حکومت کی نیت صاف نہیں!

2024 کے انتخابات سے پہلے مردم شماری میں ذات کی گنتی کو شامل نہیں کیا گیا تو او بی سی برادری میں مرکزی حکومت کے خلاف سخت پیغام جائے گا اور ملک میں تحریک بھی شروع ہوسکتی ہے۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر نواب علی اختر</p></div>

تصویر نواب علی اختر

user

نواب علی اختر

ملک میں 2021 میں ہونے والی مردم شماری کی تاریخ میں پانچویں بار توسیع کی گئی ہے۔ مردم شماری کے دفتر آفس آف رجسٹرار اینڈ سینس نے تمام ریاستوں کو خط لکھ کر 30 جون 2023 تک انتظامی حدود کو سیل کرنے کو کہا ہے۔ ایک بار سرحدیں سیل ہونے کے 3 ماہ بعد ہی مردم شماری شروع ہو سکتی ہے۔ یعنی اب 2024 سے پہلے مردم شماری ہونا مشکل ہے۔ مردم شماری کے لیے گھروں کی فہرست سازی اور قومی آبادی رجسٹر کو اپ ڈیٹ کرنے کا کام یکم اپریل سے 30 ستمبر 2020 کے درمیان ہونا تھا لیکن کورونا وبا کی وجہ سے اسے ملتوی کر دیا گیا۔ اس کے بعد سے مسلسل تاریخ میں توسیع کی جا رہی ہے۔

مردم شماری کے دفتر نے تمام ریاستوں سے کہا ہے کہ وہ 30 جون 2023 تک انتظامی حدود کو سیل کر دیں۔ جبکہ قانون یہ ہے کہ کسی علاقے کی حدود کا تعین ہونے کے 3 ماہ بعد ہی مردم شماری شروع ہو سکتی ہے۔ اس لیے فی الحال 30 ستمبر 2023 تک مردم شماری شروع ہونے کے آثار معدوم ہوچکے ہیں۔ ہر مردم شماری سے پہلے ریاستوں کو ضلع، بلاک، گاؤں، شہر، قصبہ، تھانہ، تعلقہ، پنچایت وغیرہ کے نام اور علاقے کی معلومات رجسٹرار جنرل اینڈسینس کمشنر (آرجی آئی) کو فراہم کرنا ہوتی ہے جس کسی بھی جگہ کا نام یا جغرافیہ تبدیل ہوتا ہے، اس کی بھی معلومات آر جی آئی کو فراہم کرنا ضروری ہوتی ہے۔


مردم شماری میں تاخیر کے لیے مختلف حلقوں سے اٹھی ذات پات کی مردم شماری کی مانگ کو ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔ بہار، یوپی، مہاراشٹر سمیت کئی ریاستوں میں سیاسی پارٹیاں ذات پر مبنی مردم شماری کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ ایسے میں 2024 کے انتخابات سے پہلے مردم شماری میں ذات کی گنتی کو شامل نہیں کیا گیا تو او بی سی برادری میں مرکزی حکومت کے خلاف سخت پیغام جائے گا اور ملک میں تحریک بھی شروع ہوسکتی ہے جس کی وجہ سے بی جے پی کو ایک بڑا ووٹ بینک کھسکنے کا ڈر ستا رہا ہے۔ قوی امکان یہی ہے کہ انہیں وجوہات سے مرکزی حکومت مردم شماری کو لگاتار ملتوی کر رہی ہے۔

یاد رہے کہ 2018 میں مرکز کی بی جے پی حکومت نے 2019 کے لوک سبھا انتخابات کو ذہن میں رکھتے ہوئے او بی سی کی مردم شماری کرانے کا وعدہ کیا تھا۔ اب حکومت اپنے وعدے سے انحراف کرتی نظر آرہی ہے اور اسی اہم موضوع کو لے کر حکومت عدالت عظمیٰ کی پناہ میں پہنچ گئی ہے۔ حکومت نے سپریم کورٹ میں دائر ایک حلف نامہ میں یہاں تک کہا ہے کہ موجودہ حالات میں ذات کی گنتی ممکن نہیں ہے۔ مردم شماری میں توقع کے برعکس کچھ معلومات سامنے آسکتی ہیں۔ اس کا نتیجہ ملک کی سیاست پر بھی پڑے گا۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت اسے ملتوی کر رہی ہے جسے وعدہ خلافی سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔


