات کا احساس نہیں ہے کہ شمالی امریکہ کی زمین پر مودی حکومت کے ’حماقت والے کارنامہ‘ سے متعلق امریکہ اور کناڈا یکساں نظریہ رکھتے ہیں۔ ’نیویارک ٹائمز‘ نے اشارہ دیا ہے کہ ایف بی آئی (امریکی فیڈرل بیورو آف انوسٹی گیشن) مودی حکومت کے خلاف ثبوت جمع کرنے میں کناڈا کی مدد کرنے کے لیے آر سی ایم پی کے ساتھ تعاون کر رہی ہے۔


کناڈائی بھلے ہی اقوام متحدہ سیکورٹی کونسل کے ’بگ فائیو‘ کی طرح اپنا اثر نہ دکھا پائیں، لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ کناڈا جی-7 کا رکن ہے، وہ فوجی اتحاد ناٹو (نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن) کا رکن ہے اور فائیو آئیز کے نام سے مشہور خفیہ جانکاری جمع کرنے، شیئر کرنے اور جاسوسی مخالف گروپ کا بھی رکن ہے۔ کناڈا کے علاوہ فائیو آئیز کے رکن ہیں امریکہ، برطانیہ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ۔ نیوزی لینڈ کے وزیر خارجہ ونسٹن پیٹرس نے ٹوئٹ کیا ہے کہ ’’نیوزی لینڈ کو کناڈا کے ذریعہ اپنے جنوب ایشیائی طبقہ کے اراکین کے خلاف تشدد اور تشدد کی دھمکیوں کی چل رہی مجرمانہ جانچ پر اپنے حالیہ اعلانات کے بارے میں جانکاری دی گئی ہے۔‘‘ یہ ہندوستان کے لیے ایک سفارتی اشارہ تھا کہ دیگر فائیو آئیز ممالک کناڈا کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے ہیں، اور ہندوستان کو سمجھنا چاہیے کہ ضرورت کے وقت وہ متحد ہو کر کام کریں گے۔

ہندوستان اور کناڈا کے رشتے بے حد خراب ہو گئے ہیں۔ کناڈا نے اوٹاوا میں ہندوستانی ہائی کمشنر سمیت چھ ہندوستانی سفیروں کو معطل کر دیا ہے اور نئی دہلی نے 6 کناڈائی سفیروں کو ’ناپسندیدہ شخص‘ قرار دے کر جوابی کارروائی کی ہے۔ ٹروڈو اور کناڈا کے معاملے میں مودی کا رویہ بے حد لاپروائی والا رہا ہے۔ بھلے ہی کناڈا میں رہنے والے خالصتانی یا امریکہ و برطانیہ میں رہنے والے ان کے حامیوں سے ہندوستان کی سیکورٹی کو کسی طرح کا فطری خطرہ ہو یا نہیں، لیکن جیسا کہ امریکہ اور کناڈا کہہ رہے ہیں، اور برطانوی و آسٹریلیائی افسران جس کی تصدیق کر رہے ہیں، اگر مودی حکومت واقعی میں خالصتانیوں کے خلاف اپنے حلقۂ اختیار سے باہر جا کر انصاف سے باہر سرگرمیوں میں ملوث رہا ہے، تو اس سے خالصتان ایشو کے انٹرنیشنلائزیشن کرنے میں مدد ہی ملی ہے۔ ’خالصتان‘ عملی طور سے ایک مردہ ایشو تھا جسے اس حکومت نے اپنی ناسمجھی سے نئی زندگی دے دی ہے۔ ساتھ ہی، جیسا کہ ’نیویارک ٹائمز‘ کے مضمون میں کہا گیا ہے، ’’اب پوری دنیا کو اندازہ ہو چکا ہے کہ ہندوستانی خفیہ ایجنسیوں میں کام کرنے والے سفیر، جاسوس، نوکرشاہ اور پولیس افسران کس طرح کام کرتے ہیں۔‘‘