صاف ہے کہ سیاسی وجوہات کی بنا پر مردم شماری ملتوی کی جا رہی ہے جس کی وجہ سے عام لوگوں کو نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ کورونا کے دوران کئی انتخابات اور دوسرے بڑے پروگرام ہوئے لیکن مردم شماری نہیں ہوئی۔ سینس بورڈ کو سامنے آکر بتانا چاہئے کہ اسے کیوں ملتوی کیا جا رہا ہے؟ ایسے اداروں کو حکومت کے دباؤ میں آئے بغیر اپنا کام صحیح طریقے سے کرنا چاہیے۔ ہندوستان میں مردم شماری کی 150 سالہ تاریخ میں پہلی بار ایسا ہو رہا ہے۔ 1941 میں آخری بار مردم شماری اپنے مقررہ وقت پر نہیں ہوسکی تھی جب دنیا میں دوسری جنگ عظیم جاری تھی اس وقت ڈیٹا مرتب کرنے میں وقت لگ گیا تھا۔

 مردم شماری اگر وقت پر ہو جائے تو پچھلے سال کا اندازہ لگانا، حال کو درست طریقے سے بیان کرنا اور مستقبل کی پیشین گوئی کرنا آسان ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق کسی بھی ملک کی معاشی اور سماجی بہبود کے لیے وقت پر مردم شماری کرانا ضروری ہوتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ بروقت مردم شماری کی وجہ سے پنچایت اور تعلقہ کی سطح پر ڈیٹا حکومت کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ اس ڈیٹا کے ذریعے حکومت ترقیاتی منصوبوں کو عام لوگوں تک پہنچانے کا کام کرتی ہے مگر ہندوستان میں مردم شماری میں مسلسل تاخیر سے یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ اس اہم معاملے میں بھی حکومت کی نیت صاف نہیں ہے۔


حالات کا مطالعہ کرنے کے بعد معلوم ہوا ہے کہ ایسا صرف ہندوستان میں ہی دیکھا جا رہا ہے۔ امریکہ میں کورونا عروج پر ہونے کے باوجود 2020 میں مردم شماری کرائی گئی۔ اسی طرح برطانیہ، انگلینڈ، اسکاٹ لینڈ اور آئرلینڈ میں بھی مختلف ایجنسیوں نے کورونا کی لہر کے دوران مقررہ وقت پر مردم شماری کے لیے ڈیٹا جمع کرنا شروع کر دیا تھا۔ اب ان ممالک کی ایجنسیاں ڈیٹا کو ترتیب دے کر اس کا تجزیہ کر رہی ہیں۔ پڑوسی ملک چین نے بھی اپنے یہاں کورونا وبا کے دوران مقررہ وقت پر مردم شماری کرائی تھی۔ یہاں مردم شماری کے بعد تمام اہم نتائج سامنے آگئے ہیں۔

مرکزی حکومت کی جانب سے امور داخلہ کے وزیر مملکت نتیا نند رائے نے بھی 10 مارچ 2021 کو پارلیمنٹ میں کہا تھا کہ پہلے کی طرح اس بار بھی مردم شماری کرائی جائے گی۔ درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کے علاوہ کسی بھی ذات کا ڈیٹا جمع کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ یاد رہے کہ 9 فروری 1951 کو جب آزاد ہندستان میں پہلی بار مردم شماری ہوئی تھی تو اس وقت آبادی تقریبا 36.10 کروڑ تھی۔ اب 2023 میں آبادی 141 کروڑ ہونے کا اندازہ ہے۔ ملک میں آخری مردم شماری 2011 میں ہوئی تھی جب آبادی 121 کروڑ سے زیادہ تھی۔ اسی طرح 2001 سے 2011 کے درمیان ملک کی آبادی میں تقریباً 18 فیصد اضافہ ہوا تھا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